قراقرم ہائی وے پر راولپنڈی سے گلگت جانے والی بس کے حادثے میں پولیس کے مطابق کم از کم 21 افراد جان سے گئے ہیں جبکہ 35 افراد زخمی ہیں۔
پولیس کے مطابق نجی کمپنی کی بس 300 میٹر گہری کھائی میں گر گئی اور حادثہ بس مڑنے کے دوران پیش آیا۔
قراقرم ہائی وے گلگت بلتستان کو پاکستان سے ملانے والا لمبا ترین روٹ ہے جسے روزانہ کی بنیاد پر ہزاروں مسافر استعمال کرتے ہیں۔
ملک کے دیگر شہروں سے گلگت جانے کے لیے ایک سرکاری ٹرانسپورٹ ادارہ ’دی ناردن ایریا ٹرانسپورٹ کارپوریشن‘ کے نام سے موجود ہے جبکہ اس کے علاوہ مختلف نجی کمپنیاں ہیں جو سفری سہولت فراہم کرتی ہیں۔
دی ایکسپلورر اسلام آباد نامی جریدے میں قراقرم ہائی وے پر ٹریفک حادثات کے بارے میں شائع تحقیق کے مطابق 60 فیصد سے زائد مسافر اور 90 فیصد سے زائد سامان کے نقل و حمل میں سرکاری ٹرانسپورٹ کمپنی کی بسیں ہی استعمال کی جاتی ہیں تاہم گلگت بلتستان تک یہ سفر خطرے سے خالی نہیں ہوتا کیونکہ قراقرم ہائے وے پر ٹریفک حادثات کی وجہ سے سینکڑوں افراد جانیں گنوا چکے ہیں جبکہ ہزاروں زخمی ہو چکے ہیں۔
عالمی ادارہ صحت کے اعدادوشمار کے مطابق دنیا میں سالانہ 13 لاکھ سے زائد افراد کی ٹریفک حادثات میں موت واقع ہو جاتی ہے جبکہ 40 لاکھ سے زائد زخمی یا مستقل طور پر معذور ہو جاتے ہیں نیز ٹریفک حادثات 2030 تک دنیا میں موت کی پانچویں بڑی وجہ بن سکتے ہیں۔
قراقرم ہائی وے پر ٹریفک حادثات کی وجوہات
قائد اعظم یونیورسٹی اسلام آباد کی تحقیق کے مطابق پاکستان میں سالانہ 30 ہزار سے زائد افراد کی موت ٹریفک حادثات میں ہوتی ہے اور اوسطاً روزانہ 15 افراد ٹریفک حادثات میں جان سے جاتے ہیں۔ اسی تحقیق کے مطابق دنیا کے ساتویں خطرناک روڈ قراقرم ہائی وے پر ٹریفک حادثات کی ایک وجہ رفتار کی مقررہ حد سے تیز گاڑی چلانا اور سیٹ بیلٹ نہ باندھنا ہے۔
اسی مقالے کے مطابق پاکستان ٹریفک حادثات کی عالمی رینکنگ میں 67 ویں نمبر پر ہے اور متوفین کی اوسط نوجوانوں یا ادھیڑعمر افراد کی ہے نیز 2014 سے 2017 تک قراقرم ہائی وے پر 778 ٹریفک حادثات رپورٹ ہوئے ہیں۔
اس تحقیق کے لیے منتخب 475 ڈرائیوروں میں سے 50 فیصد کے پاس ڈرائیونگ لائسنس نہیں تھا جبکہ 45 فیصد سے زائد ڈرایئوروں نے بتایا کہ دوران سفر وہ نشے کا استعمال کرتے ہیں۔
ایک سوال یہ بھی پوچھا گیا تھا کہ کیا پولیس ’ڈرنک ڈرائیور‘ کو چیک کرتے ہیں، جس میں 74 فیصد سے زائد ڈرائیورز نے بتایا کہ پولیس ایسا نہیں کرتی۔ 50 فیصد سے زائد ڈرائیوروں کا یہ بھی کہنا تھا کہ وہ دوران ڈرائیونگ کسی نہ کسی ٹریفک حادثے کا شکار ہوئے ہیں لیکن پھر بھی 65 فیصد سے زائد ڈرائیور حضرات سیٹ بیلٹ نہیں باندھتے۔
شیر خان گلگت بلتستان محکمہ پولیس کے سپرانٹنڈنٹ پولیس ہیں اور قراقرم ہائی وے پر مختلف ٹریفک حادثات کی تحقیقات کر چکے ہیں۔ انہوں نے انڈپینڈنٹ اردو کو بتایا کہ ’قراقرم ہائی وے 650 کلومیٹر پر محیط انتہائی لمبا روٹ ہے اور زیادہ تر ہم نے مشاہدہ کیا ہے کہ بس کا ایک ہی ڈرائیور ہوتا ہے۔ راولپنڈی سے گلگت پہنچنے میں 16 سے 18 گھنٹے لگتے ہیں، اتنا بڑا روٹ ہو تو بس میں دوسرا ڈرائیور ضرور ہونا چاہیے۔‘
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
دوسری وجہ ایس پی شیر خان کے مطابق پبلک گاڑیوں کا فٹنس ٹیسٹ نہ ہونا ہے۔ انہوں نے بتایا کہ گلگت بلتستان میں محکمہ ایکسائز و ٹیکسیشن اتنا فعال نہیں ہے جتنا ہونا چاہیے۔ ’آج کا واقعہ بھی ٹائر پھٹنے کی وجہ سے پیش آیا ہے۔ اتنے لمبے روٹ پر بس چلانے کے لیے موٹر وہیکل ایگزامنر ضروری ہیں تاکہ گاڑیوں کو باقاعدہ چیک کر کے فٹنس سرٹیفیکیٹ جاری کیا جا سکے۔ تیسری وجہ اس سڑک کا پرپیچ اور خطرناک ہونا ہے، اس وجہ سے بھی اس روٹ پر حادثات ہوتے ہیں۔‘
دی ایکسپلورر اسلام آباد نامی جریدے کے مطابق خراب موسم کے باعث بھی ٹریفک حادثات سامنے ہوتے ہیں کیونکہ قراقرم ہائی وے پہاڑوں کے بیچ سے گزرتا ہے اور بارشوں کی وجہ سے اکثر لینڈ سلائڈنگ کے بعد یہاں سڑک خراب ہوجاتی ہے۔
گلگت بلتستان ٹورسٹ پولیس کے سربراہ وزیر نیک عالم نے انڈپینڈنٹ اردو کو بتایا کہ ’ڈرایئورز کی غفلت ایک بنیادی وجہ ہے اور ہم نے حادثات کا ٹرینڈ ایسا دیکھا ہے کہ زیادہ تر حادثے صبح سویرے ہوتے ہیں۔ بظاہر یہی لگتا ہے کہ رات بھر ڈرائیونگ کر کے ڈرایئوروں کو نیند آجاتی ہے اور زیادہ تر گاڑیوں میں دوسرا ڈرایئور نہیں ہوتا۔‘
نیک عالم کے مطابق ’قراقرم ہائی وے ایک لمبا روٹ ہے لیکن اس روٹ پر موٹر وے کی طرح ٹریفک اہلکار تعینات نہیں ہوتے۔ اس پورے روٹ پر موٹر وے طرز کی ایک فورس ہونا چاہیے تاکہ ٹریفک قوانین پر عمل درآمد یقینی بنایا جا سکے۔‘