سندھ کے شہروں عمر کوٹ، مٹھی اور چیلہار میں بسنے والی ورتیا برادری کے لوگ گھر گھر جا کر بخشش لیتے ہیں اور اس میں وہ سرسوں کا تیل اور لوہا وصول کرتے ہیں۔
یہ برادری شنی دیوو کی پجاری ہے اور اس برادری کے پاکستان میں صرف 50 کے قریب خانداں ان شہروں میں آباد ہیں۔
اس برادری کے لوگ ہر ہفتے کے دن ہندو مذہب سے تعلق رکھنے والی برادریوں کے پاس گھر گھر بخشش لیتے ہیں۔
وہ لوگ ان کو بخشش میں سرسوں کا تیل اور لوہا دیتے ہیں۔ لوہے میں سکے کیل اور بھی کوئی لوہے سے بنی چیز ہوسکتی ہے۔
سارے دن میں ایک فرد کو ایک سے دو کلوگرام سرسوں کا تیل ایک کلوگرام کے قریب لوہے کے کیل اور کچھ سکے ملتے ہیں۔ یہ ان کو کسی بھی دکان پر بیچ دیتے ہیں۔
اسے بیچنے سے انہیں 500 سے 700 روپے مل جاتے ہیں جسے وہ اپنے گھر کے اخراجات میں استعمال کرتے ہیں۔
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
اسی برادری سے تعلق رکھنے والے واسدیو ورتیو نامی شخص نے انڈپینڈینٹ اردو کو بتایا کہ ’ہندوستان میں بسنے والے ہماری برادری کے لوگوں کو وہاں کے لوگ بھارگوو کہتے ہیں، جب کے پاکستاں میں ہمیں ورتیا مہراج اور چھنچھریا (ہفتہ) مہراج بھی کہا جاتا ہے۔‘
ان کا کہنا تھا کہ ’ہماری برادری کے کم لوگ پاکستان میں صرف سندھ میں بستے ہیں اس لیے مٹھی سے ہماری برادری کے لوگ پنجاب، بلوچستان اور خیبر پختونخواہ کے ان علاقوں میں بھی جاتے ہیں جہاں پر ہندو مذہب سے تعلق رکھنے والے لوگ رہتے ہیں۔‘
واسدیو نے بتایا کہ ’پاکستان میں شنی دیوو کا پہلا مندر مٹھی میں بنا اس کے بعد عمرکوٹ میں اور دوسرے شہروں میں بنے۔
’جب پاکستان میں شنی دیوو کے مندر نہیں ہوا کرتے تھے تو شنی دیوو کو ماننے والے لوگ گاؤں اور شہروں میں چوراہوں پر سرسوں کا تیل ڈالتے تھے۔ اب مندر بھی بن گئے ہیں مگر لوگ اب بھی چوراہوں پر سرسوں کا تیل ڈال دیتے ہیں اور مندر میں مورتیوں کے اوپر بھی ڈالتے ہیں۔‘
واسدیوو نے انڈپینڈینٹ اردو کو مزید بتایا کہ ’جس شخص پہ شنی دیوو کا دوش ہوتا ہے۔ وہ ہفتے کے دن کالے کپڑے پہنتا ہے۔ یہ دوش ساڈے سات سال یا ساڈے دو سال تک چلتا ہے۔ تب تک اسے ہر ہفتے کے دن کالے کپڑے پہننے ہوتے ہیں۔