یہ اسلام آباد کی خوشگوار صبح تھی، مارچ کی نو تاریخ اور سال 2007۔ اسلام آباد کے ایوانوں میں کچھ ہلچل کی مسلسل خبریں تھیں اور ڈرائنگ رومز میں کسی انکار کی پہلے سے گونج۔
جنرل مشرف اپنے دور اقتدار کے اس نازک دور سے گزر رہے تھے جہاں وہ تنہائی کا شکار ہو چکے تھے۔ ان کا اپنا ادارہ ان کے خلاف کھڑا تھا اور سیاسی جماعتیں اور عوام دوسری جانب منہ موڑے بظاہر ’جدوجہد‘ کا آغاز کر چکی تھیں۔
انقلاب کی گھنٹی بج رہی تھی یا بغاوت کی بو، اسی تنہائی میں جنرل پرویز مشرف نے متنازع فیصلے کیے، ایمرجنسی لگائی، ٹی وی چینلز بند کیے، مجھ سمیت کئی صحافیوں کو پابند کیا لیکن وہ مقاصد حاصل نہ کر سکے جو وہ کرنا چاہتے تھے۔
اقتدار اور طاقت دونوں کا مجموعہ اختیار کو پائیدار کرتا ہے مگر یہاں یہ اختیار چھڑی کے ہاتھ پر مضبوط ہاتھ جمانے سے حاصل ہوتا ہے جو صرف اور صرف مقتدر حلقوں کے پاس ہے۔ جنرل مشرف اس اختیار سے محروم ہو چکے تھے۔
انہیں بتایا جا چکا تھا کہ تخت کی گرفت ریت کی مانند ہاتھ سے پھسل رہی ہے سو انہیں لگ بھگ نو سال کے طویل اقتدار کے بعد ’پاکستان کا اللہ ہی حافظ‘ کے الفاظ ادا کر کے اختیار سے ہاتھ اٹھانا پڑا۔
ادارۂ ہٰذا نے فیصلہ کر لیا تھا کہ اب براہ راست کسی قسم کی سیاست اور اقتدار میں آنے کا راستہ اختیار نہیں کرنا، یوں بھی تخت کے پائے جن ہاتھوں میں ہوں انہیں سواری کی کیا ضرورت۔
اب ہائبرڈ نظام کا تسلسل ہے اور دیوار سے لگی مقتدرہ کے گلے پر ہاتھ پڑا تو اس نے بھی گلے پر ہاتھ ڈالنا شروع کر دیا۔ نو مئی سے قبل اسٹیبلشمنٹ کا رویہ یہ تھا کہ وہ سیاست میں عدم مداخلت پر راضی نظر آتے تھے اور نو مئی کے بعد کی مقتدرہ سیاست میں مداخلت حق سمجھ رہی ہے۔
اس بحث میں الجھے بغیر کہ اس کی ذمہ داری کس پر ہے اور اس میں عمران خان کتنے قصوروار ہیں، سوال یہ ہے کہ سیاسی خلا کیوں پیدا ہوا اور سیاست کو کیا نقصان پہنچا۔
اداروں میں خلیج وسیع ہوئی، سیاست تاراج اور ریاست منقسم۔ گروپ بندی اور اداروں میں سیاسی تقسیم نے خلا کو مزید وسیع کر دیا۔ اس کی ایک مثال جنرل لودھی کی وہ تجاویز ہیں جو کسی ریٹائرڈ جنرل نے ادارے کے لیے نہیں بلکہ بظاہر سیاسی جماعت کے لیے پیش کی ہیں۔
جنرل لودھی کی جانب سے عمران خان سے مذاکرات کے لیے پیش کردہ تجاویز بہرحال یک طرفہ کوشش ہے جسے ادارے میں پذیرائی حاصل نہیں ہوئی۔ مقتدرہ سے وابستہ سابقین کی اکثریت اسی ’تبدیلی‘ کی خواہاں ہے جس پراجیکٹ کا وہ خود حصہ رہے ہیں۔
دہائی سے زائد عرصے کی لگن، وابستگی اور عہد نے پراجیکٹ عمران کے لیے جو یقین پیدا کیا ہے اس کی منزل دو تہائی اکثریت، صدارتی نظام اور فرد واحد کی حکومت ہے۔
ستم ظریفی تو یہ ہوئی کہ ہارڈ ڈسک کے کل پرزے ڈیلیور نہ کر سکے۔ مقتدرہ یہ المیہ ماضی میں بھگت چکی تھی سوائے اس کے کہ اب کی بار سارے انڈے ایک ہی ٹوکری میں ڈال دیے گئے۔ ادارے کی جانب سے یوٹرن کی صورت کوئی بیک اپ پلان موجود نہ تھا، لہٰذا پرانے سیاست دانوں پر ہی گزارا کرنا پڑا۔
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
سوشل میڈیا اور سیاسی میدان میں لڑتا اور اپنے اختیار کو مضبوط کرنے کی لگن میں ادارہ نئے اقدامات کی جانب بڑھ رہا ہے۔ سوشل میڈیا کے لیے نئے قوانین تجویز کیے جا رہے ہیں مگر بوتل سے نکالے جانے والے جن واپس بوتل میں کیسے جائیں گے، یہ محاذ بھی آخری حد تک گرم رہے گا۔
نو مئی قریب ہے، نہ جانے یہ سالگرہ کس طرح منائی جائے گی؟ عمران خان جیل میں ہیں اور مذاکرات میں ناکامی کی صورت برطانوی اخبارات میں بظاہر مصنوعی ذہانت کے ذریعے آرمی چیف کو ہدف بنا رہے ہیں جبکہ سیاسی جماعتوں سے بات چیت کے لیے تیار نہیں۔
عمران خان عوام کی طاقت سے زیادہ مقتدرہ کی طاقت تسلیم کرتے ہیں۔ وہ جانتے ہیں کہ عوامی طاقت سے زیادہ اسٹیبلشمنٹ کی طاقت کارگر ہے اور ان کے بغیر اقتدار تو کیا سیاست بھی ممکن نہیں۔ یہی وجہ ہے کہ بضد ہیں کہ مذاکرات صرف اسٹیبلشمنٹ سے ہوں گے مگر نہ جانے کس ’عہد‘ کے پابند ہیں کہ فوج کے سربراہ کو الگ کر کے چند شخصیات سے بات کرنا چاہتے ہیں۔
آرمی چیف نہیں تو فوج میں اور کون ہے جس پر وہ بھروسہ کر سکتے ہیں؟ کیا وجہ ہے کہ وہ فوج کی قیادت کو الگ کر کے مذاکرات کی بات آگے بڑھانا چاہتے ہیں۔ عمران خان بہت سوچے سمجھے انداز میں ’مائنس ون‘ فارمولے پر عمل کر رہے ہیں تاکہ ذاتی عناد کا عنصر بھی رہے اور اسٹیبلشمنٹ مخالف تاثر بھی۔
عمران خان میاں نواز شریف کی پالیسی پر عمل پیرا ہیں کہ جنہوں نے جنرل باجوہ اور جنرل فیض کو نشانہ بنا کر سیاسی اہداف حاصل کیے۔ کیا عمران بھی یہ حاصل کر پائیں گے؟
عدلیہ کے محاذ پر گروہ بندی میز پر بچھی شطرنج کی بساط پر اپنی چال کی منتظر ہے جبکہ مقتدرہ اور انتظامیہ اپنے بادشاہ کو مضبوط کر رہے ہیں۔
اقتدار کی غلام گردشوں کے کئی ایک کھلاڑی اپنے اپنے محاذ پر کھڑے ہو رہے ہیں۔ ایسے میں کون کس کا پیادہ ہے کون کس کے کام آئے گا اور اس کھیل کا پانسہ پلٹے گا یہ کھیل کے آخرتک سمجھ میں نہیں آ پائے گا۔ یہ کھیل اقتدار کا نہیں اختیار کا ہے۔
نوٹ: یہ تحریر کالم نگار کی ذاتی آرا پر مبنی ہے جس سے انڈپینڈنٹ اردو کا متفق ہونا ضروری نہیں۔