پولیو کے خلاف جنگ: حملے مہمات کو کتنا نقصان پہنچاتے ہیں؟

پاکستان میں پولیو ویکسین کے قطرے پلانے والی ٹیموں پر حملے کوئی نئی بات نہیں تاہم یہ جاننا ضروری ہے کہ یہ حملے پاکستان کی پولیو کے خلاف جنگ کو کتنا پیچھے دھکیل دیتے ہیں۔

دو اکتوبر 2023 کو کراچی میں ایک ورکر ایک بچے کو پولیو کے خلاف قطرے پلاتے ہوئے (اے ایف پی/ رضوان تبسم)

خیبر پختونخوا کے ضلع بنوں کے علاقے منڈان میں رواں ہفتے بچوں کو پولیو کے خلاف قطرے پلانے والی ٹیم کی سکیورٹی پر مامور پولیس اہلکاروں پر حملے میں دو زخمیوں میں سے ایک اہلکار جان کی بازی ہار گئے۔

پاکستان میں پولیو ویکسین کے قطرے پلانے والی ٹیموں پر حملے کوئی نئی بات نہیں تاہم یہ جاننا ضروری ہے کہ یہ حملے پاکستان کی پولیو کے خلاف جنگ کو کتنا پیچھے دھکیل دیتے ہیں۔

بنوں میں حملے کے اگلے روز جمعرات کو پولیس نے بتایا کہ ’ان شدت پسندوں کے خلاف انٹیلی جنس بیسڈ آپریشن کیا گیا جس کے نتیجے میں ایک شدت پسند مارا گیا جبکہ دوسرا زخمی حالت میں فرار ہوگیا تھا۔‘

اسی حملے سے ایک دن قبل بنوں ہی کے علاقے سورانی طورکہ میں بھی پولیس کے مطابق پولیو ٹیم کو نشانہ بنایا گیا تھا جس کے نتیجے میں ایک پولیس  اہلکار زخمی ہوئے تھے۔

ایشیا پیسیفک ہیلتھ نامی جریدے میں مارچ 2023 میں شائع ایک تحقیقی مقالے کے مطابق پاکستان میں مجموعی طور پر 200 تک پولیو ٹیم کے کارکنان مارے گئے ہیں جس میں پولیو ورکرز(مرد و خواتین)، پولیو ٹیم کی سکیورٹی پر مامور اہلکار اور دیگر سٹاف شامل ہیں۔

اس ساری سکیورٹی صورت حال کی وجہ سے ضلعی انتظامیہ بنوں کی جانب سے انسداد پولیو مہم جاری رکھنے کے لیے تین دن کے لیے دفعہ 144 نافذ کردی گئی ہے۔ اس کے مطابق کسی قسم کے اسلحے کی نمائش، موٹر سائیکل کی ڈبل سواری پر پابندی عائد کی گئی ہے۔

پولیو کے خاتمے کے لیے دنیا بھر کی چھ بڑی تنظیموں پر مشتمل گلوبل پولیو ایریڈیکشن اینیشیٹیو (جی پی ای آئی) نے گذشتہ مہینے دنیا بھر میں پولیو صورت حال پر رپورٹ جاری کی ہے۔

اسی رپورٹ میں، جو عالمی ادارہ صحت کی مدد سے مرتب کی گئی ہے، کے مطابق پاکستان میں پولیو کے لیے سکیورٹی حالات ایک بڑا چیلنج بن گئے ہیں جس سے پولیو وائرس پھیلنے کا خطرہ بڑھ سکتا ہے۔

رپورٹ کے مطابق رواں سال 14 نومبر تک پاکستان میں پولیو وائرس کے اب تک پانچ کیسز سامنے آئے ہیں جبکہ نمونے ٹیسٹ کرنے کے دوران 27 نمونوں میں وائرس کی تصدیق ہوئی ہے۔

ان نمونوں میں سات بلوچستان، آٹھ خیبر پختونخوا، نو سندھ اور تین پنجاب میں مثبت آئے ہیں۔

عالمی ادارہ صحت (ڈبلیو ایچ او) کے مطابق پاکستان کے 164 اضلاع میں سے سات اضلاع میں پولیو وائرس موجود ہے۔

دنیا بھر میں پولیو وائرس صرف پاکستان، افغانستان، جمہوریہ کانگو، نائجیریا، صومالیہ اور یمن میں پایا جاتا ہے جس کے خاتمے کے لیے عالمی صحت کے ادارے سرگرم ہیں۔

پولیو کے خاتمے کے لیے سرگرم عالمی اتحاد جی پی ای آئی کی گذشتہ روز مجموعی حالات پر ورچوئل بریفنگ کے دوران جب انڈپینڈنٹ اردو کی جانب سے پوچھا گیا کہ کیا پاکستان میں پولیو ٹیم پر حملے پولیو مہمات کو متاثر کر سکتے ہیں؟

تو اس کے جواب میں پینل میں موجود تنظیم کی نمائندہ شیبا افغان نے بتایا: ’پولیو مہمات کے لیے یہ ایک چیلنج ہے اور اس کو ہم دیکھ رہے ہیں۔‘

انہوں نے بتایا کہ آئندہ ایک مہینے تک ہم اس مسئلے کے حل کے لیے پاکستانی اداروں کے ساتھ مل کر ایک حکمت عملی پر کام کر رہے ہیں جس سے پولیو ورکرز کی سکیورٹی کو یقینی بنایا جائے گا۔

شیبا نے بتایا، ’سکیورٹی حالات کے علاوہ مقامی سطح پر پولیو مہمات کا عوامی بایئکاٹ بھی ایک مسئلہ ہے اور متعلقہ صوبوں کے چیف سیکریٹریز کی مدد سے اس کو حل کیا جا رہا ہے۔‘

مزید پڑھ

اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)

خیبر پختونخوا کے بعض اضلاع میں ماضی میں ایسے مسائل سامنے آئے ہیں جس میں مقامی جرگے یا مقامی افراد کی جانب سے بچوں کو پولیو کے قطرے پلانے کو مقامی مسئال حل کرنے سے مشروط کرتے ہیں۔

ایسی ہی ایک پابندی گذشتہ روز شمالی وزیرستان  میں بھی سامنے آئی ہے جس میں میڈیا رپورٹس کے مطابق مقامی جرگے نے ضلع بھر میں پولیو مہمات پر پابندی عائد کی ہے اور مہم کی اجازت علاقائی مسائل حل کرنے سے مشروط کی ہے۔

پاکستان میں وقتا فوقتا پولیو ویکسین کے خلاف مختلف پروپیگنڈے بھی کیے گئے ہیں۔ اس حوالے سے ایک بڑا مسئلہ 2019 میں پیش آیا تھا جب پولیو ویکسین کے قطرے پینے کے بعد  پانچ ہزار تک کے بچوں کی حالت غیر ہوگئی ہے۔

اس واقعے کے بعد پشاور میں ایک مقامی مرکز صحت کو بھی جلایا گیا تھا لیکن بعد میں محکمہ صحت کے مطابق یہ پولیو ویکسین کے خلاف ایک منظم پراپیگنڈہ کیا گیا تھا اور ذمہ داران کو گرفتار بھی کیا گیا تھا۔

پولیو پروگرام کے منتظمین کیا کہتے ہیں؟

خیبر پختونخوا ایمرجنسی اینڈ آپریشن سینٹر کے ڈپٹی سربراہ زیشان خان نے انڈپینڈنٹ اردو کو بتایا: ’پولیو مہمات میں سکیورٹی اہلکاروں پر حملے قابل افسوس ہیں اور ہم ان بہادر سپوتوں کو سلام پیش کرتے ہیں۔ ‘

انہوں نے بتایا کہ اس قسم کے حملے تکنیکی طور پر مشکلات کا باعث بنتے ہیں کیونکہ اس سے جاری پولیو ویکسین کی مہمات  ملتوی کر دی جاتی ہیں۔

زیشان خان نے بتایا، ’ہم ضلعی انتظامیہ کے ساتھ اس سلسلے میں رابطے میں ہیں اور اسی کوشش میں ہیں کہ پولیو ٹیموں کی سکیورٹی یقینی بنایا جا سکے۔‘

whatsapp channel.jpeg

زیادہ پڑھی جانے والی صحت