چار دن پہلے اچانک بیٹھے بیٹھے مجھے خیال آیا کہ میں نے عرصہ دراز سے بونگ نہیں کھائی۔ ذہن پر زور دیا تو یاد آیا کہ آخری مرتبہ ایک ماہ پہلے بونگ پائے کھائے تھے۔
بیک وقت کشمیری، پنجابی اور لاہوری ہونے کے ناطے مجھے احساس ہوا کہ یہ کوئی قابلِ فخر بات نہیں کہ بونگ کھانے میں اتنا وقفہ دیا جائے۔
ویسے تو لاہور میں کئی جگہ بونگ پائے ملتے ہیں مگر مجھے ذاتی طور پر تارا بونگ پائے پسند ہیں، جو گمٹی بازار، شاہ عالم مارکیٹ میں ہے۔
اگر آپ گوگل کے سہارے اس جگہ پہنچنے کی کوشش کریں گے تو ناکام ہوں گے کیونکہ گوگل کو یہ اندازہ نہیں کہ اندرون لاہور کی گلیاں کسی حسینہ کی زلفوں کی طرح پیچ و تاب کھاتی ہوئی کہیں سے کہیں نکل جاتی ہیں۔
یہاں تک پہنچنے کا بہترین راستہ وہ سڑک ہے جو شاہی قلعے کے ساتھ ساتھ چلتی ہوئی فوڈ سٹریٹ تک آتی ہے، اسے فورٹ روڈ کہتے ہیں، وہاں سے اگر آپ کسی سے گمٹی بازار کا راستہ پوچھیں گے تو آسانی سے چند منٹ میں بازار میں پہنچ جائیں گے۔
تارا بونگ پائے البتہ ایک پتلی سی گلی میں واقع ہے جہاں آپ کو پیدل چل کر جانا پڑے گا اور خیال رہے کہ یہ کام اتوار کی صبح کریں، جب یہ تمام سڑکیں اور راستے صاف اور کھلے ہوں، ورنہ آپ کو تارا بونگ پائے کی جگہ دن میں تارے نظر آ جائیں گے۔
اتوار کوعموماً میں یہی تعمیری کام کرتا ہوں اور پتہ لگاتا ہوں کہ اچھا ناشتہ کہاں سے کیا جا سکتا ہے، میرا ایمان ہے کہ جو لوگ اتوار کو گھر سے ناشتہ کرتے ہیں قیامت کے دن ان کی بخشش نہیں ہونی چاہیے۔
تارا بونگ پائے سے میں نے پلیٹ میں سرخ بوٹی ڈلوائی اور گرما گرم کلچے کے ساتھ پہلا نوالہ لیا، سرور آگیا، پتا نہیں وہ کون لوگ ہوتے ہیں جو ہر وقت ان لذیذ کھانوں کے نقصانات بتاتے رہتے ہیں۔
میں تو ایسی ویڈیوز دیکھ دیکھ کر تنگ آگیا ہوں جن میں بتایا جاتا ہے کہ آپ فقط تخ ملنگے اور کھیرے ہی کھائیں تو تندرست رہ سکتے ہیں۔
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
ایسے ہی ایک صاحب ہیں جو ہر وقت مورنگا کھانے کی ترغیب دیتے رہتے ہیں، ان کی ہر بات مورنگا سے شروع ہوتی ہے اور مورنگا پر ختم ہوتی ہے، ان کا مشن ہے کہ پوری دنیا صرف مورنگا کھائے کیونکہ اسی صورت میں انسان بیماریوں سے دور رہ سکتا ہے۔
ایک مرتبہ یونہی سکرول کرتے کرتے ان مسٹر مورنگا کا ایک انٹرویو سامنے آگیا، جس میں میزبان نے ان کا تعارف کرواتے ہوئے کہا کہ ان صاحب کی صحت قابل رشک ہے اور اس کی وجہ ان کا صحت مندانہ طرز زندگی ہے، سو آئیے ملتے ہیں مسٹر مورنگا سے!
کیمرہ جب موصوف پر پڑا تو یوں لگا جیسے کوئی مریل، مدقوق اور بیمار شخص بیٹھا ہو، کہیں سے بھی ان کے چہرے پر شادابی یا تازگی نظر نہیں آرہی تھی، میں نے دل میں سوچا کہ اگر مورنگا کھانے کے باوجود موصوف کا یہ حال ہے تو ایسے مورنگے سے تو بونگ اچھی!
بہرحال میں اپنی بونگ پر واپس آتا ہوں۔ اندرون لاہور کی اس تنگ سی گلی میں بونگ ختم کرنے کے بعد میں نے ساتھ والی دکان پر نظر دوڑائی تو پتہ چلا کہ وہاں سے انڈے چنے مل رہے ہیں۔ لاہور کی خصوصیت یہ ہے کہ یہاں بد ذائقہ چنے نہیں ملتے، آپ کسی غیر معروف جگہ یا ریڑھی سے بھی چنے کھائیں گے تو آپ کو ہر مرتبہ نئی ورائٹی اور ذائقہ ملے گا۔
میں نے بیٹھے بیٹھے اس دکان کے چنے بھی چکھے، بے حد مزیدار تھے، ساتھ میں تھوڑا سا حلوہ بھی کھانا پڑا کیونکہ بونگ اور چنوں کے بعد سویٹ ڈش کی طلب ہو رہی تھی۔
ویسے تو وہاں لسی بھی دستیاب تھی لیکن میں چونکہ ڈائٹنگ پر تھا اس لیے لسّی سے اجتناب کیا۔
اتوار کو عام طور پر میں اندرون لاہور کی یاترا کے بعد ناشتہ کرتا ہوں مگر اس روز یاترا چھوڑ کر صرف ناشتے پر ہی اکتفا کیا اور دل ہی دل میں اللہ کا شکر ادا کیا کہ اس نے اب تک مجھے ان نعمتوں کا لطف اٹھانے کے قابل رکھا ہوا ہے۔
اس تحریر سے آپ یہ ہرگز مت سمجھیے گا کہ میں مرغن یا غیر صحت بخش غذائیں کھانے کی حوصلہ افزائی کر رہا ہوں یا پھر میں یہ سمجھتا ہی نہیں کہ ان غذاؤں کا کیا نقصان ہوتا ہے! بے شک بندے کو صحت بخش خوراک کھانی چاہیے مگر کبھی کبھار بد پرہیزی کرنے میں کوئی حرج نہیں۔
میں نے ایسے ایسے لوگوں کو دیکھا ہے جنہوں نے زندگی میں کبھی سگریٹ تو کیا ماچس کو بھی ہاتھ نہیں لگایا مگر اس کے باوجود انہیں دل کی بیماریاں لاحق ہیں، کچھ تو فوت بھی ہوچکے ہیں۔
کھانے پینے میں احتیاط ضرور کرنی چاہیے مگر زندگی کو مورنگا جیسی چیزیں کھا کر عذاب بنانے کی بھی ضرورت نہیں، جن کے بارے میں کوئی سائنسی تحقیق بھی موجود نہیں کہ آیا یہ واقعی فائدہ مند ہیں یا نہیں۔
آج کے لیے اتنا ہی کافی ہے کیونکہ اب مجھے اگلی اتوار کی منصوبہ بندی کرنی ہے اور سوچنا ہے کہ غوثیہ کے مٹن چنے کھائے جائیں یا غلام رسول کے! خدا میرا حامی و ناصر ہو۔
نوٹ: یہ تحریر کالم نگار کی ذاتی آرا پر مبنی ہے، جس سے انڈپینڈنٹ اردو کا متفق ہونا ضروری نہیں۔