مصنوعی ذہانت بچھڑے ہوئے پیاروں کو اشتہاروں میں استعمال کر سکتی ہے

تحقیق کے مطابق کچھ کمپنیاں پہلے ہی ایسی خدمات پیش کر رہی ہیں جن میں چیٹ بوٹ کی مدد سے ڈیجیٹل فوٹ پرنٹ کا استعمال کرتے ہوئے مرنے والے شخص کی زبان اور شخصیت کی خصوصیات کی نقل کی جا سکتی ہے۔

آٹھ نومبر 2023 کو چین میں مصنوعی ذہانت کی فرم سپر برین کے بانی کو دیکھا جاسکتا ہے جن کی فرم مردہ افراد کی ڈیجیٹل نقل بناتی ہے (اے ایف پی/ ہیکٹر ریٹامل)

ایک محقق نے متنبہ کیا ہے کہ مصنوعی ذہانت کے چیٹ بوٹس مردہ افراد کی شخصیتوں کی نقل تیار کر کے ان افراد کے پیاروں کو ’ناپسندیدہ ڈیجیٹل اثرات‘ کے ذریعے پریشان کرسکتے ہیں۔

کیمبرج یونیورسٹی کی ایک تحقیق میں بتایا گیا ہے کہ اے آئی چیٹ بوٹس – جنہیں ڈیڈ بوٹس کے نام سے جانا جاتا ہے – کے لیے حفاظتی پروٹوکول کی ضرورت ہے تاکہ یہ نقصان نہ پہنچا سکیں۔

تحقیق کے مطابق کچھ کمپنیاں پہلے ہی ایسی خدمات پیش کر رہی ہیں جن میں چیٹ بوٹ کی مدد سے ڈیجیٹل فوٹ پرنٹ کا استعمال کرتے ہوئے مرنے والے شخص کی زبان اور شخصیت کی خصوصیات کی نقل کی جا سکتی ہے، جیسا کہ نٹ فلیکس کے شو ’بلیک مرر‘ کی قسط ’بی رائٹ بیک‘ میں دکھایا گیا ہے۔

جرنل فلاسفی اینڈ ٹیکنالوجی میں شائع ہونے والی اس تحقیق میں اس بات پر روشنی ڈالی گئی ہے کہ ہوسکتا ہے کمپنیاں ڈیڈ بوٹس کا استعمال کرتے ہوئے صارفین کے کسی مرحوم عزیز کے انداز میں مصنوعات کی تشہیر کریں، یا بچوں کو پریشان کر سکتی ہیں کہ مردہ والدین اب بھی ’آپ کے ساتھ‘ ہیں۔

محققین کا کہنا ہے کہ جب زندہ افراد مرنے کے بعد عملی طور پر دوبارہ تخلیق ہونے کے لیے سائن اپ کرتے ہیں تو اس کے نتیجے میں کمپنیاں ان کے اہل خانہ اور دوستوں کو اپنی فراہم کردہ خدمات کے بارے میں غیر مطلوبہ اطلاعات، یاد دہانیوں اور اپ ڈیٹس کے ساتھ سپیم کرنے کے لیے استعمال کر سکتی ہیں۔

محققین کا کہنا ہے کہ اگر لوگ مرنے کے بعد خود کا ورچوئل ورژن بنانے کا انتخاب کرتے ہیں، تو اس کے نتیجے میں بننے والے چیٹ بوٹس کو کمپنیاں ان کے پیاروں کو ناپسندیدہ پیغامات بھیجنے کے لیے استعمال کر سکتی ہیں، انہیں کمپنی کی پیشکشوں کے بارے میں اطلاعات، یاد دہانیوں اور اپ ڈیٹس بھیج سکتی ہیں۔

یہ ’مر جانے والے افراد کی جانب سے ڈیجیٹل تعاقب‘ کے مترادف ہے۔

تحقیق کے مصنفین کا کہنا ہے کہ حتیٰ کہ وہ ان لوگوں کے لیے بھی روزانہ کا انٹرایکشن ’شدید جذباتی بوجھ‘ بن جاتا ہے، جنہیں ابتدائی طور پر راحت ملتی ہے، لیکن اگر ان کے مرنے والے عزیز نے ڈیجیٹل آفٹر لائف سروس کے ساتھ طویل معاہدے پر دستخط کیے ہیں تو مصنوعی ذہانت کے سمولیشن کو معطل کرنے کا اختیار بھی ان کے پاس نہیں ہوگا۔

بلیک مرر کی قسط ’بی رائٹ بیک‘ میں ایک غم زدہ بیوہ مصنوعی ذہانت کی ٹیکنالوجی استعمال کرتی ہے جس کی مدد سے وہ اپنے مردہ شوہر کی نقل کرنے والے روبوٹ کے ساتھ انٹرایکٹ کرسکتی ہے۔

کیمبرج کے لیورہولم سینٹر فار دی فیوچر آف انٹیلی جنس کے مصنوعی ذہانت کے ماہرین نے اس شعبے کو ’ہائی رسک‘ قرار دیا ہے۔

لیورہولم سینٹر سے تعلق رکھنے والے اس تحقیق کے شریک مصنف ڈاکٹر ٹاماز ہولنیک کا کہنا ہے کہ ’یہ ضروری ہے کہ ڈیجیٹل آفٹر لائف سروسز نہ صرف ان لوگوں کے حقوق اور رضامندی پر غور کریں جنہیں وہ دوبارہ ڈیجیٹل طور پر تخلیق کرتے ہیں بلکہ ان لوگوں کے حقوق اور رضامندی پر بھی غور کرنا چاہیے جنہوں نے سیمولیشنز کے ساتھ انٹرایکٹ کرنا ہوگا۔

مزید پڑھ

اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)

’یہ سروسز اے آئی کی مدد سے مردہ لوگوں کے خطرناک حد تک ہوبہو ورژن بنا کر ان زندہ پیاروں کو پریشان کر سکتی ہیں جو یہ ڈیجٹل ہانٹنگ نہیں چاہتے۔ ممکنہ نفسیاتی اثر، بالخصوص مشکل وقت میں، تباہ کن ہوسکتا ہے۔‘

محققین کا کہنا ہے کہ ایسے پلیٹ فارم پہلے ہی موجود ہیں جو معمولی فیس کے عوض مصنوعی ذہانت کے ساتھ مردہ افراد کی ڈیجیٹل تخلیق کرتے ہیں، جیسا کہ پروجیکٹ دسمبر، جس نے اپنے سسٹم اور ایپس بشمول ہیئر آفٹر تیار کرنے سے پہلے جی پی ٹی ماڈلز کو استعمال کرنا شروع کیا۔

مطالعے کے مطابق چین میں بھی اسی طرح کی سروسز سامنے آنا شروع ہوگئی ہیں۔

تحقیق کی شریک مصنفہ ڈاکٹر کیٹرزینا نوازیک بیسنسکا کا کہنا ہے کہ ’مصنوعی ذہانت میں تیزی سے ہونے والی پیش رفت کا مطلب یہ ہے کہ انٹرنیٹ تک رسائی اور کچھ بنیادی معلومات رکھنے والا کوئی بھی شخص اپنے مرنے والے عزیز کا اے آئی ورژن بنا سکتا ہے۔

’مصنوعی ذہانت کا یہ شعبہ ایک اخلاقی بارودی سرنگ ہے۔ مرنے والے کے وقار کو ترجیح دینا ضروری ہے، اور اس بات کو یقینی بنانا ضروری ہے کہ ڈیجیٹل آفٹر لائف سروسز کے مالی مقاصد اس پر حاوی نہ ہو جائیں، مثال کے طور پر۔

’اس کے ساتھ ہی، ایک شخص اپنے ان پیاروں کے لیے الوداعی تحفے کے طور پر اے آئی سمولیشن چھوڑ سکتا ہے جو غم برداشت نہیں کر سکتے۔

’معلومات عطیہ کرنے والوں اور مصنوعی ذہانت کے بعد کی سروسز کے ساتھ انٹرایکٹ کرنے والوں، دونوں کے حقوق کا یکساں طور پر تحفظ کیا جانا چاہیے۔‘

ڈاکٹر ہولنیک کا کہنا ہے کہ ’ہو سکتا ہے کہ لوگ اس طرح کے سیمولیشنز کے ساتھ مضبوط جذباتی تعلقات استوار کر لیں، جس کی وجہ سے وہ خاص طور پر ہیرا پھیری کا شکار ہو سکتے ہیں۔‘

ان کا کہنا تھا کہ ’ڈیڈ بوٹس کو باوقار طریقے سے ریٹائر کرنے کے طریقوں پر غور کیا جانا چاہیے‘ جس کا مطلب ’ڈیجیٹل جنازے کی ایک شکل ہو سکتی ہے۔‘

محققین ڈیڈ بوٹس کے لیے عمر کی حد کی سفارش کرتے ہیں، اور ’بامعنی شفافیت‘ کا بھی مطالبہ کرتے ہیں تاکہ اس بات کو یقینی بنایا جاسکے کہ صارفین مستقل طور پر آگاہ ہیں کہ وہ مصنوعی ذہانت کے ساتھ انٹرایکٹ کر رہے ہیں۔

انہوں نے ڈیزائن ٹیموں سے یہ بھی مطالبہ کیا کہ وہ آپٹ آؤٹ پروٹوکول کو ترجیح دیں جو ممکنہ صارفین کو ڈیڈ بوٹس کے ساتھ اپنے تعلقات ختم کرنے کی اجازت دیتے ہیں۔

ڈاکٹر نوازیک بیسنسکا نے کہا کہ ’ہمیں اب اس بارے میں سوچنا شروع کرنا چاہیے کہ ہم ڈیجیٹل امریت کے سماجی اور نفسیاتی خطرات کو کیسے کم کریں، کیونکہ یہ ٹیکنالوجی موجود ہے۔‘

© The Independent

whatsapp channel.jpeg

زیادہ پڑھی جانے والی ٹیکنالوجی