مارچ میں ’چیٹ جی پی ٹی فار میوزک‘ نے موسیقی کی تخلیق کے لیے ’سنو‘ کے نام سے مصنوعی ذہانت کی ویب سائٹ متعارف کروائی۔
ویب سائٹ دی کنورسیشن ڈاٹ کام کے مطابق یہ ویب سائٹ ٹیکسٹ کی مدد سے حقیقی محسوس ہونے والے فرمائشی گانے تیار کرنے کے لیے جنیریٹیو اے آئی سے کام لیتی ہے۔ چند ہفتے بعد اس کے مقابلے میں ’یوڈیو‘ کے نام ایک اور ویب سائٹ سامنے آ گئی۔
میں گذشتہ 15 سال سے، محقق اور پروڈیوسر کے طور پر مختلف تخلیقی کمپیوٹیشنل ٹولز کے ساتھ کام کر رہا ہوں۔
تبدیلی کی حالیہ رفتار نے مجھے حیران کر دیا ہے۔ جیسا کہ میں نے کسی اور موقعے پر استدلال کیا کہ مصنوعی ذہانت کے نظام کبھی انسانوں کی طرح ’حقیقی‘ موسیقی تخلیق نہیں کریں گے۔
اس بات کو دعوے کی تکنیکی صلاحیت سے زیادہ معاشرتی سیاق و سباق کے بارے میں دعوے کے طور پر لیا جانا چاہیے۔
یہ دلیل کہ ’یقینی طور پر، وہ (مصنوعی ذہانت) متاثر کن، پیچیدہ، قدرتی لگنے والی، خوبصورت اور حقیقی موسیقی تخلیق کر سکتی ہے جو انسانی جذبات پر اثرانداز ہو لیکن مصنوعی ذہانت باضابطہ موسیقی تیار نہیں کر سکتی۔‘ برطانوی کامیڈی گروپ مونٹی پائتھن کے مزاحیہ خاکے میں فٹ بیٹھ سکتی ہے۔
سنو اور یوڈیو استعمال کرنے کے بعد میں اس بارے میں سوچ رہا ہوں کہ یہ پلیٹ فارم بالکل ٹھیک سے کیا تبدیل کر سکتے ہیں۔
موسیقی تخلیق کرنے کے عمل کے اعتبار سے اس تبدیلی کا پیشہ ور اور شوقیہ موسیقاروں کے لیے کیا مطلب ہے۔ لیکن بات صرف تخلیق کاروں کی نہیں بلکہ یہ ہے کہ یہ پلیٹ فارم لوگوں کے موسیقی سننے کا انداز کس طرح بدل رہے ہیں۔
جذبات کو محسوس کیے بغیر ان کا اظہار
ٹیکسٹ کی مدد سے آڈیو تیار کرنا بذات خود کوئی نئی بات نہیں۔ تاہم سنو اور یوڈیو نے واضح طور پر ترقی کی ہے۔
دونوں پلیٹ فارم سادہ ٹیکسٹ سے گانے کے بول (چیٹ جی پی ٹی جیسے ٹیکسٹ جنریٹر کا استعمال کرتے ہوئے) تیار کرتے ہیں انہیں تخلیقی صوتی ماڈل میں فیڈ کرتے ہیں اور ’آوازوں‘ کو تخلیق شدہ موسیقی کا حصہ بناتے ہیں تاکہ مربوط گانے کا حصہ تیار کیا جاسکے۔
یہ انضمام چھوٹا لیکن قابل ذکر کارنامہ ہے۔ یہ نظام مربوط گانے بنانے میں بہت اچھے ہیں جو اپنے انداز سے ’گائے گئے‘ محسوس ہوتے ہیں (یہاں میں انسانی خصوصیات کو غیر انسانی پلیٹ فارم کو منتقل کرتا ہوں۔)
اس کام کا نتیجہ عجیب ہو سکتا ہے۔ میں جانتا ہوں کہ یہ اے آئی ہے، لیکن آواز پھر بھی جذباتی طور پر متاثر کن ثابت ہو سکتی ہے۔
جب موسیقی ایک شعبے سے دوسرے شعبے میں باآسانی منتقل ہوتی ہے تو اسے سننے والوں کو وہی لطف آتا ہے جو انہیں موسیقاروں کی تخلیق کردہ موسیقی سن کر ملتا ہے۔ میرا ذہن موسیقی کے انداز اور مہارت کو قبول کرتا ہے خواہ وہ مصنوعی ذہانت نے تخلیق کی ہو۔
میرے لیے اس سے وہ پہلو نمایاں ہوتا ہے جو موسیقی کے ذریعے جذبات کے اظہار کے دوران بعض اوقات نظرانداز کر دیا جاتا ہے۔
مصنوعی ذہانت کو جذبات اور زندگی میں پیش آنے والے واقعات کو اس موسیقی شکل میں بیان کرنے کے لیے ان کا تجربہ کرنے کی ضرورت نہیں ہوتی جو لوگ سنتے ہیں۔
موسیقی، بطور روزمرہ کی زبان
تخلیقی صلاحیتوں کی مالک منصوعی ذہانت کی دیگر مصنوعات کی طرح ، سونو اور یوڈیو کو حقیقی انسانوں کے کام کی مدد سے بڑے پیمانے پر تربیت دی گئی اور انسانوں کے حقوق ملکیت دانش پر بہت بحث کی جا رہی ہے۔
تاہم یہ ٹولز بڑے اے آئی میوزک کلچر کے آغاز کی نشاندہی کرسکتے ہیں۔ وہ موسیقی کو نئی شکلوں میں پیش کرتے ہیں۔ وہ لوگوں کو موسیقی سننے، دریافت کرنے اور موسیقی کا لطف اٹھانے کے لیے نئے طریقے روشناس کرواتے ہیں۔
مصنوعی ذہانت ’آغاز سے اختتام تک‘ موسیقی تخلیق کرنے کی صلاحیت رکھتی ہے لیکن اسے وہ ٹیکنالوجی قرار نہیں دیا جا سکتا جسے موسیقار کام میں لائیں، لیکن موسیقی کا شوق رکھنے والے اس سے لطف اندوز ہو سکتے ہیں۔
ابھی یہ واضح نہیں کہ آیا یوڈیو اور سنو کے صارفین تخلیق کار ہیں یا پھر موسیقی سننے والے یا یہ کہ یہ فرق کرنے کا کوئی فائدہ بھی ہے یا نہیں۔
تخلیقی ٹیکنالوجیز میں طویل عرصے سے مشاہدہ میں آنے والی حقیقت یہ ہے کہ تخلیق کا عمل آسان تر اور پہلے سے زیادہ سستا ہو گیا ہے۔
اس ٹیکنالوجی کو غیر رسمی اظہار میں استعمال کیا جاتا ہے۔ نتیجتاً، یہ میڈیم ایک خاص اعلی آرٹ کی شکل سے روزمرہ کی زبان تک جا پہنچا ہے۔ سوچیں کہ سمارٹ فونز نے فوٹوگرافی کے ساتھ کیا کیا؟
تصور کریں کہ آپ اپنے والد کو ان کی سالگرہ پر پیشہ ورانہ سطح پر تخلیق کیا گیا گانا بھیج سکتے ہیں۔ کم سے کم لاگت اور کوشش کے ساتھ، ان کی پسند کے انداز میں۔
جدید دور کا سالگرہ کارڈ۔ محققین طویل عرصے سے اس امر پر غور کر رہے ہیں اور اب ہم یہ کر سکتے ہیں۔ سالگرہ مبارک ہو ڈیڈ!
کیا آپ مہارت کے بغیر موسیقی تخلیق کر سکتے ہیں؟
مصنوعی ذہانت کے نظاموں کو جو بھی کامیابیاں ملی ہوں یا مستقبل قریب میں مل سکتی ہوں، ان کے سامنے ایک حد موجود ہے یعنی مہارت کا فقدان۔
اکثر ٹیکسٹ اتنا اچھا اور واضح ہدایات پر مشتمل نہیں ہوتا، خاص طور پر موسیقی کے لیے۔ اس لیے یہ ٹولز آنکھیں بند کر کے کی جانے والی تلاش کے لیے ٹھیک ہیں۔
ایک طرح سے امکانات کو تلاش کرنے لیے لیکن یہ ٹولز درست کنٹرول کے لیے مناسب نہیں۔ (اس سے ان کی اہمیت کم نہیں ہو جاتی۔ آنکھیں بند کر کے کی جانے والی سرچ طاقتور تخلیقی طاقت ثابت ہو سکتی ہے۔)
ان ٹولز کو موسیقی تخلیق کرنے کے لیے کام میں آنے والے آلات کے طور پر دیکھنے سے صورت حال بہت تبدیل ہو جاتی ہے۔
اگرچہ یوڈیو کے تعارفی صفحات میں بتایا گیا ہے کہ ’کوئی بھی جس کے پاس دھن، کچھ شاعری یا کوئی مزاحیہ آئیڈیا وہ اب وہ اس کا اظہار موسیقی کے ذریعے کر سکتا ہے۔‘
مجھے نہیں لگتا کہ مجھے اپنے خیالات کے اظہار کے لیے ان ٹولز پر کافی دسترس حاصل ہے۔
میں دیکھ سکتا ہوں کہ یہ ٹولز کام میں لانے کے لیے خام مال کی تلاش کے لیے مفید ہیں، نمونوں اور فیلڈ ریکارڈنگز کی طرح۔ لیکن اپنی ذات کے اظہار کی کوشش کرتے وقت مجھے کنٹرول کی ضرورت پڑتی ہے۔
سونو کا استعمال کرتے ہوئے میں نے جس قدر ہو سکتا ہے بہت زور دار اور بھاری ٹیکنو موسیقی تخلیق کرنے لیے لیے مختلف تجربات کیے۔ اس طرح جو نتیجہ ہاتھ آیا میں اسے لازمی طور پر ایک ٹریک میں استعمال کروں گا۔
لیکن مجھے پتہ چلا کہ میں اس طرح تخلیق کی گئی موسیقی سے لطف اندوز ہو سکتا ہوں۔ میں مجبوری محسوس نہیں کرتا کہ اسے اس انداز میں تبدیل کروں کہ وہ میری تخلیق محسوس ہو یا اس میں اپنی طرف سے کچھ شامل کروں۔
بہت سے ادارے اعلان کر چکے ہیں کہ آپ کو اس کام کے لیے کوئی کاپی رائٹ نہیں دیا جائے گا کیوں کہ آپ نے اسے مصنوعی ذہانت کو کام میں لاتے ہوئے تخلیق کیا۔
ابتدا میں مصنوعی ذہانت کے ذریعے تخلیق کی گئی موسیقی ان پٹ کی وسیع رینج سے متاثر ہوتی ہے جس میں ان گنت دوسرے فنکاروں کا تخلیقی کام بھی شامل ہے۔
یہ دلیل دی جا سکتی ہے کہ آپ نے اصل میں کچھ بھی نہیں بنایا۔ آپ نے اے آئی سے ان پٹ کی بنیاد پر موسیقی تیار کرنے کے لیے کہا۔
موسیقی کے شعبے میں نئے تجربات
یوڈیو کا یہ اعلان کہ کوئی بھی اپنے جذبات کا اظہار موسیقی میں کرسکتا ہے ایک دلچسپ امر ہے۔
اس سے پتہ چلتا ہے کہ جو لوگ سونو اور یوڈیو جیسے ٹولز استعمال کرتے ہیں وہ مصنوعی ذہانت سے تیار کردہ موسیقی کے تخلیق کاروں کی بجائے مصنوعی ذہانت سے تیار کردہ موسیقی کے تجربات کے صارفین کے طور پر زیادہ دیکھے جا سکتے ہیں۔
یہ بات روایتی خیالات کو چیلنج کرتی ہے کہ موسیقی کون بناتا ہے اور کیسے۔ یہ موسیقی کے معاملے میں نئے طریقے کی طرح ہے جسے ہمیں مکمل طور پر سمجھنے کے لیے نئے خیالات کی ضرورت ہوسکتی ہے۔
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
مصنوعی ذہانت کی مدد سے موسیقی تخلیق کرنے کی طرف جانے سے موسیقی کی ثقافت کی موجودہ شکلوں سے توجہ ہٹ سکتی ہے، جس طرح ریکارڈ شدہ موسیقی کی وجہ سے ارکسٹرا موسیقی متاثر ہوئی (لیکن وہ ختم نہیں ہوئی)۔
ایک زمانے میں آرکسٹرا پیچیدہ، بھرپور اور بلند موسیقی سننے کا واحد ذریعہ ہوا کرتا تھا۔ موسیقی کی ثقافت کی نئی اشکال کے تیزی سے ترقی کرنے کی صورت میں روایتی موسیقی، فن کار، بینڈز، ریڈیو اور پلے لسٹ متاثر ہو سکتے ہیں۔
اگرچہ یہ کہنا قبل از وقت ہے کہ نئی طرز کی موسیقی کا کیا اثر پڑے گا لیکن ہمیں محتاط رہنا ہو گا۔ موجودہ تخلیق کاروں کی دانشورانہ ملکیت کے تحفظ کا دفاع کرنے کی کوشش، جو اخلاقی حقوق کا ایک اہم مسئلہ ہے، اسی مساوات کا حصہ ہے۔
اگر یوڈیو کا خیال کامیاب ہوجاتا ہے تو بھی مجھے نہیں لگتا کہ یہ موسیقی کی ثقافت میں ہونے والی بڑی تبدیلیوں سے مکمل طور پر نمٹ سکے گا۔ ماضی میں موسیقی کی نئی شکل کو اچھا نہ کہہ کر ثقافتی تبدیلیوں کا راستہ نہیں روکا جا سکا۔ اس ضمن میں جاز اور ٹیکنو کی مثال موجود ہے۔
مصنوعی ذہانت کے لیے سرکاری پالیسیوں کو ان مسائل سے آگے دیکھنا ہو گا تاکہ اس بات کو سمجھا جا سکے کہ سماجی سطح پر موسیقی کیسے کام کرتی ہے اور اس امر کو یقینی بنایا جا سکے کہ ہماری موسیقی کی ثقافتیں افراد اور برادریوں، دونوں کے لیے جاندار، پائیدار، زرخیز اور بامعنی ہیں۔
یہ آرٹیکل ویب سائٹ دی کنورسیشن ڈاٹ کام کی اجازت سے شائع کیا گیا ہے۔