پاکستان کے ’تمام خطوں‘ کو شدید موسمی آفات کا سامنا

ماہرین کے مطابق ماحولیاتی تبدیلیوں کے باعث پاکستان میں موسم گذشتہ دو، تین دہائیوں میں یکسر تبدیل ہو گئے ہیں اور ملک کے تقریباً تمام خطوں کو شدید موسمیاتی تبدیلیوں کا سامنا ہے۔

ستمبر 2022 میں آنے والے شدید سیلاب کے دوران نواب شاہ کے قریب ایک گاؤں کے لوگ اپنی مدد آپ کے تحت ڈوبے ہوئے گھروں سے سامان نکال رہے ہیں(تصویر : امر گُرڑو /انڈپینڈنٹ اردو)

پاکستان میں موسم گرما کے آغاز سے ہی تمام صوبے خاص طور پر سندھ اور پنجاب کے میدانی علاقے شدید گرمی کی لپیٹ میں ہیں۔

محکمہ موسمیات ہر ہفتے ملک میں ایک نئے سسٹم کے آنے اور شدید ترین گرمی کی پیشگوئی کرر ہا ہے تاہم ایک طرف شدید گرمی کا راج ہے تو دوسری جانب مختلف علاقوں میں اپریل سے شدید بارشیں ہو رہی ہیں۔

ماہرین کے مطابق ماحولیاتی تبدیلیوں کے باعث پاکستان کے موسم گذشتہ دو، تین دہائیوں میں یکسر تبدیل ہو گئے ہیں اور ملک کے تقریباً تمام خطوں کو شدید موسمیاتی تبدیلیوں بشمول خشک سالی، سیلاب، ہیٹ ویو، فلیش فلڈز، سیلاب، سطح سمندر میں اضافے اور شمالی علاقہ جات میں برف باری کے اوقات میں تبدیلی کا سامنا ہے۔

گذشتہ کئی سالوں سے عالمی تھنک ٹینک ’جرمن واچ‘ نے پاکستان کو ماحولیاتی تبدیلی سے شدید متاثر 10 ممالک کی فہرست میں شامل کر  رکھا ہے۔

’جرمن واچ‘ کے مطابق پاکستان کی جی ڈی پی کے ہر یونٹ پر اعشاریہ 52 فیصد نقصان موسمیاتی تبدیلی کے باعث ہو رہا ہے اور 19 سالوں میں پاکستان میں موسمیاتی تبدیلی کی وجہ سے 173 قدرتی آفات رونما ہوئی ہیں۔

اس رپورٹ میں انڈپیڈنٹ اردو نے یہ جائزہ لیا کہ پاکستان کے کن خطوں کو ماحولیاتی تبدیلیوں کے باعث کون سے خطرات درپیش ہیں۔

’69 سالہ زندگی میں مئی مہینے میں بارانی ندی میں طغیانی نہیں دیکھی‘

سندھ میں واقع کھیرتھر نیشنل پارک اور قریبی پہاڑی علاقوں کو کوہستان کے نام سے جانا جاتا ہے۔

کوہستان ایک خشک خطہ ہے، جہاں مون سون کے دوران بھی معمولی بارش ریکارڈ کی جاتی تھیں تاہم گذشتہ ایک دہائی سے اس خطے میں شدید بارشیں عام ہوتی جا رہی ہیں اور اب اپریل اور مئی کے مہینوں میں بھی بارش ہونا شروع ہو گئی ہے۔

چند روز قبل مئی کے پہلے ہفتے میں کوہستان میں شدید بارشوں کے بعد بعد بارانی ندیوں میں طغیانی آگئی۔

کوہستان میں ضلع جامشورو کے شہر تھانہ بولا خان کے رہائشی اور محکمہ جنگلی حیات سندھ کے فیلڈ آفیسر نوید میمن نے انڈپینڈنٹ اردو کو بتایا کہ ’تھانہ بولا خان، نوری آباد اور دیگر علاقوں میں شدید بارش کے بعد کئی چھوٹے بڑے نالے اور تھانہ بولا خان کے نزدیک سے بہنے والی بارانی ندی نئیں ڈیسر میں طغیانی دیکھی گئی۔‘(مقامی زبان میں بارانی ندی کو نیئں پکارا جاتا ہے)۔

نوید میمن کے مطابق: ’کوہستان اور کھیرتھر نیشنل پارک سے مختلف بارانی ندیاں بشمول ڈیسر، سُکھ، باران اور مورائی بارش کے بعد بہنے لگتی ہیں۔

’اس کے علاوہ متعدد چھوٹی بارانی ندیاں جنہیں مقامی زبان میں ڈھورو کہا جاتا ہے، بہتی ہیں اور ان بارانی ندیوں اور ڈھوروں کی اکثریت دراوٹ ڈیم میں گرتی ہیں۔‘

کوہستان کے رہائشی اور محکمہ جنگلی حیات سندھ کے سابق سسٹنٹ کنزرویٹر 69 سالہ بابو پالاری نے انڈپینڈنٹ اردو سے گفتگو کرتے ہوئے بتایا : ’میں نے اپنی تمام زندگی کوہستان میں گزاری ہے۔ اپنی 69 سالہ زندگی میں کبھی مئی کے مہینے میں بارانی ندی نئیں ڈیسر میں طغیانی نہیں دیکھی۔‘

پاکستان کے مختلف خطوں میں شدید موسمیاتی آفات کے خطرات اور ان کے اسباب پر انڈپینڈنٹ اردو نے معروف موسمیاتی ماہر، محکمہ موسمیات پاکستان کے سابق ڈائریکٹر جنرل اور موسمیات کی عالمی تنظیم (ڈبلیو ایم او) میں پاکستان کے نمائندہ ڈاکٹر غلام رسول سے تفصیلی گفتگو کی۔

گلگت بلتستان میں ماحولیاتی تبدیلی سے برف باری کے اوقات میں تبدیلی کا گلیشیئرز پر اثر

پاکستان کے شمالی علاقہ جات میں موجود پہاڑوں پر برف باری ملک میں میٹھے پانی کا بڑا ذریعہ ہے۔

موسم سرما میں پڑنے والی برف باری بعد میں پگھل کر ملک کے سب سے بڑے دریا دریائے سندھ سمیت چھوٹے بڑے دریاؤں اور ندیوں کو بھرتی ہے۔

ڈاکٹر غلام رسول کے مطابق: ’ماحولیاتی تبدیلی کے باعث گلگت بلتستان اور چترال میں سالانہ برف باری پڑنے کے اوقات میں واضح تبدیلی آئی ہے۔ ان خطوں میں تاریخی طور برف باری دسمبر اور جنوری میں شروع ہوتی تھی۔ مگر ماحولیاتی تبدیلی کے باعث برف باری دسمبر اور جنوری کے بجائے فروری یا مارچ میں ہونے لگی ہے۔

 ڈاکٹر غلام رسول کے مطابق : ’دسمبر اور جنوری میں برف کئی مہینوں تک جمی رہتی تھی، اس کے کئی مہینے بعد جب موسم گرما شروع ہوتا تھا تو تھوڑی تھوڑی برف پگھلتی تھی اور کچھ برف جمع رہتی تھی۔ اس میں کچھ برف سخت ہو جاتی تھی اور یہ برف گلیشیئرز کے ان حصوں کی مرمت کرتی تھی جو وقت کے ساتھ پگھل چکے تھے۔

’گلیشیئرز کی اس مرمت کے باعث مستقبل کے لیے پانی کا ذخیرہ بن رہا ہوتا تھا۔ مگر اب موسم سرما کے مہینوں دسمبر اور جنوری کے بجائے بہار کے مہینوں میں برف باری کے باعث گلیشیئر پر منفی اثرات ہو رہے ہیں کیوں کہ ماحولیاتی تبدیلی کے باعث ان خطوں میں اب موسم بہار بھی گرم ہو رہا ہے، جس کے باعث برف باری کے بعد تمام برف پگھل جاتی ہے اور مستقبل کے لیے پانی کے ذخیرے پر منفی اثرات مرتب ہو رہے ہیں۔‘

شمالی علاقہ جات اور خیبر پختونخوا کے کئی علاقعے مختلف اقسام کے پھلوں کے لیے اہم سمجھے جاتے ہیں۔ ان میں زیادہ تر پھل موسم بہار میں پکتے ہیں۔

ڈاکٹر غلام رسول کے مطابق ماحولیاتی تبدیلی کے باعث موسم بہار میں ماضی سے زیادہ درجہ حرارت کے دوران اچانک کولڈ ویو آنا بھی عام ہو گئی ہے۔

بقول ڈاکٹر غلام رسول : ’موسم بہار کے دوران جب پھلدار درختوں میں ابھی پھول لگنا شروع ہوتے ہیں اور اچانک کولڈ ویو کے باعث نئے بننے والے پھلوں کے حجم چھوٹے رہ جاتے ہیں جس کے باعث پھل کا معیار اور مقدار بھی کم ہو جاتی ہے۔‘

ڈاکٹر غلام رسول نے انکشاف کیا کہ ’ماحولیاتی تبدلی کے باعث ہندو کش، قراقرم اور ہمالیہ کے پہاڑی سلسلوں والے اس خطے میں موسم گرما طویل اور موسم سرما مختصر ہوتا جا رہا ہے۔

’یہ نیا رجحان ہے جہاں گلیشیئرز اور دیگر چیزوں کے لیے نقصان دہ ہے وہاں اس کا ایک فائدہ یہ بھی ہے کہ اب وہاں کسان سال میں ایک فصل کے بجائے دو فصلیں اگا سکتے ہیں۔ جس سے کسانوں کو معاشی فائدہ ہو گا۔‘

پنجاب اور خیبر پختونخوا کے موسموں میں تبدیلی سے گندم کی فصل کو شدید نقصان

ڈاکٹر غلام رسول کے مطابق: ’پنجاب اور خیبر پختونخوا میں بارشوں کا موسم یکسر تبدیل ہو گیا ہے۔ ماضی میں پنجاب اور خیبر پختونخوا میں موسم بہار میں شدید بارشیں نہیں ہوتی تھیں۔

’پنجاب اور خیبر پختونخوا میں موسم بہار یعنی مارچ اور اپریل میں گندم پکنے کا موسم ہوتا ہے۔ ماضی میں اس موسم میں دونوں صوبوں میں دھوپ ہوا کرتی تھی، جس سے فصل اچھی طرح پک جاتی تھی۔ مگر اب دونوں صوبوں میں ان مہینوں کے موسم بالکل تبدیل ہو گئے ہیں۔‘

بقول ڈاکٹر غلام رسول : ’اب مارچ اور اپریل میں پنجاب اور خیبر پختونخوا میں شدید بارشیں ہونی لگی ہیں اور یہ مکمل طور پر ماحولیاتی تبدیلی کا نتیجہ ہے۔ بارشوں کے باعث تیار گندم کے دانے کالے ہو جاتے ہیں۔ گندم کا معیار خراب ہونے کے بعد کسان کو مناسب دام نہیں ملتا اور اس کے علاوہ خوراک کے بحران کا بھی خطرہ بڑھ رہا ہے۔‘

ڈاکٹر غلام رسول کے مطابق: ’دونوں صوبوں میں مون سون کی بارشیں بھی شدید سے شدید تر ہوتی جا رہی ہیں۔ مون سون کی شدید بارشوں کے دوران پنجاب اور خیبر پختونخوا کے پہاڑی علاقوں میں فلیش فلڈز معمول بن گئے۔

’ان سیلابوں کے باعث قیمتی انسانی جانیں ضائع ہونے، انفراسٹرکچر تباہ ہونے اور کھڑی فصلوں کو نقصان پہنچتا ہے۔ پاکستان میں اب نہ صرف سیلاب متواتر آ رہے ہیں بلکہ ان کی شدت میں اضافہ ہو رہا ہے۔ یہ سب کلائمیٹ چینج کا نتیجہ ہے۔‘

خشک سالی سے دوچار سندھ اور بلوچستان میں تواتر سے شدید سیلاب معمول بن گئے

سندھ کا بڑا رقبہ ایرڈ یا خشک سمجھا جاتا ہے۔ سندھ کے مشرق میں 22 ہزار مربعہ کلومیٹر پر پھیلا صحرائے تھر ہے۔

 سانگھڑ اور خیرپور اضلاع میں انڈین سرحد کے ساتھ پھیلا اچھڑو  تھر یا وائیٹ ڈیزرٹ، مغربی طرف بلوچستان کے سرحد کے ساتھ چلنے والے پہاڑی سلسلے کھیر تھر، کاچھو اور کراچی کے قریب واقع کوہستان ایرڈ یا خشک خطہ ہے، جہاں انتہائی کم بارشیں ہوتی تھیں۔

اسی طرح بلوچستان کی مکران کوسٹ، جنوب مغرب میں واقع صحرائے خاران سمیت صوبے کا بڑا حصہ ایرڈ سمجھا جاتا ہے، مگر اب سندھ اور بلوچستان کے ان خشک علاقوں میں مون سون کی موسم کے آغاز سے کئی ماہ قبل شدید بارشیں عام ہوتی جا رہی ہیں۔

ڈاکٹر غلام رسول کے مطابق: ’سندھ اور بلوچستان پاکستان میں ماحولیاتی تبدیلی سے شدید متاثر خطے ہیں۔ دونوں صوبے عام طور پر خشک سالی کا شکار رہے ہیں، مگر اب تواتر سے شدید بارشوں کے باعث دونوں صوبوں میں ہر سال سیلاب عام ہوتے جارہے ہیں۔

 ’اگر بلوچستان اور سندھ کے صحرائے تھر کا گذشتہ ایک صدی کے درجہ حرارت کا ریکارڈ دیکھا جائے تو سال بھر میں اوسط بارش 50 سے 60 ملی میٹر ہوتی تھی مگر اب ماحولیاتی تبدیلی کے باعث اب وہاں چند روز میں 500 ملی میٹر بارش ہو رہی ہے۔ جس کے باعث سیلاب آجاتا ہے۔‘

 ڈاکٹر غلام رسول کے مطابق: ’بلوچستان کا زیادہ تر رقبہ خشک ہے جہاں انتہائی کم بارشیں ہوتی ہیں۔ اس لیے مقامی لوگوں نے خشک ندی نالوں کے اندر رہنا شروع کر دیا کیوں کہ ان ندی نالوں میں انہیں ٹوبوں کی صورت میں کہیں پانی مل جاتا تھا۔

’مگر اب وہاں شدید بارشیں عام ہونے کے بعد اگر انہیں کوئی وارننگ بھی ملتی تھی وہ اعتبار نہیں کرتے، اس لیے بارشوں کے بعد انسانی جانوں کا نقصان زیادہ ہونے لگا ہے۔‘

سندھ اور بلوچستان کے ساحلوں پر سطح سمندر میں اضافے اور ٹراپیکل سائیکلون کا خطرہ

سندھ اور بلوچستان کے پاس ایک ہزار کلومیٹر سے لمبا ساحل ہے جہاں سطح سمندر میں اضافہ دیکھا جا رہا ہے۔ ملک کے سب سے بڑے شہر کراچی کی ساحلی بستیاں جوار بھاٹے میں زیر آب آجاتی ہیں۔

مزید پڑھ

اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)

شہر کی قدیم ماہی گیر بستی ابراہیم حیدری کے قریب دبلہ محلے میں بستی کو سمندر کے پانی سے بچانے کے لیے ساحل کے ساتھ ایک دیوار تعمیر کرائی گئی۔

ڈاکٹر غلام رسول کے مطابق: ’سندھ اور بلوچستان میں سطح سمندر میں اضافے کے علاوہ ٹراپیکل سائیکلون کا خطرہ بڑھ رہا ہے۔ ماحولیاتی تبدیلی کے باعث انڈین اوشین میں ٹراپیکل سائیکلون بننے میں اضافہ ہو رہا ہے۔

’تاحال ٹراپیکل سائیکلون پاکستان کے ساحل سے کم  ہی ٹکراتے ہیں مگر پاکستان کے ساحل سے قریب سے گزرنے والے سائیکلونز کے باعث سندھ اور بلوچستان میں شدید ہواؤں کے ساتھ بارش برستی ہے۔ خاص طور پر ماہی گیروں کو ٹراپیکل سائیکلون میں شدت کے بعد جانی اور معاشی نقصان کا خطرہ ہے۔

'2007 میں بحر عرب کی تاریخ کے شدید ترین ٹراپیکل سائیکلوں گونو سے سندھ اور بلوچستان بڑی تباہی سے دوچار ہوئے۔ یمن سائیکلون پسنی کے قریب ٹکرایا، جس کے باعث شدید بارشیں شروع ہوئیں، جس سے ندی نالوں میں طغیانی کے ساتھ ایک ڈیم بھی بہہ گیا تھا۔‘

انہوں نے مزید بتایا کہ ’اس کے علاوہ 2015 میں کراچی میں آنی والی خطرناک ہیٹ ویو کے بعد اب ہر سال ہیٹ ویو عام بات ہو گئی ہے۔‘

whatsapp channel.jpeg

زیادہ پڑھی جانے والی ماحولیات