پولیس کے سیاہ فام رہنماؤں نے خبردار کیا ہے کہ برطانیہ کی سب سے بڑی پولیس فورس میں نسل پرستی بدتر ہوتی جا رہی ہے، جیسا کہ نئے اعدادوشمار سے پتہ چلتا ہے کہ نسلی امتیاز کے لیے ٹربیونلز میں لائے جانے والے مقدمات کی تعداد میں پچھلے سال کے مقابلے میں 110فیصد اضافہ ہوا ہے۔
دی انڈپینڈنٹ کی جانب سے خصوصی طور پر حاصل کیے گئے ایمپلائمنٹ ٹریبونل کے اعدادوشمار سے پتہ چلتا ہے کہ میٹروپولیٹن پولیس کے خلاف نسل پرستی کی بنیاد پر دائر مقدمات 2022سے 2023 تک دوگنے ہو گئے ہیں۔
نیشنل بلیک پولیس ایسوسی ایشن (این پی بی اے) کے صدر اینڈی جارج کا کہنا ہے کہ انہوں نے سپورٹ کیسز میں ڈھائی گنا اضافہ دیکھا، گذشتہ سال جب سے سخت جائزے میں فورس کو دوسری بار ادارہ جاتی طور پر نسل پرست قرار دیا گیا تھا۔
ایک حاضر سروس سیاہ فام پولیس افسر، جنہوں نے نسلی امتیاز پر شکایت کی ہے، نے کہا کہ نسل پرستی اب ’صریح‘ ہو چکی ہے، انہوں نے مزید کہا: ’فورس میں بہت سے ناراض سفید فام لوگ بھی ہیں، جنہیں نام نہاد ’بیداری‘ پر غصہ ہے اور وہ اسے لوگوں پر نکالتے ہیں۔
نسلی اقلیتی ورثے سے تعلق رکھنے والی ایک اور حاضر سروس افسر نے دی انڈپینڈنٹ کو بتایا کہ مرد ساتھیوں نے انہیں 'غیر ملکی' اور 'حیوانی خصوصیات' کا حامل قرار دیا اور ان کی نسل کے ساتھ ان کی کشش کو 'تقریبا ایک فیٹیش' کی طرح قرار دیا۔
نسل پرستی کی دیگر مثالوں میں عملے کے واٹس ایپ گروپوں میں نازیبا زبان کا استعمال، امتیازی سلوک کے بارے میں شکایت پر نشانہ بنانا اور اقلیتی نسل سے تعلق رکھنے والے افسران کو ’غیر منصفانہ‘ تادیبی کارروائی کا سامنا ہونا شامل ہے۔
این پی بی اے کے بانی اور میٹ پولیس کے سابق سپرنٹنڈنٹ لیروئے لوگن کا کہنا ہے کہ یہ اعدادوشمار انہیں میکفرسن دور سے پہلے کے میٹ کی یاد دلاتے ہیں۔ یہ وہ دور تھا جب فورس نے نوجوان سٹیفن لارنس کے نسل پرستانہ قتل کی تحقیقات میں رکاوٹ ڈالی۔
1999 کی میکفرسن رپورٹ پہلا بڑا جائزہ تھا جس میں یہ نتیجہ اخذ کیا گیا تھا کہ یہ فورس ’ادارہ جاتی طور پر نسل پرست‘ تھی - جس کی تائید لوئس کیسی نے گذشتہ سال اپنی رپورٹ میں کی تھی۔
لوگن نے کہا انہیں خدشہ ہے کہ نسل پرستی کی کم رپورٹنگ کو دیکھتے ہوئے اس مسئلے کا حقیقی پیمانہ اور بھی زیادہ ہوسکتا ہے۔
ان کا مزید کہنا تھا کہ ’تازہ ترین اعداد میٹ کی ایک ایسی خوفناک صورت حال کو ظاہر کرتے ہیں جو اس ادارے سے کسی بھی طرح بری ہے جس کو میں جانتا ہوں۔‘
یہ نتائج ایسے وقت سامنے آئے ہیں جب فورس کے خلاف دائر ٹریبونلز میں سال بہ سال 65 فیصد اضافہ ہوا ہے، جس میں معذوری کے امتیازی ٹریبونلز میں 70 فیصد اضافہ اور جنسی امتیاز ی ٹریبونلز میں 27 فیصد اضافہ شامل ہے۔ نسلی امتیاز کے ٹربیونلز کی تعداد 20 سے بڑھ کر 42، معذوری کے ٹربیونلز کی تعداد 38 سے بڑھ کر 65 اور جنسی امتیاز کے مقدمات کی تعداد 22 سے بڑھ کر 28 ہوگئی۔
ماہرین کا خیال ہے کہ جب بیرونس کیسی کو معلوم ہوا کہ تادیبی یا بدسلوکی کی کارروائی کا سامنا کرنے کا زیادہ امکان اقلیتی نسلی افسران کا ہے تو اس کے بعد عملے کی بہت سی شکایات کی وجہ ان کے ساتھ غیر منصفانہ سلوک ہے۔
ان کی رپورٹ سے پتہ چلا ہے کہ سیاہ فام افسران کو سفید فام افسران کے مقابلے میں 81 فیصد زیادہ تادیبی کارروائیوں کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔
رپورٹ میں مزید کہا گیا ہے کہ ’میٹ میں ایسے لوگ ہیں جو نسل پرستانہ رویہ رکھتے ہیں اور زیادہ امکان ہے کہ سیاہ فام، ایشیائی اور نسلی اقلیتی افسران اور عملہ ان کے ہاتھوں نسل پرستی، امتیازی سلوک اور غنڈہ گردی کا شکار ہو گا۔‘
کیسز میں اضافے پر ردعمل ظاہر کرتے ہوئے جارج نے کہا: ’میرا ماننا ہے کہ اس اضافے کی وجہ نسل پرستی کا بدتر ہونا ہے۔ کیسی کے جائزے کے بعد سے سپورٹ کیسز میں 2.5 گنا اضافہ ہوا ہے، اور ہمیں پتہ چلا ہے کہ مزید افسران کو تادیبی کارروائی کا نشانہ بنایا جا رہا ہے۔
’ایک طویل عرصے سے افسران ٹربیونل کے مقدمات کو انصاف حاصل کرنے کے واحد موقع کے طور پر دیکھتے رہے ہیں۔‘
یہ اعدادوشمار اس وقت سامنے آئے ہیں جب فروری میں این پی بی اے نے نسلی اقلیتوں سے تعلق رکھنے والے افراد سے مطالبہ کیا تھا کہ وہ ایک سرکردہ افسر کے خلاف ’نسل پرستانہ اور نازیبا‘ بدسلوکی کی تحقیقات کے خلاف احتجاج کرتے ہوئے میٹ میں شامل ہونے کا بائیکاٹ کریں۔
ایسوسی ایشن کا دعویٰ ہے کہ میٹ بلیک پولیس ایسوسی ایشن (ایم پی اے) کے چیئرمین چارلس ایہکیویا کو اس لیے نشانہ بنایا گیا کیونکہ انہوں نے اور اپنے ساتھیوں کو درپیش نسل پرستی کے بارے میں خدشات کا اظہار کیا تھا۔
لوگن، جنہوں نے 80 پاؤنڈ کے اخراجات سے متعلق بدانتظامی کا جھوٹا الزام لگنے کے بعد میٹ پولیس سے ہرجانہ وصول کیا، نے کہا کہ ’ یہ بالکل واضح ہے کہ میٹ کی روایات بہت بری ہیں۔ لوگ ٹک نہیں رہے ، اور اگر وہ ٹکتے ہیں ، تو وہ بہت زیادہ ہراسانی سے گزر رہے ہیں، بنیادی طور پر جلد کے رنگ اور جنس کی بنیاد پر، اگر آپ ایک سیاہ فام عورت ہیں، تو یہ دوہری مشکل صورت حال ہے۔‘
پولیس کو آگے بڑھانے پر ایم بی ای سے نوازے جانے والے افسر نے کہا کہ 10 سال قبل ریٹائر ہونے کے بعد سے یہ فورس ’ناقابل شناخت‘ ہے۔ انہوں نے مزید کہا: ’جب سیاہ فام افسران کی تفتیش کی بات آتی ہے تو میٹ کا پراسیس کے غلط استعمال کا ٹریک ریکارڈ ہے، جو آپریشنل کلچر کے زہریلے پن میں مزید اضافہ کرتا ہے۔
’میٹ بی پی اے ان وجوہات کی بنا پر بھرتیوں کا بائیکاٹ کر رہا ہے، جس کی نشاندہی اس کے چیئرمین چارلس ایہکیویا کے خلاف تحقیقات کے طریقے سے کی جا رہی ہے۔ میٹ میں، اگر آپ اپنے سفید فام ساتھیوں کے مقابلے میں سیاہ فام ہیں تو آپ کی تحقیقات کا امکان چار سے پانچ گنا زیادہ ہے، اور پروموشن کے لیے نامزد کیے جانے کا امکان کم ہے۔‘
دی انڈیپینڈنٹ نے ایک حاضر سروس سیاہ فام پولیس افسر سے بات کی جس نے اس سے قبل نسلی امتیاز کی بنیاد پر شکایت کی تھی۔
ان کا کہنا تھا کہ ’نسل پرستی ہمیشہ سے ہی رائج رہی ہے لیکن زیادہ سے زیادہ لوگ ٹریبونل کے دعوے دائر کر رہے ہیں کیونکہ وہ ایسا کر سکتے ہیں اور ان کے ساتھ جو کچھ ہو رہا ہے اس کے حوالے سے صورت حال مزید خراب ہوتی جا رہی ہے۔ ’اب تو یہ بہت واضح ہے۔ یہ کسی کا آپ کے لاکر میں کیلا رکھنے یا آپ کو بندر کہنے کا کیس نہیں ہے۔ بدسلوکی کا نظام اکثر سیاہ فام افسران کے خلاف استعمال کیا جاتا ہے جہاں ہم ہر وقت بہت الگ تھلگ محسوس کرتے ہیں۔ فورس میں بہت سارے ناراض سفید فام لوگ بھی ہیں، جو نام نہاد ’بیداری‘ سے پریشان ہیں اور دوسروں پر اس کا اور بھی زیادہ اظہار کرتے ہیں۔‘
فورس کے اندر نسل پرستی کے اپنے تجربے کے بارے میں بات کرتے ہوئے، افسر نے مزید کہا: ’میں نہیں چاہتا کہ میرے ساتھ مختلف سلوک کیا جائے - میں صرف منصفانہ سلوک کرنا چاہتا ہوں۔‘
میٹ پولیس فیڈریشن کے چیئرمین رک پرائر نے کہا کہ بیرونس کیسی کے نتائج نے کچھ افسران کو اپنی شکایات آگے بڑھانے کا حوصلہ دی ہے۔
تاہم اس بات کا اعتراف کرتے ہوئے کہ واضح طور پر مسائل پیدا کرنے والے رویے موجود ہیں، مسٹر پرائر نے کہا کہ وہ ان کے اس الزام کو قبول نہیں کرتے کہ میٹ ’ادارہ جاتی طور پر نسل پرست، جنسی پرست یا خواتین مخالف‘ ہے۔
انہوں نے کہا، ’یہ بھی ایک عنصر ہوسکتا ہے کہ اگر افسران کو لگتا ہے کہ ان کے ساتھ غیر منصفانہ سلوک کیا گیا ہے تو بیرونس کیسی کی رپورٹ کے انہیں شکایت درج کرانے کا حوصلہ ملا ہو۔‘
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
مسٹر پرائر ایک ایسے کیس کی حمایت کر رہے ہیں جس میں ایک سیاہ فام افسر کو ان کے مقامی پروفیشنل سٹینڈرڈز یونٹ کی جانب سے ’غیر متناسب جانچ پڑتال‘ کا سامنا کرنا پڑا تھا، جس نے ان کے خلاف بدسلوکی کی کارروائی شروع کی تھی۔ ان کا مزید کہنا تھا کہ ’اگر کسی سیاہ فام یا اقلیتی نسلی افسر کے ساتھ غیر متناسب سلوک کیا جا رہا ہے تو اس کی مناسب جانچ پڑتال کے لیے محکمہ میٹ کے اندر کوئی طریقہ کار ہونا چاہیے تاکہ وہ اس سے سیکھ سکیں اور مستقبل میں ایسا ہونے سے روک سکیں۔‘
انہوں نے یہ بھی انکشاف کیا کہ میٹ پولیس فیڈریشن، جو رینک اینڈ فائل افسران کی نمائندگی کرتی ہے، ان افسران کی جانب سے معذوری سے متعلق دعووں کی بڑھتی ہوئی تعداد سے نمٹ رہی ہے جن کو مناسب ایڈجسٹمنٹ کی ضرورت ہوتی ہے ، جیساکہ گھر سے کام کرنا یا ڈیوٹی پر مرحلہ وار واپسی۔
میٹ پولیس ڈس ایبلٹی ایسوسی ایشن کے چیئرمین ڈیو کیمپبیل نے دی انڈپینڈنٹ کو بتایا کہ اگرچہ فورس نے حالیہ برسوں میں معذوری سے متعلق آگاہی میں بڑی پیش رفت کی ہے، لیکن ابھی ایک طویل سفر طے کرنا باقی ہے۔ اعدادوشمار کا جواب دیتے ہوئے انہوں نے کہا: ’میں حیران نہیں ہوں لیکن میں فکرمند ہوں۔ میں اپنی معذور افرادی قوت کے ممبروں کی بہت سی شکایات سے نمٹتا ہوں، اور جب سے کیسی رپورٹ کے بعد سے اس میں اضافہ ہوا ہے، خطرناک شرح سے بڑھے ہیں۔‘
انہوں نے کہا کہ معذور افراد کے ساتھ جس طرح کا سلوک کیا جا رہا ہے اس کے بارے میں زیادہ ’لاپرواہی‘ کا رویہ پایا جاتا ہے، جن میں سے کچھ کو ’تنظیم سے باہر‘ رکھا جاتا ہے۔ انہوں نے فورس پر زور دیا کہ وہ اس بات پر توجہ مرکوز کرنا بند کرے کہ عملہ کیا نہیں کر سکتا اور ملازمین میں ان کی قدروقیمت کو دیکھے تاکہ ایک ایسی افرادی قوت تشکیل دی جا سکے جہاں معذور عملہ ترقی کر سکے۔
سکاٹ لینڈ یارڈ کے ترجمان کا کہنا تھا کہ ’ہمارا مقصد ایک ایسی سروس بننا ہے جس پر لندن کے تمام باشندے فخر کر سکیں۔ میٹ میں کسی بھی قسم کے امتیاز ی سلوک کی کوئی جگہ نہیں ہے۔ ’ہم ایک ایسی کام کی جگہ بنا رہے ہیں جہاں ہر کوئی ترقی کر سکے – اور یہ سب کے لیے جامع اور قابل رسائی ہے۔‘
© The Independent