مظفرآباد: رینجرز سے جھڑپ میں تین افراد کی موت کے بعد حالات بدستور کشیدہ

پاکستان کے زیرانتظام کشمیر میں مظاہرین کے مطالبات کو مانتے ہوئے حکومت نے آٹے اور بجلی کی قیمتوں میں کمی کے نوٹیفیکشنز جاری کیے ہیں جھڑپوں کے بعد حالات بدستور کشیدہ ہیں۔

پاکستان کے زیرانتظام کشمیر میں احتجاج کرنے والے مظاہرین اور نیم فوجی دستوں میں جھڑپ میں تین افراد جان سے گئے جس کے بعد علاقے میں منگل کو بھی حالات بدستور کشیدہ ہیں۔

احتجاج کرنے والے مظاہرین کی کمیٹی کا کہنا ہے کہ مظاہرین کی اموات کے بعد اب نئے لائحہ عمل کا اعلان منگل کو کیا جائے گا۔

خبر رساں ادارے (اے ایف پی) کے مطابق مظفرآباد کے ڈپٹی کمشنر ندیم جنجوعہ نے تصدیق کی کہ تین افراد کی موت گولیاں لگنے سے ہوئی جبکہ آٹھ افراد زخمی بھی ہیں۔ حکام کے مطابق کئی افراد بشمول رینجرز اہلکار زخمی بھی ہیں۔

پاکستانی کشمیر میں آٹے کی قیمت مں کمی اور بجلی قیمتوں کو پن بجلی کے پیدواری نرخوں  کے مطابق مقرر کرنے کے لیے جموں کشمیر جوائنٹ عوامی ایکشن کمیٹی کے زیر انتظام احتجاج کیا جا رہا ہے۔

عوامی ایکشن کمیٹی کے رکن امجد علی نے عرب نیوز کو پیر کو بتایا کہ حکومت کی طرف سے آٹے اور بجلی کی قیمتوں میں کمی کے اعلانات کے بعد کمیٹی احتجاج ختم کرنے پر غور کر رہی تھی کہ جھڑپ میں تین مظاہرین کی موت کے بعد صورتحال مکمل طور پر بدل گئی۔

انہوں نے کہا کہ اس صورت حال میں کمیٹی کے آئندہ کے لائحہ عمل کا اعلان منگل کو کرے گی۔

پاکستان کے وزیرِ اعظم شہباز شریف کی زیرِ صدارت پیر کو ہونے والے ایک ہنگامی اجلاس کے بعد پاکستان کے زیر انتظام کشمیر کے وزیر اعظم چودھری انوار الحق نے کہا تھا کہ سبسڈی اور بجلی کی قیمت کے حوالے سے جو طویل مدتی مسائل تھے وہ ان دو نوٹیفیکیشنز جاری کر دیے گئے ہیں جس سے ان کے بقول احتجاج کرنے والے مظاہرین کے مطالبات حل ہو گئے ہیں۔

تاہم ان اعلانات کے بعد علاقے میں موجود انڈپینڈنٹ اردو کے نامہ نگاروں کے مطابق حالات تاحال کشیدہ ہیں اور بعض علاقوں میں مظاہرین اور سکیورٹی فورسز کے درمیان پیر کو جھڑپیں بھی ہوئی ہیں۔

پاکستان کے زیر انتظام کشمیر کی حالیہ صورت حال پر پیر کو وزیر شہباز شریف کی سربراہی میں ہونے والے خصوصی اجلاس کے بعد 23 ارب روپے کی فوری فراہمی کی منظوری دی گئی ہے۔

اجلاس میں پاکستان کے زیر انتظام کشمیر کے وزیرِ اعظم، وفاقی وزرا اور اعلیٰ سیاسی قیادت سمیت اتحادی جماعتوں کے قائدین نے شرکت کی۔

اجلاس میں حالیہ صورت حال کا مفصل جائزہ لینے کے بعد وزیرِ اعظم پاکستان شہباز شریف نے کشمیری عوام کے مسائل کو حل کرنے کے لیے 23 ارب روپے کی فوری فراہمی کی منظوری دے دی۔

اس حوالے سے پاکستان کے زیر انتظام کشمیر کے وزیر اعظم چودھری انوار الحق نے اسلام آباد میں ایک پریس کانفرنس سے خطاب میں کہا کہ ’اجلاس میں کچھ مالی تحفظات کے باوجود ایسے فیصلے کیے گئے جن کے لیے میں کھلے دل سے وزیر اعظم پاکستان کا شکریہ ادا کرتا ہوں کہ انہوں نے اسی وقت نوٹیفیکیشن جاری کیا۔ سبسڈی اور بجلی کی قیمت کے حوالے سے جو طویل مدتی مسائل تھے وہ ان دو نوٹیفیکیشنز سے حل ہو گئے۔‘

چودھری انوار الحق نے مزید کہا کہ ’ان معاملات کو حل کرنے کے لیے اسٹیبلشمنٹ اور فوج کے سربراہ نے ذاتی طور پہ دلچسپی لی اور فیصلہ کیا کہ اخراجات میں جو ممکن کمی ہوئی وہ کریں گے لیکن کشمیر کے عوام کو یہ حقوق ضرور فراہم کریں گے۔‘

پاکستان کے وزیر اعظم کے اعلان کے بعد کشمیر میں دو دن سے جاری موبائل انٹرنیٹ سروس کی بندش کو ختم کرنے کا اعلان بھی کیا گیا ہے۔ انڈپینڈنٹ اردو کے نامہ نگار عمر فیضان کے مطابق کشمیر کے مختلف علاقوں میں انٹرنیٹ سروس سلسلہ وار بحال ہونا شروع ہو گئی ہے۔

بعد ازاں پاکستان کے زیر انتظام کشمیر کی حکومت نے شہریوں کو بجلی اور آٹے کی قیمتوں میں فوری ریلیف بھی فراہم کر دیا گیا ہے۔

سرکاری نوٹیفکیشن کے مطابق، گھریلو صارفین کے لیے بجلی کی نئی قیمتیں درج ذیل ہیں:

  • ایک سے 100 یونٹ تک: 3 روپے فی یونٹ
  • 100 سے 300 یونٹ تک: 5 روپے فی یونٹ
  • 300 یونٹ سے زائد: 6 روپے فی یونٹ
  • کمرشل صارفین کے لیے بجلی کی نئی قیمتیں درج ذیل ہیں:
  • ایک سے 100 یونٹ تک: 10 روپے فی یونٹ
  • 100 سے 300 یونٹ تک: 12 روپے فی یونٹ
  • 300 یونٹ سے زائد: 15 روپے فی یونٹ

محکمہ خوراک نے بھی سرکاری آٹے کی نئی قیمتوں کا نوٹیفکیشن جاری کر دیا ہے۔ نئی قیمتوں کے مطابق:

  • 20 کلو گرام فائن آٹا: 1000 روپے
  • 40 کلو گرام فائن آٹا: 2000 روپے

پاکستان زیر انتظام کشمیر مں جاری احتجاج کی قیادت کرنے والی جوائنٹ عوامی ایکشن کمیٹی نے وزیراعظم پاکستان شہباز شریف کی صدارت میں ہونے والے اجلاس کے بعد کیے گئے اعلانات پر ردعمل دیتے ہوئے کہا ہے کہ ’ماضی میں بھی احتجاج ختم کروانے کے لیے ہمارے ساتھ متعدد بار سیاسی وعدے کیے گئے ہیں۔

ایکشن کمیٹی کے مرکزی رہنما شوکت نواز میر نے انڈپینڈنٹ اردو سے ٹیلی فونک گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ ’جب تک نوٹیفکیشن ہمارے ہاتھ میں نہیں آ جاتا، قافلوں کا رخ مظفر آباد کی جانب رہے گا۔ ریاست بھر سے آنے والے ہزاروں افراد محض تسلیوں اور دلاسوں سے واپس نہیں جائیں گے۔‘

انہوں نے مزید کہا کہ ’حکومتی سنجیدگی پر اس وقت یقین آئے گا جب تمام مطالبات نوٹیفکیشن کی صورت میں حل کر کے ہمارے سپرد کیے جائیں گے۔ نوٹیفکیشن ملنے کے بعد آئندہ لائحہ عمل کا اعلان کریں گے۔

پاکستان کے زیر انتظام کشمیر کی حکومت کا کہنا ہے کہ بجلی اور آٹے کی قیمتوں میں کمی کا مقصد عوام کو مہنگائی سے راحت فراہم کرنا ہے نیز وہ عوام کی ضروریات کو پورا کرنے کے لیے پرعزم ہے اور اس مقصد کے لیے وہ ہر ممکن کوشش کرے گی۔

سستی بجلی اور آٹے کے مطالبات کے حق میں پرتشدد احتجاج کے بعد پاکستان زیر انتظام کشمیر کے مختلف اضلاع سے مظفرآباد کے لیے نکلنے والا لانگ مارچ پیر کو دھیر کوٹ کے مقام پر پہنچ چکا ہے۔

قبل ازیں مظفر آباد سے صحافی ندیم شاہ کے مطابق حکومت کی جانب سے گذشتہ شب راولاکوٹ کے مقام پر جوائنٹ عوامی ایکشن کمیٹی کے ساتھ مذاکرات کیے گئے جس میں چیف سیکریٹری کشمیر کے علاوہ عوامی ایکشن کمیٹی کے رہنماؤں نے شرکت کی۔

مذاکرات میں جوائنٹ عوامی ایکشن کمیٹی کی جانب سے بجلی کی پیداواری لاگت پر فراہمی، سستے آٹے اور اشرافیہ کی مراعات کے مطالبہ پر اتفاق نہیں کیا جا سکا تھا، ایکشن کمیٹی کے رہنما عمر کشمیری کی جانب سے مذاکرات کی ناکامی کا ایک ویڈیو بیان جاری کیا گیا جس کے بعد راولاکوٹ پڑاؤ کرنے والے لانگ مارچ نے دوبارہ دھیر کوٹ کے لیے سفر کا آغاز کر دیا تھا۔

لانگ مارچ ایک گھنٹے مسافت کو طے کرتے ہوئے دھیر کوٹ پہنچ چکا ہے جہاں پر رات گئے آرام کرنے کے بعد آج صبح لانگ مارچ مظفرآباد کی جانب سفر کا آغاز کر چکا ہے۔

پیر کو سفر کے آغاز سے پہلے ایکشن کمیٹی کے ممبر و رہنما شوکت نواز میر نے اپنے ویڈیو بیان میں کہا کہ ’ہم نے مذاکرات عوام کے مینڈیٹ پر کرنے تھے جو اب نہیں پوسکتے، حکومت ہمیں پیدواری لاگت پر بجلی، رعایتی قیمت پر آٹا اور اشرافیہ کی مراعات کے خاتمے کا نوٹیفکیشن دے، ہم مظفرآباد جارہے ہیں، حکومت وہیں ہمیں تین چیزوں کے نوٹفکیشن دے دے۔‘

مذاکرات کی ناکامی کے بعد حکومت کی جانب سے مظفرآباد میں پولیس اور قانون نافذ کرنے والے دیگر اداروں نے شہر کی مختلف جگہوں پر حفاظتی پوزیشنز سنبھال لی ہیں تاہم مظفرآباد میں مظاہرین اور پولیس کے درمیان کسی بھی قسم کا ٹکراؤ نہیں ہوا۔

پاکستان کے زیر اتظام کشمیر میں داخلی راستوں شوڑاں، نالہ اور لوہارگلی کے مقام سے مظاہرین نے سڑک کو پتھر، مٹی اور درخت ڈال کر بند کر دیا ہے جس کی وجہ سے مظفرآباد آنے کے لیے سفر کرنے والوں کو دشواری کا سامنا ہے۔

وزیراعظم پاکستان شہباز شریف نے کہا ہے کہ پاکستان کے زیر انتظام کشمیر کی حکومت اور سیاسی قیادت خطے کو درپیش مسائل کو مذاکرات سے حل کریں۔

ریڈیو پاکستان کے مطابق وزیراعظم شہباز شریف نے پاکستان کے زیرانتظام کشمیر کی صورت حال کے حوالے سے آج یعنی پیر کو ایک اعلیٰ سطح کا اجلاس بھی طلب کر رکھا ہے جس میں پاکستان کے زیرانتظام کشمیر کے وزیراعظم سمیت دیگر سٹیک ہولڈرز شرکت کریں گے۔

وزیر اعظم شہباز شریف نے کشمیر کی تمام جماعتوں پر زور دیا ہے کہ وہ اپنے مطالبات کے حل کے لیے پرامن لائحہ عمل اختیار کریں۔

اتوار کو سوشل میڈیا پلیٹ فارم ایکس پر اپنے پیغام میں انہوں نے کہا کہ انہوں نے ’وزیر اعظم آزاد کشمیر سے بات کی ہے اور آزاد کشمیر میں مسلم لیگ (ن) کے عہدیداروں کو ایکشن کمیٹی کے رہنماؤں سے بات کرنے کی ہدایت کی ہے۔‘

مزید پڑھ

اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)

شہباز شریف نے پاکستان کے زیرانتظام کشمیر کی صورت حال پر گہری تشویش کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ ’مذاکرات اور پرامن احتجاج جمہوریت کا حسن ہیں لیکن قانون کو ہاتھ میں لینے اور سرکاری املاک کو نقصان پہنچانے کو برداشت نہیں کرنا چاہیے۔‘

انہوں نے امید ظاہر کی کہ ’سیاسی پوائنٹ سکورنگ اور ناقدین کی کوششوں کے باوجود یہ معاملہ جلد حل ہوجائے گا۔‘

وزیر اعظم نے اس بات پر افسوس کا اظہار کیا کہ ’کس طرح کچھ عناصر ہمیشہ اختلاف رائے کے حالات میں سیاسی پوائنٹس حاصل کرنے کے لیے جلد بازی کرتے ہیں۔‘

صدر پاکستان آصف علی زرداری نے گذشتہ روز پاکستان کے زیر انتظام کشمیر کی کشیدہ صورت حال کے حوالے سے فریقین پر زور دیا ہے کہ وہ تحمل کا مظاہرہ کرتے ہوئے مسائل بات چیت اور باہمی مشاورت سے حل کریں۔

اتوار کو ایوان صدر سے جاری ایک بیان کے مطابق صدر زرداری سے اسلام آباد میں پاکستان پیپلز پارٹی پارلیمنٹیرینز سے تعلق رکھنے والے جموں و کشمیر قانون ساز اسمبلی کے ارکان کے وفد نے ملاقات کی، جس میں صدر کا کہنا تھا کہ سیاسی جماعتوں، ریاستی اداروں او عوام کو ذمہ داری سے کام لینا چاہیے تاکہ دشمن عناصر حالات کا فائدہ نہ اٹھا سکیں

بیان کے مطابق وفد نے صدر کو پاکستان کے زیر انتظام کشمیر میں ہونے والے حالیہ افسوس ناک واقعات سے آگاہ کیا۔ صدر نے موجودہ صورت حال پر افسوس کا اظہار کرتے ہوئے اور پولیس اہلکار کی موت پر تعزیت کی۔

صدر نے کہا کہ ’کشمیری عوام کے مطالبات کو قانون کے مطابق پورا کیا جانا چاہیے۔ موجودہ صورت حال کا حل نکالنے کے لیے عوام کی شکایات پر وزیر اعظم پاکستان سے بات کروں گا۔‘

پاکستان کے زیر انتظام کشمیر کی صورت حال

پاکستان کے زیر انتظام کشمیر کے مختلف اضلاع میں ’سستی بجلی اور سستے آٹے کے لیے‘ احتجاج اور لانگ مارچ جاری ہے، جس میں مظاہرین اور پولیس کے مابین جھڑپیں ہوئی ہیں۔

ہفتے کو میرپور میں فائرنگ سے سب انسپکٹر عدنان فاروق کی موت ہو گئی تھی۔ کمشنر میرپور ڈویژن چوہدری شوکت نے میرپور کے علاقے اسلام گڑھ میں پیش آئے واقعے میں عدنان کی موت کی تصدیق کی۔

حکومت نے حالات کو قابو میں لانے کے لیے رینجرز طلب کی تھی، جس کے بعد رینجرز کی تین کمپنیاں آج  اتوار کو صبح کوہالہ کے مقام سے کشمیر میں داخل ہوئیں لیکن دو گھنٹے کوہالہ قیام کے بعد انہیں واپس بھیج دیا گیا۔

پاکستان کے زیر انتظام کشمیر میں گذشتہ تین دن سے جاری پرتشدد احتجاج اور لانگ مارچ کو ختم کرنے اور مظاہرین کے مطالبوں کے حوالے سے حکومتی کمیٹی اور جوائنٹ ایکشن کمیٹی کے مابین بات چیت کا پہلا دور ناکام ہو گیا، جس کی تصدیق کمیٹی کے رکن عمر نذیر نے کی ہے۔

اتوار کی رات فریقین میں راولا کوٹ میں کئی گھنٹے مذاکرات ہوئے، جس کے بعد عمر نذیر نے میڈیا سے مختصر گفتگو میں الزام عائد کیا کہ حکومت ان کے مطالبات حل کرنے میں سنجیدہ نہیں۔

بات چیت کی ناکامی کے بعد راولا کوٹ میں مختلف علاقوں سے آئے مظاہرین اب پیر کو مظفر آباد کی جانب اپنا لانگ مارچ دوبارہ شروع کریں گے۔

احتجاج اور لانگ مارچ کی وجہ سے مظفرآباد ڈویژن میں تمام سرکاری اور نجی تعلیمی ادارے پیر کو بند رکھنے کا فیصلہ کیا گیا ہے۔

ڈپٹی کمشنر مظفر آباد ندیم احمد جنجوعہ نے ایک بیان میں بتایا کہ مظفر آباد میں تعلیمی اداروں کے علاوہ تمام ضلعی سرکاری دفاتر بھی بند رکھے جائیں گے۔

پاکستان کے زیر انتظام کشمیر میں آٹھ مئی 2023 کو سستی بجلی اور سبسڈائز آٹے کے حصول کے لیے شروع ہونے والی تحریک کو ایک سال مکمل ہو چکا ہے۔

مطالبات کے حصول کے لیے شروع ہونے والی تحریک کے دیگر ڈویژنز میں پھیلنے کے بعد آٹھ اگست 2023 کو احتجاجی تحریک کی سربراہی کے لیے 30 رکنی فیصلہ ساز کمیٹی بنائی گئی اور اس کے تحت احتجاجی تحریک شروع کی گئی تھی۔

عوامی ایکشن کمیٹی کے مطالبات

1۔ بجلی کی پیداواری لاگت پر فراہمی
2۔ آٹا سبسڈی
3۔ کشمیر بینک شیڈولنگ
4۔ طلبہ یونینز کی بحالی
5۔ بلدیاتی نمائندگان کا فنڈز کی ترسیل
6۔ موبائل سیلولرز کمپنیوں سروس اور پی ٹی اے کے معاملات
7۔ رٹھوعہ ہریام برج کی تعمیر
8۔ اشرافیہ کی مراعات کو ختم کرنا

اس حوالے سے پاکستان کے زیر انتظام کشمیر کے وزیر اعظم چوہدری انوار الحق نے انڈپینڈنٹ اردو کو ایک خصوصی انٹرویو میں بتایا کہ پاکستان کے زیر انتظام کشمیر میں ایف سی اور پی سی کی تعیناتی کے حوالے سے حکومتی موقف انتہائی واضح ہے۔

ان کا کہنا ہے کہ ’پاکستان کے زیر انتظام کشمیر میں منگلا ڈیم، نیلم جہلم، جاگراں، گلپور سمیت کئی بڑے پراجیکٹس موجود ہیں، جن میں غیر ملکی انجینیئرز بھی کام کر رہے ہیں۔

’غیر ملکی انجینیئرز پر ہوئے حالیہ حملوں کے بعد پاکستان کے زیر انتظام کشمیر کی حکومت نے اسلام آباد سے یہاں موجود آبی وسائل کے منصوبوں کی حفاظت کے لیے ایف سی اور پی سی کی فراہمی کی درخواست کی تھی، جسے قبول کرتے ہوئے دونوں فورسز فراہم کی گئیں۔‘

پاکستان کے زیر انتظام کشمیر کے وزیر اعظم نے دعویٰ کیا کہ ان فورسز کو کسی عوامی احتجاج کو روکنے کے لیے نہیں بلایا گیا ہے۔

whatsapp channel.jpeg

زیادہ پڑھی جانے والی پاکستان