کراچی ہندو جم خانہ پر 16 سال سے جاری تنازع آخر ہے کیا؟

ہندو کمیونٹی کے مطابق تقسیم ہند سے قبل سیٹھ گوپال داس موہٹہ کی جانب سے تعمیر کروائی گئی یہ عمارت ان کے حوالے کی جائے ، جسے 2005 میں 30 سال کے لیے ناپا کو رینٹ لیز پر دے دیا گیا تھا۔

کراچی کی تقریباً ایک صدی قدیم عمارت ہندو جم خانہ کا انتظام حاصل کرنے کے لیے ہندو برادری اور نیشنل اکیڈمی آف پرفارمنگ آرٹس (ناپا) کے درمیان گذشتہ 16 سال سے جاری تنازع تاحال حل نہیں ہوسکا ہے۔

کراچی کے علاقے کلفٹن میں واقع شو مندر کا انتظام سنبھالنے والی انتظامی کمیٹی ’شری رتنیشور مہادیو ویلفیئر شیوا منڈلی‘ کے نائب صدر ڈاکٹر راج اشوک موٹوانی کے مطابق تقسیم ہند سے قبل برطانوی حکومت نے سیٹھ گوپال داس موہٹہ کو 39 ہزار ایک سو 78 مربع گز زمین الاٹ کی، جس پر انہوں نے ہندو جم خانہ تعمیر کروایا اور وہ عمارت 1927 میں مکمل ہوگئی تھی۔

انڈپینڈنٹ اردو سے گفتگو میں ڈاکٹر راج اشوک موٹوانی نے کہا: ’تقسیمِ ہند سے قبل کراچی میں ہندوؤں کی اکثریت تھی۔ تقسیم کے دوران کراچی کے ہندو نقل مکانی کرکے انڈیا چلے گئے، جس کے بعد یہ جم خانہ چلتا رہا۔ کچھ عرصے بعد جم خانہ غیر فعال ہوگیا۔‘

مزید پڑھ

اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)

انہوں نے مزید بتایا کہ ’پرویز مشرف کے دورِ حکومت کے دوران 2005 میں یہ عمارت ناپا کو 30 سال کے لیے رینٹ لیز پر دی گئی۔ اس کے خلاف ہم 2007 میں عدالت میں چلے گئے کہ یہ عمارت جس مقصد کے لیے بنی ہے، اس مقصد کے لیے دی جائے۔ یہ کیس کئی سال تک چلتا رہا اور پھر سندھ ہائی کورٹ سے ہماری پٹیشن خارج ہونے کے بعد ہم نے اس کیس کو سپریم کورٹ میں چیلنج کیا۔‘

ڈاکٹر راج اشوک موٹوانی کے مطابق: ’اس دوران 2008 میں سندھ حکومت نے ناپا کو ہندو جم خانہ کی حدود میں واقع پانی کے تالاب کی جگہ سٹوڈیو تعمیر کرنے اور دیگر تعمیرات پر 90 دن میں عمارت خالی کرنے کا نوٹس دیا، کیوں کہ لیز کے معاہدے کے تحت کسی بھی قسم کی تعمیرات کی منظوری ایڈوائزری کمیٹی سے لی جانی تھی، جو نہیں لی گئی۔

’سندھ حکومت کے نوٹس کے خلاف ناپا نے سپریم کورٹ میں کیس دائر کر دیا، جس پر ہم نے بھی درخواست دی کہ ہمیں بھی اس کیس میں پارٹی بنایا جائے۔ آخرکار 2014 میں سپریم کورٹ نے ہمیں کیس میں فریق بنایا دیا۔ تب سے ہم یہ کیس لڑ رہے ہیں، جس کا تاحال کوئی فیصلہ نہیں ہوسکا ہے۔‘

ڈاکٹر راج اشوک موٹوانی کے مطابق: ’ہم یہ نہیں کہتے کہ یہ عمارت ہمیں دی جائے، مگر ہمارا ایک ہی مطالبہ ہے کہ جس مقصد کے لیے یہ عمارت بنی تھی، اس مقصد کے لیے استعمال ہونی چاہیے۔‘

اس معاملے پر ناپا کا موقف جاننے کے لیے جب ادارے کے چیف ایگزیکٹو آفیسر (سی ای او) جنید زبیری سے رابطہ کیا گیا تو انہوں نے کہا کہ بورڈ اراکین کے ساتھ بات چیت کرکے موقف دیا جائے گا اور تقریباً 10 دن بعد انہوں نے کہا کہ ’چونکہ یہ کیس عدالت میں چل رہا ہے، اس لیے ہم اس پر کوئی بات نہیں کرسکتے۔‘

آرٹس کونسل آف پاکستان کے قریب ایم آر کیانی روڈ پر واقع ہندو جم خانہ کی تاریخی عمارت کا ڈیزائن معروف آرکیٹیکٹ احمد حسین آغا نے بنایا تھا۔

عمارت سازی کی ماہر یاسمین لاری کے مطابق احمد حسین آغا کراچی کے پہلے مسلمان آرکیٹکٹ تھے۔ انہیں کراچی کی ایک اور تاریخی عمارت موہٹہ پیلس کا ڈیزائن بنانے کا اعزاز بھی حاصل ہے۔

کراچی ہندو جیم خانے کی عمارت کے ڈیزائن کا خیال انڈین ریاست اتر پردیش میں دریائے جمنا کے مشرقی کنارے پر واقع اعتماد الدولہ کے مقبرے سے لیا گیا ہے۔

whatsapp channel.jpeg

زیادہ پڑھی جانے والی تاریخ