سپریم کورٹ آف پاکستان نے جمعے کو سینیٹر فیصل واوڈا کی پریس کانفرنس پر ازخود نوٹس کی سماعت کے دوران فیصل واوڈا اور متحدہ قومی موومنٹ (ایم کیو ایم) پاکستان کے رکن قومی اسمبلی مصطفیٰ کمال کو پانچ جون کو آئندہ سماعت پر طلب کر لیا۔
سینیٹر فیصل واوڈا نے بدھ کو اسلام آباد میں ایک پریس کانفرنس کرتے ہوئے ججوں کو شدید تنقید کا نشانہ بناتے ہوئے کہا تھا کہ ’اب پاکستان میں کوئی پگڑی اچھالے گا تو ہم ان کی پگڑیوں کی فٹ بال بنائیں گے۔‘ اس پریس کانفرنس پر سپریم کورٹ نے گذشتہ روز ازخود نوٹس لے کر آج سماعت کے لیے مقرر کیا تھا۔
چیف جسٹس، جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کے علاوہ جسٹس عرفان سعادت اور جسٹس نعیم اختر جمعے کو اس معاملے کی سماعت کرنے والے تین رکنی بینچ کا حصہ تھے۔
سماعت کا آغاز ہوا تو چیف جسٹس نے ایڈیشنل اٹارنی جنرل سے استفسار کیا کہ ’کیا آپ نے پریس کانفرنس سنی ہے؟ کیا پریس کانفرنس توہین آمیز ہے؟‘
ایڈیشنل اٹارنی جنرل نے جواب دیا کہ ’جو میں نے سنی ہے اس میں الفاظ میوٹ تھے۔‘
چیف جسٹس نے ریمارکس دیے: ’میرے خلاف اس سے زیادہ گفتگو ہوئی ہے لیکن نظرانداز کیا، جس کا فائدہ اٹھاتے ہوئے سوچا کہ ہم بھی تقریر کر لیں۔‘
چیف جسٹس نے مزید کہا: ’برا کیا ہے تو نام لے کر مجھے کہیں، ادارے کو نشانہ بنانے کی اجازت نہیں دیں گے۔ ادارے عوام کے ہوتے ہیں، اداروں کو بدنام کرنا ملک کی خدمت نہیں۔‘
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے ریمارکس دیے کہ ’مارشل لا کی توثیق کرنے والوں کا کبھی دفاع نہیں کروں گا۔ اگر میں نے کچھ غلط کیا ہے تو اس کی سزا دیگر ججوں کو نہیں دی جا سکتی۔ بندوق اٹھانے والا سب سے کمزور ہوتا ہے کیونکہ اس کے پاس کہنے کو کچھ نہیں ہوتا، دوسرے درجے کا کمزور گالی دینے والا ہوتا ہے۔‘
ساتھ ہی انہوں نے کہا: ’ایک کمشنر نے الزام لگایا اور سارے میڈیا نے اسے چلایا۔ مہذب معاشروں میں کوئی ایسی بات نہیں کرتا، اس لیے وہاں توہین عدالت کے نوٹس نہیں ہوتے۔ چیخ و پکار اور ڈرامے کرنے کی کیا ضرورت ہے، تعمیری تنقید ضرور کریں۔‘
چیف جسٹس نے بات جاری رکھتے ہوئے کہا کہ ’فیصل واوڈا کے بعد مصطفیٰ کمال بھی سامنے آ گئے، دونوں ہی افراد پارلیمنٹ کے ارکان ہیں اور ایوان میں بولتے ہیں۔ ایسی گفتگو کرنے کے لیے پریس کلب کا ہی انتخاب کیوں کیا؟ پارلیمان میں بھی ججوں کے کنڈکٹ پر بات نہیں کی جا سکتی۔‘
بقول چیف جسٹس: ’اوپر تلے پریس کانفرنسز کی بھرمار ہو رہی ہے۔ کوئی درجن بھر افراد پریس کانفرسز کر چکے ہیں۔ یہ لوگوں کا ادارہ ہے، آپ اس کا وقار کم کرنے کی کوشش کر رہے ہیں۔ اسی عدالت نے مارش لاؤں کی بھی آئینی توثیق کی ہے۔ کہا جاتا ہے کہ باپ کے گناہوں کا ذمہ دار بیٹا نہیں ہو سکتا، اگر ایک رکن اسمبلی غلط ہے تو سارے پارلیمان کو غلط نہیں کہہ سکتے۔‘
ساتھ ہی انہوں نے کہا: ’میڈیا میں بھی اچھے اور برے صحافی موجود ہیں، ہمیں پتہ ہے کہ ہماری عدلیہ کون سے نمبر پر ہے، گالیاں دینا مناسب نہیں۔ گالی گلوچ سب رپورٹ کرتے ہیں، اچھی باتیں کوئی رپورٹ نہیں کرتا۔‘
انہوں نے سابق وزیراعظم ذوالفقار علی بھٹو کیس سے متعلق بات کرتے ہوئے کہا کہ ’انہیں ہم زندہ تو نہیں کر سکتے لیکن غلطی تو مان لی۔‘
چیف جسٹس نے ایڈیشنل اٹارنی جنرل سے مکالمہ کرتے ہوئے کہا کہ ’اگر توہین عدالت کی کارروائی چلائی تو کیس میں استعاثہ کون ہو گا؟ استغاثہ اٹارنی جنرل ہوں گے۔ اب وزن آپ کے کندھوں پر ہے، کیا شو کاز نوٹس ہونا چاہیے یا صرف نوٹس ہونا چاہیے؟‘
جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے مزید کہا کہ ’ملک کا ہر شہری عدلیہ کا حصہ ہے، جرمنی میں ہٹلر گزرا ہے وہاں آج تک کوئی رو نہیں رہا۔ غلطیاں ہوئیں، انہیں تسلیم کر کے آگے بڑھیں، سکول میں بچے غطی تسلیم کریں تو استاد کا رویہ بدل جاتا ہے۔‘
بعد ازاں سپریم کورٹ نے فیصل واوڈا اور مصطفیٰ کمال کو فوری طلب کرتے ہوئے کہا: ’جو تنقید کرنی ہے ہمارے سامنے کریں۔‘
اس کے ساتھ ہی سپریم کورٹ نے فیصل واوڈا اور مصطفیٰ کمال کو شوکاز نوٹسز جاری کیے اور حکم دیا کہ ’بادی النظر میں توہین عدالت ہوئی ہے، فیصل واوڈا اور مصطفیٰ کمال اپنے بیانات کی وضاحت کریں۔‘
اپنے حکم نامے میں سپریم کورٹ نے کہا کہ ’15 مئی کو فیصل واوڈا نے پریس کانفرنس کی۔ ہماری تنقید ہمارے منہ پر کریں، ہم انہیں بلا لیتے ہیں۔ دوسری پریس کانفرنس مصطفیٰ کمال نے کی۔ عدالت کے زیر سماعت مقدمات پر بات کی گئی، پریس کانفرنس اخبارات میں اور ٹیلی وژن پر چلائی گئی۔ آئین پاکستان کے آرٹیکل 19 کے تحت ہر فرد کو اظہار رائے کی آزادی ہے۔‘
اس کے ساتھ ہی عدالت نے فیصل واوڈا اور مصطفیٰ کمال سے دو ہفتوں میں جواب طلب کرتے ہوئے پیمرا سے پریس کانفرنس کی وڈیو ریکارڈنگ اور ٹرانسکرپٹ طلب کرلیا اور کیس کی سماعت پانچ جون تک ملتوی کر دی۔
15 مئی کو اپنی پریس کانفرنس میں فیصل واوڈا نے مزید کہا تھا کہ انہوں نے جسٹس بابر ستار کی شہریت کے معاملے پر اسلام آباد ہائی کورٹ کو ایک خط لکھا، لیکن 15 دن کے باوجود بھی انہیں کوئی جواب موصول نہیں ہوا۔
ساتھ ہی انہوں نے کہا کہ آرٹیکل 19 اے کے تحت ہر پاکستانی کسی سے بھی کوئی بھی بات پوچھ سکتا ہے، لیکن پاکستانی تو دور کی بات ایک سینیٹر کو جواب نہیں مل رہا تو اس حوالے سے ابہام بڑھ رہا ہے کہ اس کے پیچھے منطق کیا ہے۔
اس پریس کانفرنس کے بعد جمعرات کو رجسٹرار آفس سے جاری کیے گئے جواب میں کہا گیا تھا کہ کسی بھی وکیل سے ہائی کورٹ کا جج بنتے وقت دہری شہریت کی معلومات نہیں مانگی جاتیں۔
مزید کہا گیا کہ جسٹس اطہر من اللہ نے چھ ججوں کے خط پر از خود کیس کی کارروائی میں اس بات کو واضح کیا اور بتایا کہ جسٹس بابر ستار کے گرین کارڈ کا معاملہ سپریم جوڈیشل کونسل میں زیر بحث آیا، جس کے بعد کونسل نے انہیں بطور جج مقرر کرنے کی منظوری دی۔
مزید کہا گیا کہ ’ہائی کورٹ کی پریس ریلیز میں وضاحت کی گئی تھی کہ جسٹس بابر ستار نے اس وقت کے چیف جسٹس کو بتایا تھا کہ وہ گرین کارڈ کے حامل ہیں۔‘
فیصل واوڈا نے اپنی پریس کانفرنس میں کہا تھا کہ جسٹس بابر ستار کا موقف ہے کہ جج بننے سے پہلے اس وقت کے چیف جسٹس اطہر من اللہ کو انہوں نے رپورٹ بھیجی تھی، اس کے حوالے سے ریکارڈ روم کے اندر تحریری طور پر کوئی چیز ہوگی لیکن اس کا جواب ہمیں نہیں مل رہا۔
اس حوالے سے رجسٹرار آفس نے اپنے جواب میں کہا کہ ’عدالت جوڈیشل کمیشن میں ہونے والی گفتگو کا ریکارڈ نہیں رکھتی۔‘
دوسری جانب گذشتہ روز ایک پریس کانفرنس کے دوران مصطفیٰ کمال نے کہا تھا کہ ’ایک اقامہ رکھنے پر عدالت ایک منتخب وزیراعظم کو گھر بھیج دیتی ہے، دوہری شہریت سیاست دان نہیں رکھ سکتے تو جج کیسے رکھ سکتے ہیں۔‘