وفاقی وزیر برائے نجکاری عبدالعلیم خان کا کہنا ہے کہ قومی ایئر لائن (پی آئی اے) میں ملازمین زیادہ تو ہیں لیکن کم جہاز اڑنے کے باعث سٹاف زیادہ بڑا لگتا ہے، جسے قابل اڑان طیاروں میں اضافہ کر کے متوازن بنایا جا سکتا ہے۔
پارلیمان کے ایوان بالا (سینیٹ) کی بدھ کی کارروائی کے دوران توجہ دلاؤ نوٹس کے جواب میں پی آئی اے کے ملازمین کی ’کثیر تعداد‘ کا ذکر کرتے ہوئے وفاقی وزیر نے کہا:’ہمارے پاس ملازمین زیادہ نہیں ہیں۔ جہاز زیادہ کر لیں تو یہ ملازمین زیادہ نہیں لگیں گے۔‘
انہوں نے مزید کہا: ’پی آئی اے کی تباہی میں سب نے اپنا حصہ ادا کیا۔ حکومت کا کام کاروبار کرنا نہیں سہولت دینا ہے۔ حکومت کاروبار کرے تو وہی ہوتا ہے جو پی آئی اے کا حال ہے۔ اس وقت صرف 18 جہاز چل رہے ہیں اور ادارے کے پاس 10 ہزار ملازمین ہیں۔‘
انہوں نے تسلیم کیا کہ قومی ایئر لائن کے نچلے طبقے کے ملازمین کا ادارے کی خرابی میں کوئی قصور نہیں بلکہ زیادہ بھرتیاں کرنے والے قصوروار ہیں۔
’(پی آئی اے) کی انتظامیہ درست کام نہیں کر رہی تھی تو اسے تبدیل کرنا کس کا کام تھا؟ پی آئی اے کا خسارہ بڑھتا گیا، جو اب 830 ارب روپے سالانہ ہے۔‘
وزیر برائے نجکاری عبدالعلیم خان نے کہا کہ پی آئی اے کی بڈنگ لائیو نشر کی جائے گی، جسے ساری پاکستانی قوم دیکھے گی۔ انہوں نے مزید کہا ’پری بڈنگ کا عمل جاری ہے، جس کو شفاف رکھا جائے گا۔ ’ایک بھی چیز ایسی نہیں ہو گی، جس پر میں شرمندہ ہوں۔‘
وفاقی وزیر نے مزید کہا کہ پی آئی اے کے 50 فیصد شیئرز فلوٹ کیے جا رہے ہیں اور یہ پبلک پرائیوٹ پارٹنر شپ ہو گی۔
’میری یہی خواہش ہے کہ ہم اپنے اثاثوں کو بچا لیں۔ 50 فیصد شیئرز حکومت کے رہیں گے تاکہ اگر بعد میں پی آئی اے کی حالت بہتر ہو تو حکومت کو فائدہ ہو۔‘
عبدالعلیم خان نے سوال اٹھایا کہ ’پی آئی اے کی نجکاری آج نہیں کریں تو کیا کریں؟ پی آئی اے اس طرح نہیں چل سکتا۔ اب سو سو ارب روپے پی آئی اے کو دینے کی گنجائش نہیں ہے۔
’اگر پی آئی اے بند ہو گیا تو پھر ملازمین کا کیا ہو گا؟‘
انہوں نے کہا کہ تین سال تک ملازمین کو ملازمت پر رکھنا کمپنی شرائط میں شامل ہے۔
انہوں نے اعتراف کیا کہ اس وقت پی آئی اے ملک لیے شرمندگی کا باعث بن چکا ہے۔
اجلاس میں پی آئی اے کی نجکاری اور فروخت کے حوالے سے توجہ دلاو نوٹس پر پاکستان پیپلز پارٹی کی سینیٹر قرۃالعین مری نے کہا قومی ایئر لائن میں ملازمین کی تعداد مسئلہ نہیں چونکہ ان کی تعداد دیگر ممالک کی ایئر لائنز سے کچھ زیادہ مختلف نہیں ہے۔ انہوں نے کہا: ’پی آئی اے کو دانستہ طور پر تباہ کرنے کے غلط انتظامی فیصلے کیے گئے۔‘
انہوں نے سوال اٹھاتے ہوئے کہا ان سابق وفاقی وزیر پر آرٹیکل چھ کا اطلاق کیوں نہیں کیا گیا جنہوں نے کہا تھا کہ پی آئی اے کے پائلٹس کے لائسنسز جعلی ہیں۔
’ہمیں نجکاری کی جلدی پڑی ہے تاہم اس معاملے میں کوئی شفافیت نہیں۔ حکومت پی آئی اے کی نجکاری میں شفافیت لائے۔‘
سینیٹر شیری رحمان نے کہا پی آئی اے کے بزنس پلانز میں بتایا گیا تھا کہ ملازمین بوجھ نہیں بلکہ فلائٹس اور روٹس کی کمی نقصان کی وجہ بنے۔
سینیٹر ضمیر گھمرو نے کہا پی آئی اے ملازمین میں تشویش ہے کہ ’ایئر لائن کی نجکاری پر ان کا کیا ہو گا؟‘
سینیٹر پونجو مل نے کہا ’ہم اپنے قومی اداروں کو بیچتے جا رہے ہیں لیکن دیگر تمام نجی ایئر لائنز بالکل ٹھیک چل رہی ہیں۔ ایئر عربیہ کہہ رہی ہے کہ پی آئی اے انہیں دی جائے۔ کیا ہم یہ پیغام دینا چاہ رہے ہیں کہ پاکستانی نا اہل ہیں؟‘
سینیٹر کاظم علی شاہ نے پی آئی اے کی نجکاری سے متعلق تجویز دیتے ہوئے کہا ادارے کو فرخت کرنے کے بجائے پبلک پرائیوٹ پارٹنر شپ میں دیا جائے۔
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
رؤف حسن پر حملہ
وزیر قانون نذیر اعظم تارڑ نے پاکستان تحریک انصاف کے رہنما رؤف حسن پر حملے سے متعلق رپورٹ ایوان بالا میں پیش کرتے ہوئے کہا کہ رؤف حسن کے بیان کے مطابق فرسٹ انفارمیشن رپورٹ (ایف آئی آر) درج کر دی گئی ہے اور پولیس نے تفتیش بھی شروع کر دی ہے، جب کہ سی سی ٹی وی فوٹیج کے ذریعے ملزمان کی نشاندہی کرنے کی کوشش کی جا رہی ہے۔
رپورٹ کے مطابق ایف آئی آر میں اقدام قتل کی دفعات لگائی گئیں ہیں۔
بعد ازاں پریذائڈنگ افسر شیری رحمان نے وزیر قانون کو ’آئین و قانون کے مطابق رپورٹ فراہم‘ کرنے کی ہدایت کی۔
فیصل واوڈا
وزیر قانون نے سینیٹر فیصل واوڈا کا معاملہ سینیٹ سکریٹریٹ کو بھیجنے کی تجویز دیتے ہوئے کہا ’توہین عدالت پر سینیٹ میں بحث کی رپورٹ چیئرمین سینیٹ کو بھجوائیں اور وہ فیصلہ کریں گے کہ کیا کرنا ہے۔‘
پریذائڈنگ افسر شیری رحمان نے کہا فیصل واوڈا کا مسئلہ سنجیدہ ہے اور اسے سینیٹ سیکرٹریٹ کو بھیجا جائے تاکہ وہ اس معاملے کو دیکھ کر رپورٹ تیار کرے، جو چیئرمین سینیٹ کو پیش کی جائے۔
سینیٹر فیصل واوڈا نے کچھ روز قبل اسلام آباد میں پریس کانفرنس کے دوران کہا تھا کہ ’اگر رکن قومی اسمبلی دوہری شہریت نہیں رکھ سکتا تو جج کیوں رکھے۔ یہ جج دوہری شہریت کے ساتھ کیسے بیٹھے ہوئے ہیں؟‘
سپریم کورٹ آف پاکستان نے ان ریمارکس پر ازخود نوٹس لیا تھا۔