سندھ بھر میں نمرتا کے ورثا کو انصاف دلانے کے لیے احتجاجی مظاہرے جاری ہیں۔ دوسری طرف نمرتا کے واقعہ کو دبانے، اور خودکشی کا رنگ دینے کی بھرپور کوششیں بھی جاری ہیں۔
ڈاکٹر نمرتا آصفہ ڈینٹل کالج لاڑکانہ کی فائنل ایئر کی طالبہ تھیں جن کی نعش ہاسٹل سے چہند روز قبل برآمد کی گئی، مگر اب تک اس بات کا تعین نہیں ہوسکا ہے کہ آیا یہ خودکشی کا واقعہ تھا یا انہیں قتل کیا گیا۔ مگر جس طریقے سے تفتیش کی جا رہی ہے، خدشہ ہے کہ اس معاملے کو خودکشی کا رنگ دیا جائے گا۔
چند برس قبل جامعہ سندھ، جامشورو کے ہاسٹل سے طالبہ نائلہ رند کی نعش برآمد ہوئی تھی۔ کل کیا کسی اور طالبہ کی نعش ہاسٹل سے برآمد ہوگی؟ آخر کب تک یہ سلسلہ چلتا رہےگا۔۔؟ واقعے کی تحقیقات اور پوسٹ مارٹم رپورٹ آنے سے قبل ہی یونیورسٹی انتظامیہ کے جانب سے بیانات دیے گئے کہ واقعہ خودکشی کا ہے۔ اور لوگ اس طرح کے بیانات پر یقین کر کے خاموش ہو جائیں گے۔۔۔۔!
ہمیں بخوبی پتہ ہے کہ اس دور میں اعلیٰ تعلیم عام لوگوں کی پہنچ سے کتنی دور ہے۔ سوچیے کہ اس بوسیدہ سماج میں لڑکیوں کے لیے اعلیٰ تعلیم کا حصول کتنا مشکل ہے۔۔! جب وہ اپنا اور اپنی قوم کا مسقبل سنوارنے کے خواب لے کر کالج اور جامعات میں آتی ہیں تو انہیں ہر روز وحشی نظروں سے نشانہ بنایا جاتا ہے۔ مسکرانے، ہنسنے، بولنے اور خاموش طبیعت رہنے پر طنزیہ، جملے کسے جاتے ہیں۔ اس گھٹن زدہ ماحول میں بھی وہ اپنے تعلیم حاصل کرتی ہیں۔ مگر کئی طالبہ تعلیمی اداروں کے اندر اور باہر بیٹھے وحشی بھیڑیوں کا شکار بن جاتی ہیں۔
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
ویسے تو تعلیمی اداورں کو شعور کی بیداری کا بڑا ذریعہ مانا جاتا ہے۔ مگر جب وہی تعلیمی ادارے شعور کی موت بن جائیں تو یہ کسی بڑے المیے سے کم نہیں۔ ہم اور ورثاء انصاف کے لیے مظاہرے کریں گے، روتے رہیں گے، مگر حکمرانوں کو کچھ بھی فرق نہیں پڑے گا، کیونکہ وہ اپنی ذمہ داری صرف بیانات دینے کو سمجھے ہیں۔
اب سوال یہ ہے کہ اس طرح کے واقعات کیسے رک سکتے ہیں؟ جب تک اس طرح کے واقعات کی شفاف تحقیقات نہیں ہوگی، جب تک تعلیمی اداروں میں بیٹھے جنسی بھیڑیوں کو سزا نہیں ملے گی، جب تک اس حوالے سے قانون سازی نہیں کی جائے گی، جب تک معاشرتی بےحسی اور بوسیدہ سوچ ختم نہیں ہوگی، تب تک ایسے واقعات ہوتے رہیں گے، اور ان واقعات کو خودکشی کا رنگ دے کر نمٹایا جائے گا۔
ایسے واقعات صرف تعلیمی اداروں تک محدود نہیں، مگر شہروں، گاوں میں ہر روز پیش آتے رہتے ہیں۔ وڈیراشاہی، انتہاپسندی، بوسیدہ سوچ جیسی بیماریوں نے پورے معاشرے کو بیمار کر دیا ہے۔ اب وقت ہے کہ ان بیماریوں کا علاج کیا جائے۔