پولیس سرجن اورفرانزک کے ماہر کا نام آتے ہی ذہنوں میں پولیس، پوسٹ مارٹم، عدلیہ، ملزم اور مجرم کا خیال آتا ہے۔
لیکن سندھ کی پہلی خاتون چیف ڈاکٹر سمعیہ سید طارق مصنف ابن صفی کی کہانیوں سے متاثر ہو کر اس شعبے میں آئیں۔
انہوں نے جرم و سزا اور جاسوسی کہانیوں میں دلچسپی کے باوجود اپنے بڑوں کی ایما پر ڈاکٹر بننا پسند کیا اور شوق کی وجہ سے میڈیکل کے تیسرے سال میں پڑھے جانے والے فرانزک سائنس کے مضمون کو پیشے کے طور پر اپنایا۔
ڈاکٹر سمعیہ 1999 میں ڈاؤ میڈیکل کالج سے فارغ التحصیل ہوئیں۔ کئی سالوں کی پیشہ ورانہ محنت کے بعد انہوں نے 2022 میں پہلی خاتون چیف پولیس سرجن بن کر خود کو منوایا ہے۔
یہ شعبہ عموماً مردوں کا شعبہ سمجھا جاتا ہے لیکن ڈاکٹر سمعیہ نے ثابت کیا کہ وہ اس کی اہل ہیں۔
یہ ہی نہیں وہ سندھ میڈیکل ریفارم کمیٹی کی رکن اور اینٹی ریپ بل کا مسودہ تیار کرنے والی پارلیمانی کمیٹی کا حصہ بھی رہیں۔
ڈاکٹر سمعیہ مانتی ہیں کہ بحثیت خاتون ان کی پیشہ ورانہ زندگی مشکل ضرور تھی لیکن کوئی واقعہ ان کے سفر کو روک نہیں سکا۔
میڈیکو لیگل آفسر ہونا ایک مشکل راستہ ضرور تھا۔ انہیں کئی مشکل فیصلوں سے گزرنا پڑا لیکن پہلے پہل والد اور پھر شوہر کی مدد نے اس پیشہ ورانہ زندگی کو آسان بنا دیا۔
ڈاکٹر صاحبہ نے مسکراتے ہوئے کہا کہ ’آج سوچوں تو کچھ برے واقعات یادوں کا حصہ ہیں تو کافی اچھی یادیں بھی ہیں۔
لیکن انہیں اچھے ساتھی ملے اور خاندان کے مکمل تعاون کی بدولت ہی وہ سندھ کی پہلی پولیس سرجن بننے میں کامیاب رہیں۔
اینٹی ریپ کرائسز یونٹ کا قیام کیوں ضروری ہے؟
فیڈرل قانون Anti-Rape Investigation and Trail Act 2021 کے تحت 2023 میں پاکستان کے پہلے اینٹی ریپ کرائس پائلٹ یونٹ کے قیام کی منظوری دی گئی۔
پہلا یونٹ اینٹی ریپ کرائسز سینٹر کراچی میں بنا اور ڈاکٹر سمعیہ کو اس پائلٹ منصوبے کا سربراہ بنایا گیا۔
ڈاکٹر سمعیہ اس حوالے سے کہتی ہیں کہ ’اس یونٹ کا بنیادی خاکہ یہ ہے کہ ایک چھت کے نیچے ریپ سروائیور کو پولیس سے لے کر ڈاکٹر، ماہر نفسیات اور وکیل کی مدد مل سکے۔
’یعنی متاثرہ فرد کو تحفط ہی نہیں دیا جائے بلکہ بروقت شواہد اور قانونی تقاضے پورے کیے جائیں۔ اب تک اس یونٹ میں 199 کیسز سامنے آچکے ہیں جس میں سے 77 خواتین اور نو عمر لڑکوں کے اور 21 باقی بچوں کے ہیں۔‘
ڈاکٹر سمعیہ نے بتایا کہ ’یہ دفتر کوئی عمارت نہیں، نہ ہی کمرے ہی بلکہ یہ ایک بہتر سوچ کا نام ہے۔ جہاں سروائیور کو ہر طرح سے سہولت اور آسانی فراہم کی جاتی ہے۔
’یہ ایک پائلٹ پروجیکٹ ہے۔ اس کے بعد جناح پوسٹ گریجویٹ میں ماڈل سیل بنا رہے ہیں۔ بنیادی طور پر یہ کوئی نئی چیز نہیں کیوں کہ یہ جناح ہسپتال میں one stop protection centre کی شکل میں پہلے ہی کام کر رہا تھا۔ لیکن اب وفاق کے قانون کے تحت کرائسز یونٹ قائم کیا گیا ہے۔‘
ریپ کے شواہد ضائع نہ ہونے دیں
ریپ کیسز کے حوالے سے ڈاکٹر سمعیہ کا کہنا ہے کہ ’سروائیور کے لیے ضروری ہے کہ جسم اور کپڑوں پر لگنے والے شواہد، جو چوٹ، زخم، مختلف سیکریشنز کی صورت میں ہوتے ہیں ضائع نہ ہوں۔ اس لیے یاد رکھیں کہ کبھی بھی متاثرہ شخص کو نہ نہلائیں۔
’قانون کا کہنا ہے کہ متاثرہ شخص چھ گھنٹوں کے اندر ڈاکٹر سے معائنہ کرا چکا ہو۔ اس ہی لیے سروائیور یہاں پہنچ جائے تو ڈاکٹر کے معائنے کے بعد پولیس کا محکمہ اپنی رپورٹ تیار کرے گا۔
’آج سے پہلے ریپ سروائیور پولیس تک پہنچتا تھا لیکن اب کرائسز سینٹر پہنچے اور یہاں اسے ایک چھت تلے ہر ممکنہ مدد مل جائے گی۔ ہماری کوشش ہے کہ مجرم کے خلاف مضبوط شواہد ہوں اور وہ پکڑا ہی نا جائے بلکہ اسے سزا بھی ملے۔ ہم جانتے ہیں کہ ہمارے ہاں مجرموں کوسزا ملنے کی شرح صرف 11 فیصد ہے۔‘
انھوں نے اپنی بات کی وضاحت کچھ اس طرح کی کہ ’ہماری سوچ یہ ہے کہ متاثرہ فرد جان لے کہ ہم اس کے ساتھ کھڑے ہیں۔ ساتھ ہی ہم کوشش کرتے ہیں متعددی بیماریاں خاص کر HIV-Hepatitis جیسی موذی امراض سے بھی متاثرین کو بچائیں۔ حمل نہ ٹھہر جائے۔ یعنی متاثرہ شخص کو ایک مرکز پر تمام بنیادی اور ضروری مدد مل جائے۔‘
ان کے مطابق ’پہلے چند ہفتے تو زخم مندمل ہونے میں لگ جاتے ہیں لیکن اسے نفسیاتی مدد کی ضرورت حادثے کے کئی ماہ، بلکہ کبھی کئی سال تک رہتی ہے۔
کیوں کہ اتنے بڑے حادثے کے بعد متاثر کھڑے ہونے کے قابل ہی نہیں رہتا۔ ہمارے ہاں اعداد و شمار بتاتے ہیں کہ اس ظلم کا شکار سب سے زیادہ بچے، خواتین اور ٹرانس جینڈرز ہوتے ہیں۔‘
ڈاکٹر سمعیہ نے واضح کیا کہ ’اس مرکز پر ہم صرف جنسی تشدد کا شکار خواتین کو مدد فراہم نہیں کرتے بلکہ گھریلو تشدد کا شکار ہونے والی خواتین بھی ہم تک پہنچتی ہیں۔ اکثر ان کی تمنا صرف اتنی ہوتی ہے کہ حل نہ بھی نکلے تو بھی کوئی ان کی بات سن لے۔‘
اب تک کیا سیکھا اور کیا سیکھنا ہے؟
ڈاکٹر سمعیہ کا اس حوالے سے کہنا ہے کہ ’سندھ میں ہمارے پاس Sindh Sexual Violence response frame work 2019 موجود تھا۔ ہم کام بھی کر رہے تھے۔
’لیکن اب یہ ہی سہولیات وفاقی قانون کے تحت دی جارہی ہیں۔ اس پائلٹ پروجیکٹ سے ہم نے بہت سیکھا ہے۔ ہمیں معلوم ہوا کہ ہم کہاں بہتر کام کر رہے ہیں اور کہاں ہمیں مزید بہتری کی ضرورت ہے۔
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
’ہم نے باقاعدہ کچھ کٹس متعارف کی ہیں۔ جیسے ڈاکٹروں کو DNA case kit دی گئی ہے۔ یہ DNA حاصل کرنے کے لیے بہتر کٹ ہے۔ دوسری Sexual evidence collection kit ہے۔ اب یہ تمام کٹس ایک باکس کی شکل میں ڈاکٹر کے پاس محفوظ ہوں گی۔ جسے rape servitor kit box کا نام دیا گیا ہے۔‘
ان کے مطابق: ’اگلے مرحلے میں ہم Dignity kit بنا رہے ہیں۔ جس میں سروائیور کے لیے لباس، تولیہ ، کنگا، ٹوتھ برش، کریم غرض کہ ایک مکمل باکس، جس میں ریپ سروائیور کے لیے ہر ممکنہ چیز موجود ہو۔
’پھر چھوٹے بچوں کے لیے مختلف کھلونے، خاص کر گڑیا رکھیں تاکہ وہ بتا سکیں کے ان کے ساتھ کیا ہوا۔ گڑیا کے جسم پر بتا سکیں کہ انہیں مجرم نے کس طرح تنگ کیا۔ ان تمام مراحل کو بہتر اور حتمی شکل دینے میں ہمیں حکومت کے ساتھ ساتھ یو این ویمن کا بھی تعاون حاصل رہا۔‘
میڈیکولیگل نظام میں صنفی تفریق ختم ہو سکے گی؟
ڈاکٹر سمعیہ مانتی ہیں کہ پولیس اور میڈیکو لیگل سسٹم میں صنفی برابری کا فقدان ہے۔
تاہم ان کا کہنا ہے کہ ’اچھی بات یہ ہوئی ہے کہ اب سندھ میڈیکو لیگل ایکٹ 2023 بنایا گیا ہے۔ جس میں میڈیکو لیگل ایڈمنسٹریشن، آئی او اور پوسٹ مارٹم آفیسر کا ایک پورا نظام وضع کیا گیا ہے۔ جس کے تحت فارنزک میڈیسن میں بھی خواتین سامنے آئیں گی۔‘
ڈاکٹر سمعیہ کا کہنا ہے کہ ’کراچی میں ان کے زیر نگرانی چھ خواتین بطور میڈیکو لیگل افسر کام کر رہی ہیں۔ اس صورت حال میں خواتین میڈیکو لیگل افسر ہر دم تیار رہتی ہیں کہ کب کون سا کیس آجائے اورکسی کو بھی، کسی بھی وقت کال کیا جاسکتا ہے۔ کیوں کہ بچوں اور خواتین کے کیسز کے لیے ہمیں صرف خاتون میڈیکو لیگل افسر چاہییں۔‘