امریکی ادارہ برائے بین الاقوامی ترقی (یو ایس ایڈ) کے ایک عہدیدار نے بائیڈن انتظامیہ کی جانب سے غزہ میں جارحیت کی حمایت پر احتجاجاً استعفیٰ دے دیا۔
صنفی توازن، زچہ و بچہ کی صحت، بچوں کی صحت اور غذائیت کے سینیئر مشیر الیگزینڈر سمتھ نے گارڈین کو بتایا کہ یو ایس ایڈ کی قیادت کی جانب سے فلسطین میں بچوں کی اموات سے متعلق پریزنٹیشن منسوخ کیے جانے کے بعد انہیں استعفے یا برطرفی میں سے کسی ایک کو چننے کا کہنا گیا تھا۔
یو ایس ایڈ کی سربراہ سمانتھا پاور کو لکھے گئے اپنے استعفے میں انہوں نے الزام عائد کیا کہ ادارہ غزہ میں جارحیت اور فلسطینیوں کو دیگر تنازعات اور انسانی ہنگامی صورت حال سے مختلف انداز میں دیکھ رہا ہے۔
دی گارڈین کے مطابق انہوں نے خط میں لکھا کہ ’میں ایسے ماحول میں اپنا کام نہیں کر سکتا جہاں مخصوص افراد کو مکمل طور پر انسان تسلیم نہیں کیا جا سکتا، یا جہاں صنف اور انسانی حقوق کے اصول کچھ لوگوں پر لاگو ہوتے ہیں، لیکن دوسروں پر نہیں، اور اس کا دارومدار ان کی نسل پر منحصر ہے۔‘
انہوں نے مزید کہا لکھا کہ ’یو ایس ایڈ نے ہمیشہ جمہوریت، انسانی حقوق اور قانون کی حکمرانی کی حمایت کرنے والے اپنے پروگراموں پر فخر کیا ہے۔ یوکرین میں، جب لوگوں کو نشانہ بنایا جاتا ہے، ہم انصاف کا مطالبہ کرتے ہیں اور تشدد کے مجرموں کا نام لیا جاتا ہے۔۔۔ ہم جذباتی کر دینے والی اپنی پروموشنل ویڈیوز میں جرات مندانہ طور پر ’سلاوا یوکرینی‘ کہتے ہیں۔
انہوں نے مزید کہا کہ ’جب فلسطینیوں کی بات آتی ہے تو ہم ان کے ریاست کے حق، ان کے ساتھ ہونے والی زیادتیوں یا ان کے آزادی، حق خودارادیت، معاش اور صاف پانی کے بنیادی حقوق کی خلاف ورزیاں کرنے والی قوتوں کے بارے میں کچھ بھی کہنے سے گریز کرتے ہیں۔‘
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
یہ استعفیٰ ایک ایسے وقت میں سامنے آیا ہے جب دو ہفتے قبل دی انڈپینڈنٹ کی جانب سے شائع کی گئی تحقیقات میں بتایا گیا تھا کہ غزہ میں بھوک کے بحران سے نمٹنے کے لیے بائیڈن انتظامیہ کے ردعمل پر یو ایس ایڈ میں اختلاف رائے ہے۔
تحقیقات میں انکشاف کیا گیا کہ جارحیت کے آغاز سے لے کر اب تک یو ایس ایڈ کے عملے کی جانب سے کم از کم 19 اندرونی اختلافی میمو بھیجے جا چکے ہیں، جن میں غزہ میں اسرائیلی جارحیت کی امریکی حمایت پر تنقید کی گئی ہے۔
یو ایس ایڈ کے متعدد ملازمین کی جانب سے رواں ماہ تیار کیے گئے ایک اندرونی اجتماعی اختلافی میمو میں عملے نے ایجنسی اور بائیڈن انتظامیہ کو ’بین الاقوامی انسانی اصولوں کی پاسداری کرنے اور زندگیاں بچانے کے مینڈیٹ پر عمل کرنے میں ناکامی‘ پر تنقید کا نشانہ بنایا ہے۔
لیک ہونے والے میمو کے مسودے، جس کو دی انڈپینڈنٹ نے دیکھا ہے، میں انتظامیہ سے مطالبہ کیا گیا کہ وہ ’قحط کا سبب بننے والے اسرائیلی محاصرے کے خاتمے‘ کے لیے دباؤ ڈالے۔
الگزینڈر سمتھ جارحیت کے بعد یو ایس ایڈ سے مستعفی ہونے والے دوسرے اور رواں ہفتے دوسرے امریکی عہدے دار ہیں۔
اس سے قبل واشنگٹن پوسٹ کی رپورٹ کے مطابق محکمہ خارجہ کے بیورو آف پاپولیشن، ریفیوجیز اینڈ مائیگریشن میں کام کرنے والی کیریئر افسر سٹیسی گلبرٹ نے محکمے کی اس رپورٹ پر استعفیٰ دے دیا تھا، جس میں دعویٰ کیا گیا تھا کہ اسرائیل غزہ کو انسانی امداد میں رکاوٹ نہیں ڈال رہا۔
یو ایس ایڈ کے ایک ترجمان نے کہا کہ ’ہم نے اندرونی اور بیرونی طور پر مسلسل واضح کیا ہے کہ حماس کے خلاف اسرائیل کی جارحیت میں بہت سے بے گناہ افراد جان سے گئے اور زخمی ہوئے ہیں۔ ایجنسی میں سینکڑوں کا عملہ امداد میں تیزی لانے، شہریوں کے لیے زیادہ سے زیادہ تحفظ اور تنازعات کو ختم کرنے کی کوشش اور سفارتی کوششوں کو آگے بڑھانے کے لیے انتھک کام کر رہا ہے۔‘
انہوں نے مزید کہا کہ ایجنسی کی قیادت ’متعدد اجلاسوں، ٹاؤن ہالز اور دیگر فورمز کے ذریعے یو ایس ایڈ کے کام اور تنازعے پر نقطہ نظر کے بارے میں عملے کے ساتھ کھل کر بات چیت جاری رکھے ہوئے ہے۔ یہ نقطہ نظر تباہ کن تنازعے کے لیے ایک ایجنسی کے طور پر ہمارے ردعمل کو تشکیل دے رہے ہیں۔‘
یو ایس ایڈ کے ایک عہدیدار کا کہنا تھا کہ ’وہ عملے کے انفرادی ارکان کے معاملات پر بات نہیں کر سکتے اور نہ اس پر کہ کیوں یہ فرد اب یو ایس ایڈ میں بطور ملازم کام کیوں نہیں کر رہا‘، لیکن سمتھ کی پریزنٹیشن ’اس موضوع پر کام کرنے والے اپنے سپروائزرز اور اس معاملے کے ماہرین کے ساتھ ایجنسی کے معیاری جائزے اور منظوری کے عمل سے نہیں گزری۔‘
اسرائیل نے اس بات کی سختی سے تردید کی ہے کہ غزہ میں بھوک کا بحران ہے یا اس نے امداد کو محدود کر دیا ہے۔
اس کا کہنا ہے کہ حماس، جس کے حملے میں سات اکتوبر کو اسرائیل میں 1200 افراد مارے گئے اور 250 سے زیادہ کو قیدی بنا لیا تھا، کے ساتھ لڑائی نے امدادی کوششوں کو متاثر کیا ہے۔
اقوام متحدہ کے ورلڈ فوڈ پروگرام کی امریکی ڈائریکٹر سنڈی میک کین نے مئی کے اوائل میں کہا تھا کہ غزہ کے شمال میں ’مکمل قحط‘ ہے، ’اور یہ اس کے جنوب کی طرف بڑھ رہا ہے۔‘
اس کے بعد سے اسرائیل نے رفح پر ایک حملہ شروع کر رکھا ہے، جس کے نتیجے میں شہر کے جنوب میں امداد کے لیے ایک اہم کراسنگ کو بند کردیا گیا۔
بدھ کو غزہ کے بحران کے بارے میں دیگر ڈونر حکومتوں سے بات کرتے ہوئے سمانتھا پاور نے کہا کہ وہاں کے شہری ’اس لڑائی میں تباہ کن اور ناقابل قبول قیمت ادا کر رہے ہیں، خاص طور پر رفح میں آئی ڈی ایف کی توسیع شدہ کارروائیوں کے تناظر میں۔‘
انہوں نے مزید کہا کہ ’تباہ کن نتائج، جن کے بارے میں ہم طویل عرصے سے خبردار کرتے رہے ہیں، وہ حقیقت میں بدل رہے ہیں۔‘
اقوام متحدہ نے بدھ کوکہا کہ پورے غزہ میں ہزاروں بچے غذائی قلت کا شکار ہیں۔
اقوام متحدہ نے ایک تازہ ترین رپورٹ میں اعلان کیا ہے کہ ’غزہ میں داخل ہونے والی خوراک اور دیگر امداد کی مقدار، جو بڑھتی ہوئی ضروریات کو پورا کرنے کے لیے پہلے ہی ناکافی ہے، سات مئی کے بعد سے مزید کم ہو گئی ہے۔ سات سے 28 مئی کے درمیان روزانہ اوسطاً 58 انسانی امداد کے ٹرک غزہ پہنچے ہیں جبکہ یکم اپریل سے چھ مئی کے درمیان روزانہ اوسطا 176 امدادی ٹرک آتے تھے۔‘
© The Independent