حال ہی میں بلوچستان جانے کا اتفاق ہوا اور پہلا پڑاؤ کوئٹہ تھا جہاں کا موسم بہترین تھا۔
ایسا لگ رہا تھا کہ اسلام آباد سے کوئٹہ جنت کا سفر طے کر لیا ہے۔ صحافیوں سے ملاقاتیں ہوئیں جو دور دراز علاقوں سے آئے ہوئے تھے۔
شامیں ہماری ہوٹل کے لان میں ہوتی تھیں جس میں ان کو درپیش مسائل اور صحافتی ذمہ داریاں نبھانے میں مشکلات اور چیلنجز پر گفتگو ہوتی تھی۔
فیلڈ میں یوں تو ہر صحافی کو مشکلات کا سامنا ہوتا ہے اور خاص طور پر ان صحافیوں کو جو ایک طرف حکومت تو دوسری جانب ’سرمچار‘ کے درمیان پل صراط پر چل رہے ہوتے ہیں۔
لیکن ایک چیلنج ایسا ہے جو نہ تو حکومت کی جانب سے ہے اور نہ ہی ’سرمچاروں‘ کی طرف سے ہے۔
درحقیقت وہ چیلنج ان کو اپنی ہی میڈیا تنظیموں سے ہے اور وہ ہے نہ تو کسی قسم کا کنٹریکٹ ہونا اور نہ ہی کسی قسم کی تنخواہ ہونا۔
اسی لیے گزر بسر کے لیے ایک صحافی اپنا پی سی او چلاتا ہے۔ جی بالکل میں بھی یہ سن کر ہکا بکا رہ گیا۔
ہکا بکا اس لیے نہیں کہ اس کو تنخواہ نہیں مل رہی تھی بلکہ اس لیے کہ اکیسویں صدی میں بھی شاید ہی اس دنیا میں کوئی ملک کا کوئی کونا کھدرا ہو جہاں موبائل کے اس دور میں پی سی او اب بھی چل رہے ہیں۔
اگر ایک صحافی پی سی او چلا رہا ہے تو دوسرا کسی سرکاری محکمے میں ٹیکنیشن کے طور پر کام کر رہا ہے۔
آخر ایسا کیوں ہے؟ یہ وہ صحافی ہیں جو جان جوکھوں میں ڈال کر ہم کو بلوچستان کے کونے کونے سے خبریں فراہم کرتے ہیں۔ تو پھر ان کے ساتھ ایسا سلوک کیوں؟
یہ ایک لمبی بحث ہے۔ کوئٹہ کے بعد کراچی اور وہاں سے گوادر کا رخ کیا۔ فلائٹ تو اس دن تھی نہیں تو اس لیے گاڑی ہی سے سفر اختیار کیا اور کوسٹل ہائی وے پر چڑھ گئے۔
راستے میں کنڈ ملیر اور اورماڑہ پر رکے۔ کراچی کے سی ویو اور ہاکس بے کے بعد یہ دونوں جگہیں دیکھ کر بلوچستان کی خوبصورتی کا قائل ہو گیا۔
صاف شفاف سمندر نہ کوئی پلاسٹک کا لفافہ اور نہ ہی کوئی گند۔ اسی کی دہائی میں جو ساحل سمندر کراچی کا تھا جہاں سے ہم سیپیاں اکٹھی کیا کرتے تھے، کنڈ ملیر پر سیپیاں دیکھ کر بچپن کی یاد تازہ ہو گئی۔
لیکن دل میں ایک خوف یہ تھا کہ کنڈ ملیر کے ساحل پر بنی ہٹس میں اضافہ ہوتا جا رہا تھا۔
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
کیا اس کو کسی منصوبہ بندی کے تحت پھیلنے دیا جائے گا اور اس کا بھی وہی حال ہو گا جو کراچی کے ساحلوں کا ہو گیا ہے؟
آبادی سے دور کنڈ ملیر کی قسمت شاید کراچی کے ساحلوں جیسی نہ ہو کیونکہ یہاں زیادہ لوگ نہیں آتے لیکن کب تک۔
سال نہیں تو دو سال بعد کنڈ ملیر اور اورماڑہ میں بھی لوگوں کا ہجوم ہو جائے گا اور اگر ہٹس کے پھیلاؤ کو نہیں روکا گیا تو پھر گندگی کو پھیلنے سے کون روک سکتا ہے۔
اورماڑہ کے بعد تو ایسا لگا جیسا آبادی ہے ہی نہیں۔ کہیں کہیں کچھ کچے مکان نظر آتے لیکن آبادی نہیں۔
گرمی کی شدت حد سے زیادہ تھی اور گوادر پہنچنے پر جو ذہن میں گوادر کی شبیہ بنی ہوئی تھی وہ چکنا چور ہو گئی۔
ڈیویلپمنٹ کا تو دور دور تک نام و نشان نہیں۔ یہاں کے لوگ ڈیویلپمنٹ نہ ہونے کو بین الاقوامی ہوائی اڈے کے نہ ہونے کے ساتھ جوڑتے ہیں۔
وہ کہتے ہیں کہ کوئی بھی اے ٹی آر جہاز پر سفر کر کے گوادر کیوں آئے۔ لیکن میرا سوال یہ ہوتا ہے کہ لوگ گھنٹوں کا گاڑی سے سفر کر کے گلگت بلتستان بھی جاتے ہیں اور صرف اس لیے کہ وہاں سہولیات ہیں۔
شام کو ہوٹل سے نکلیں تو کوئی ایسی جگہ ہو جہاں پر بیٹھ کر چائے یا کافی پی جا سکے یا پھر کچھ کھایا جا سکے۔ اس کا ایئر پورٹ سے تعلق نہیں۔
اگست میں نئے بین الاقوامی ہوائی اڈے کا افتتاح ہو رہا ہے اور امید ہے کہ گوادر کی جانب بھی لوگ رخ کریں گے، یہاں پر ڈیویلپمنٹ ہو گی اور مقامی آبادی کے لیے معاش کے نئے ایونیو کھلیں گے۔
نوٹ: یہ تحریر کالم نگار کی ذاتی آرا پر مبنی ہے، جس سے انڈپینڈنٹ اردو کا متفق ہونا ضروری نہیں۔