پاکستانی صحافی ہراسانی کا شکار

آزادیِ صحافت کے عالمی دن کے موقعے پر پاکستانی صحافیوں کی حالت پر نظر ڈالی جائے تو انہیں ایک نہیں، کئی طرح کے مسائل کا سامنا ہے۔

اسلام آباد میں صحافی 12 اگست، 2022 کو چینل اے آر وائی کی بندش کے خلاف احتجاج کر رہے ہیں (اے ایف پی)

پاکستان میں اس وقت صحافی بڑی تعداد میں سینسرشپ اور ہراسانی کا شکار ہیں۔ کچھ اس کا مقابلہ کر رہے ہیں، کچھ خاموش ہو گئے ہیں اور کچھ سیلف سینسر شپ کر رہے ہیں تاکہ وہ اور ان کے اہل خانہ ہراسانی سے محفوظ رہ سکیں۔

بہت سے صحافی معاشی استحصال کا شکار ہیں زیادہ تر پاکستانی میڈیا اداروں میں تنخواہیں ہر سال نہیں بڑھائیں نہیں جاتی۔ نہ ہی ان کے لیے ہیلتھ انشورنس، سالانہ تعطیلات، مراعات کا کوئی تصور ہے۔ اکثر مزدوروں کی طرح کام رہے ہیں ان کا کام نظر انداز کیا جاتا ہے، ان کو ہراسانی یا بیماری کی صورت میں اکیلا چھوڑ دیا جاتا ہے۔ کتنے ہی صحافی اور میڈیا ورکرز اپنے زندگی کے آخری ایام میں کسمپرسی میں گئے ان کے اداروں یا پریس کلبز نے ان کی مدد نہیں کی۔ رجیم چینج کے بعد سے پریس کل بھی صرف پریس ریلیز یا نعرے بازی تک ہی محدود ہیں۔ دوسری طرف صحافیوں پر پابندیاں لگانے والی شخصیات پر گل پاشی کی جاتی ہے۔

گذشتہ کچھ سالوں میں متنازع قانون سازی کر کے صحافیوں پر مزید پابندیاں عائد کی گئی ہیں۔ میڈیا کو بہت حد تک اشتہارات سے کںٹرول کر لیا گیا کچھ خود رجیم چینج کا حصہ بن گئے اور وفاق صوبوں میں عہدے لے لیے جس سے صحافت کو ناقابل تلافی نقصان ہوا۔ جب صحافی خود اداروں یا سیاسی جماعتوں کے آلہ کار بن جائیں تو وہ صحافی نہیں رہتے۔

اس سب صورت حال میں جب صحافیوں نے محسوس کیا کہ ان کا گلا گھونٹا جا رہا ہے تو انہوں نے بڑی تعداد میں سوشل میڈیا کا استعمال شروع کر دیا۔ ان کے اکاؤنٹس عوام میں مقبول ہو گئے اور ان کے فالورز کی تعداد سوشل میڈیا پر دسیوں لاکھ میں ہے۔ اشرافیہ نے جب یہ دیکھا کہ یہ یوٹیوب اور ٹوئٹر پر صحافی بنا خوف خطر بولنا شروع ہو گئے ہیں تو ان کو ایف آئی اے کے ذریعے سے نوٹس بھیجنا شروع کر دیے گئے۔

صحافی عمران ریاض، شاہد اسلم ،خالد جمیل، اسد طور دیگر کو جیل جانا پڑا۔ اسی طرح صحافی سمیع ابراہیم، عمران ریاض، اسد طور، آکاش رام ، محمد عسکری، فیاض ظفر، امجد علی دیگر کو ان دو سالوں کے دوران اغوا اور تشدد کا سامنا کرنا پڑا۔

صحافی ارشد شریف پر 16 مقدمات قائم ہوئے، ان کو ملک چھوڑ کر جانا پڑا اور بعد میں ان کو کینیا میں قتل کر دیا گیا۔ ان کے اہل خانہ آج تک انصاف کے منتظر ہیں۔ اسی طرح صحافی عمران ریاض چار ماہ لاپتہ رہے، جب وہ واپس آئے تو ان کا وزن بہت کم ہو چکا تھا۔ ان کو بدترین تشدد کا نشانہ بنایا گیا ان کے اہل خانہ شدید اذیت کا شکار رہے۔

مزید پڑھ

اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)

کراچی میں صحافی شعیب برنی پر قاتلانہ حملہ ہوا اور صحافی شعیب جٹ کو گن پوائنٹ پر لوٹ کیا گیا۔ اسی طرح کراچی میں پولیس نے تین صحافیوں اور تین کیمرا مینز کو زدوکوب کیا اور ان کے کیمرے بھی توڑ ڈالے۔

اسی طرح سندھ میں کام کرنے والے دو صحافیوں غلام اصغر خند اور جان محمد مہر کو نامعلوم افراد کی طرف سے گولیوں کا نشانہ بنایا گیا اور وہ جانبر نہیں ہو سکے۔ بلوچستان میں صحافی مسعود لہری پر ایف آئی آر درج ہو گئی۔ یہ میں صرف 2022 کے بعد کے واقعات کا تذکرہ کر رہی ہوں ورنہ صحافیوں پر تشدد کی فہرست اتنی لمبی ہے کہ میری ورڈ لمٹ ختم ہو جائے۔

میں صحافی ہوں اور بطور بیوہ اپنے مرحوم شوہر ارشد شریف کے انصاف کی جہدوجہد کر رہی ہوں، مجھے پر عدت میں شادی کا جھوٹا الزام عائد کر دیا گیا۔ یہ اتنا خوفناک الزام تھا کہ میں کتنا عرصہ خوف اور تکلیف میں مبتلا رہی۔

ایف آئی اے میں شکایت کرنے کے باوجود کچھ نہیں ہوا۔ خواتین صحافیوں کو مرد صحافیوں کی طرح لفافہ نہیں کہا جاتا ان پر بدچلن ہونے کے الزامات عائد کیے جاتے ہیں۔  خواتین صحافیوں کو آن گراؤنڈ اور سوشل میڈیا پر ہراسانی سہنی پڑی۔

ان کی تنخواہیں بھی کم ہیں اور شادی کے بعد حاملہ ہونے کی صورت میں ان کو نوکری سے ہی نکال دیا جاتا ہے۔۔ ان کو ریپ تیزاب گردی کی دھمکیاں ملتی ہیں اس کے ساتھ ان کی نجی معلومات پبلک کر دی جاتی ہیں۔

حالیہ چند سالوں میں شفا یوسفزئی، مہر بخاری، عاصمہ شیرازی کو سوشل میڈیا پر ہراسانی کا سامنا کرنا پڑا۔ بہت سی خواتین صحافیوں نے یہ صورت حال دیکھ کر سوشل میڈیا کا استعمال کم کر دیا ہے اور اپنے کمنٹس سیکشن بند کر دیے ہیں۔ معید پیرزادہ، احمد نورانی، وجاہت سعید، صابر شاکر اور محمد وقاص کو ملک چھوڑ کر جانا پڑا اور فی الحال وہ ملک واپس نہیں لوٹ سکتے۔

ملک میں یوٹیوب تو چل رہا ہے لیکن ایکس اب بند ہے لوگ اس کو وی پی این کے ذریعے سے استعمال کر رہے ہیں۔ حکومت اور ادارے آزادی رائے سے ڈرتے ہیں اور ان صحافیوں کو مسلسل ہراساں کیا جا رہا ہے جو رجیم چینج کے بعد تنقید کر رہے تھے۔ اس میں مرد اور عورت کی تفریق نہیں کی جاتی سب کو انتقام کا نشانہ بنایا جاتا ہے۔

رواں سال ایف آئی اے نے پاکستانی صحافیوں سمیت سوشل میڈیا صارفین کو نوٹس جاری کیے جس میں ان پر عدلیہ کے خلاف مہم کا الزام عائد کیا گیا ان میں اسد علی طور عارف حمید بھٹی پارس جہانزیب، اقرار الحسن، صدیق جان، صابر شاکر، ثاقب بشیر اور دیگر 47 صحافی شامل تھے۔

اس پر سب حیران رہ گئے کہ کیا اب عدلیہ کے فیصلوں کو زیر بحث لانا کیا توہین منفی مہم کے ذریعے میں آئے۔ ملک کے حالات کچھ یوں ہے فورسز یا انکے چیف پر بات کرنا غداری بغاوت کے زمرے میں آتا ہے اور سیاسی جماعتوں پر تنقید کے بعد انکی سوشل میڈیا ٹیمز صحافیوں کے خلاف اعلان جنگ کر دیتی ہیں۔ یہ حملے اتنے غلیظ نوعیت کے ہوتے ہیں کہ کوئی بھی انسان انکا جواب دینے سے کترائے۔

اب عدلیہ پر بھی بات نہیں کی جا سکتی تو پاکستانی صحافیوں کو چاہیے وہ پڑوسی ممالک جیسے نیپال ہندوستان چین کی خبریں شائع کیا کریں کیونکہ پاکستان میں بات کرنے لکھنے بولنے کی آزادی تو سکڑ گئی۔

خبر دینے والے خود خبر کی نشر و اشاعت میں خبر بن رہے ہیں۔ اس لیے صحافیوں کو اگر اپنی جان پیاری ہے تو وہ یہ لکھیں کہ رجیم چینج کے بعد سے ملک میں دودھ شہد کی نہریں بہہ رہی ہیں اب جو حکمران آئے ہیں شرافت اور دیانت داری انکی میراث ہے۔ یا پھر کوئی عہدہ پکڑ لیں جیسے ایم ڈی مشیر وزیر وغیرہ ایسے صحافی فائدے میں رہتے ہیں۔ سال کے آخر میں انکو تمغے بھی مل جاتے ہیں۔

پر جو سچ کا راستہ اپنائے کھڑے ہیں ان کا راستہ تو بہت کٹھن ہے۔ ان کے لئے ایک آگ کا دریا ہے جس سے گزر کر انہوں نے خبر کی نشر و اشاعت کا حصہ بننا ہے۔ صحافیوں کا دھمکیاں دینے والے ان کو قتل کرنے والے اب تک آزاد پھر رہے ہیں حکومت سے تو کچھ خاص امید نہیں کہ وہ اس ضمن کچھ کریں گے وہ تو خود فارم 45 اور 47 کے درمیان جھول رہے ہیں۔ اب ارشد شریف کے انصاف کے لیے اینکر کچھ حد تک متحد ہوئے ہیں۔

صحافی حامد میر خود ہراسانی کا شکار ہوئے ان کو گولیاں مار کر چپ کرانے کی کوشش کی گئی لیکن وہ باہمت طریقے سے پاکستان کے عوام اور صحافیوں کا مقدمہ لڑ رہے ہیں۔ اگر ایک بھی صحافی کو انصاف مل گیا تو یہ آگے ہونے والے ہراسانی کے واقعات کا سدباب کر دے گا۔

نوٹ: یہ تحریر کالم نگار کی ذاتی آرا پر مبنی ہے جن سے انڈپینڈنٹ اردو کا متفق ہونا ضروری نہیں۔

whatsapp channel.jpeg
مزید پڑھیے

زیادہ پڑھی جانے والی بلاگ