سنی اتحاد کونسل کی مخصوص نشستوں سے متعلق کیس کی سماعت کے دوران چیف جسٹس قاضی فائز عیسی نے ریمارکس دیے کہ ’اگر پی ٹی آئی جماعتی انتخابات کروا لیتی تو آج (مخصوص) نشستوں کی تقسیم والا مسئلہ ہی نہ ہوتا۔ جب آپ ایک سیاسی جماعت بناتے ہیں تو وہ ون مین پارٹی نہیں ہوتی۔ جب آپ عوام کو اس میں شامل کرتے ہیں تو ان کا حق ہے کہ انٹراپارٹی انتخابات لڑیں۔ جب جمہوریت کی بات کرنی ہے تو پوری بات کریں اور جمہوریت کا آغاز سیاسی جماعت سے ہوتا ہے۔‘
چیف جسٹس نے مزید کہا کہ ’اس عدالت پر ہر چیز کا ملبہ نہ ڈالیں۔ پی ٹی آئی نے جمہوری حق سے اپنے لوگوں کو محروم رکھا تھا۔ اس سیاسی جماعت کے الیکشن میں ووٹرز کی خواہش کی عکاسی کہاں ہوئی؟ پارٹی الیکشن ہوتے تو اس کا فائدہ پی ٹی آئی ممبران کو ہی ہوتا اور وہ الیکشن لڑ لیتے۔‘
چیف جسٹس کی سربراہی میں منگل کو سپریم کورٹ آف پاکستان 13 رکنی لارجر بینچ نے سنی اتحاد کونسل کی مخصوص نشستوں سے متعلق اپیلوں کی سماعت کی اور بعدازاں مقدمے کی کارروائی 24 جون صبح ساڑھے نو بجے تک ملتوی کر دی۔
سماعت کے آغاز میں سنی اتحاد کونسل کے وکیل فیصل صدیقی نے دلائل دیتے ہوئے کہا کہ ’ایک امیدوار نے ریٹرننگ نوٹیفکیشن تین دن کے اندر کسی سیاسی جماعت کو جوائن کرنا ہوتا ہے۔ سنی اتحاد کونسل نے پارٹی پلیٹ فارم سے انتخابات نہیں لڑے، اس لیے انہوں نے مخصوص نشستوں کے لیے فہرستیں جمع نہیں کرائیں اور اس بارے میں کوئی تنازع نہیں۔‘
چیف جسٹس نے استفسار کیا ’آپ یہ کیوں کہہ رہے ہیں کہ اس بارے میں کوئی تنازع نہیں۔ آپ سیدھا سادا بیان کیوں نہیں دیتے؟ آپ صرف اتنا کہہ دیں کہ سنی اتحاد کونسل نے انتخابات میں حصہ نہیں لیا۔‘
اس پر فیصل صدیقی نے جواب دیا ’جی انہوں نے حصہ نہیں لیا۔ جب سنی اتحاد کونسل نے مخصوص نشستوں کے لیے درخواست دی تو مسلم لیگ، پیپلز پارٹی اور دیگر جماعتوں نے اضافی مخصوص نشستوں کے لیے درخواستیں دے دیں اور الیکشن کمیشن نے دیگر جماعتوں کی درخواست منظور کی جس کو پشاور ہائی کورٹ نے برقرار رکھا۔ کل مجھے کچھ بنیادی قانونی سوالات فریم کرنے کا کہا گیا تھا۔‘
چیف جسٹس نے کہا کہ ’پہلے کیس کے مکمل حقائق سامنے رکھ دیں۔‘
پی ٹی آئی نے بطور جماعت الیکشن کیوں نہیں لڑا؟
وکیل فیصل صدیقی نے کہا کہ ’کل جسٹس جمال مندوخیل کا سوال تھا کہ پی ٹی آئی نے بطور جماعت الیکشن کیوں نہیں لڑا؟ سلمان اکرم راجا نے اسی متعلق درخواست دی تھی جو منظور نہیں ہوئی۔ اس میں کوئی تضاد نہیں کہ سنی اتحاد کونسل نے الیکشن نہیں لڑا۔ اسی لیے سنی اتحاد کونسل نے مخصوص نشستوں کے لیے پہلے فہرست جمع نہیں کرائی۔ ’آرٹیکل 63 اے میں سیاسی جماعت اور پارلیمانی پارٹی کے درمیان فرق رکھا گیا ہے۔ جس سیاسی جماعت کی پارلیمنٹ میں کو نشست نہ ہو وہ پارلیمانی پارٹی نہیں ہوتی۔‘
عدالت نے استفسار کیا کہ ’آٹھ فروری کو آپ کیا تھے؟ آپ کا سربراہ کون ہے؟ پارلیمانی پارٹی کا سربراہ کیسے منتخب ہوتا ہے؟‘
فیصل صدیقی نے جواب دیا ’آٹھ فروری کو ہم ایک سیاسی جماعت تھے، جب آزاد امیدواروں نے جوائن کیا تو پارلیمانی پارٹی بن گئے۔‘
کیا سیاسی جماعت کے بغیر کوئی پارلیمانی پارٹی بن سکتی ہے؟
چیف جسٹس نے کہا کہ ’کل سنی اتحاد کونسل اور پی ٹی آئی ایک دوسرے کے خلاف بھی کھڑے ہو سکتے ہیں۔‘
فیصل صدیقی نے کہا کہ ’اس کا عدالت کے سامنے موجود معاملے سے تعلق نہیں۔‘
اس موقع پر جسٹس اطہر من اللہ نے سوال کیا کہ ’فیصل صاحب کیا سیاسی جماعت کے بغیر کوئی پارلیمانی پارٹی بن سکتی ہے؟ کیونکہ پارلیمانی پارٹی بننے کے لیے سیاسی جماعت کی شرط ہے۔‘
جسٹس جمال خان مندوخیل نے ریمارکس دیے ’اگر سیاسی جماعت کا سربراہ کہہ دے کہ آپ نے فلاں جماعت کو ووٹ دینا ہے تو پارلیمانی جماعت اس کی پابند نہیں۔‘
جسٹس منیب اختر نے ریمارکس دیے ’ہمارا فوکس سیاسی جماعت پر ہونا چاہیے، اسی لیے کل پوچھا تھا کہ سیاسی جماعت کیا ہے؟ جب تمام آزاد امیدواروں نے الیکشن کمیشن کو بتایا کہ وہ پی ٹی آئی کے امیدوار ہیں تو وہ آزاد کیسے ہوئے؟ کیا الیکشن کمیشن کی رول میکنگ پاور بنیادی قانون سے انحراف کر سکتی ہے؟‘
چیف جسٹس نے کہا کہ ’اگر اس طرح ہے تو پی ٹی آئی کے اراکین کس طرح سنی اتحاد کونسل میں شامل ہو سکتے ہیں؟ وہ تو پی ٹی آئی چھوڑ کر سنی اتحاد کونسل میں شامل ہو رہے ہیں۔ آزاد امیدواروں کے طور پر آپ نے الیکشن کمیشن سے بلے کا نشان کیوں نہیں مانگا؟ وہ دیں نہ دیں، یہ تو بعد کی بات ہے۔ کیا سپریم کورٹ کے فیصلے میں لکھا ہے کہ انفرادی طور پر بلے کا نشان نہیں دیا جا سکتا؟ ایسا نہیں تھا۔ جب کیس چل رہا تھا میں نے کہا تھا کہ اب بھی انٹرا پارٹی الیکشن کر لو کیوں۔ نہیں کر رہے ہو؟‘
آزاد امیدوار کوئی بھی انتخاب نشان لے سکتا ہے
جسٹس حسن اظہر رضوی نے فیصل صدیقی سے سوال کیا کہ آپ نے پی ٹی آئی کی جانب سے مخصوص نشستوں کی فہرست جمع کرائی تھی تو اس فہرست کو الیکشن کمیشن کے سامنے کنٹیسٹ کیوں نہیں کیا؟
جسٹس جمال مندوخیل نے ریمارکس دیے ’آزاد امیدوار کوئی بھی انتخاب نشان لے سکتا ہے، پارلیمان میں فیصلے پارلیمانی پارٹی کرتی ہے اس کے فیصلے ماننے کے سب پابند ہوتے ہیں، پارلیمانی پارٹی قانونی طور پر پارٹی سربراہ کی بات ماننے کی پابند نہیں ہوتی، آزاد امیدوار وہ ہوتا ہے جو کسی سیاسی جماعت سے وابستہ نہ ہو۔‘
اس موقع پر جسٹس منیب اختر نے ریمارکس دیے ’کاغذات نامزدگی میں کوئی خود کو پارٹی امیدوار ظاہر کرے اور ٹکٹ جمع کرائے تو جماعت کا امیدوار تصور ہو گا، آزاد امیدوار وہی ہو گا جو بیان حلفی دے گا کہ کسی سیاسی جماعت سے تعلق نہیں۔ سنی اتحاد کونسل میں شامل ہونے والوں نے خود کو کاغذات نامزدگی میں پی ٹی آئی امیدوار ظاہر کیا۔ کاغذات بطور پی ٹی آئی امیدوار منظور ہوئے اور لوگ منتخب ہو گئے۔ الیکشن کمیشن کے رولز کیسے پی ٹی آئی امیدواروں کو آزاد قرار دے سکتے ہیں؟ انتخابی نشان ایک ہو یا نہ ہو وہ الگ بحث ہے لیکن امیدوار پارٹی کے ہی تصور ہوں گے۔‘
انتخابی نشان سے محروم کرنا تنازع کی وجہ بنا
جسٹس منیب اختر نے کہا کہ ’سیاسی جماعت کو انتخابی نشان سے محروم کرنا اس سارے تنازعہ کی وجہ بنا۔ سپریم کورٹ نے انتخابی نشان واپس لینے کا فیصلہ برقرار رکھا تھا۔
’انتخابی نشان کی الاٹمنٹ سے پہلے سپریم کورٹ کا فیصلہ آیا تھا، قانونی غلطیوں کی پوری سیریز ہے جس کا آغاز یہاں سے ہوا تھا۔ ہر امیدوار اگر بیلٹ پیپر پر پی ٹی آئی امیدوار ہوتا تو یہ سپریم کورٹ فیصلے کی خلاف ورزی ہوتی۔‘
جسٹس منیب اختر نے مزید کہا کہ ’آرٹیکل 51 میں سیاسی جماعت کا ذکر ہے پارلیمانی پارٹی کا نہیں۔ آرٹیکل 51 اور مخصوص نشستیں حلف اٹھانے سے پہلے کا معاملہ ہے۔ ارکان حلف لیں گے تو پارلیمانی پارٹی وجود میں آئے گی۔ پارلیمانی پارٹی کا ذکر اس موقع پر کرنا غیر متعلقہ ہے۔ مناسب ہو گا کہ سیاسی جماعت اور کیس پر ہی فوکس کریں۔‘
چیف جسٹس نے کہا کہ ’اس حساب سے تو سنی اتحاد میں پی ٹی آئی کے کامیاب لوگ شامل ہوئے، پارٹی میں تو صرف آزاد امیدوار ہی شامل ہوسکتے ہیں۔‘ جسٹس عائشہ ملک نے سوال اٹھایا ’الیکشن کمیشن نے کس بنیاد پر امیدواروں کو آزاد قرار دیا تھا؟ الیکشن کمیشن نے امیدواروں کو خود آزاد تسلیم کرتے ہوئے الیکشن لڑنے کی اجازت دی۔ جو انتخابی نشان سیاسی جماعت کے لیے مختص ہو وہ کسی اور امیدوار کو نہیں مل سکتا۔‘
ہم نے تو نہیں کہا تھا انٹرا پارٹی الیکشن نہ کرائیں
وکیل فیصل صدیقی نے دلائل دیتے ہوئے کہا کہ ’سلمان اکرم راجا نے خود کو پی ٹی آئی امیدوار قرار دینے کے لیے رجوع کیا تھا۔ الیکشن کمیشن نے سلمان اکرم راجا کی درخواست مسترد کر دی تھی۔‘
اس پہ چیف جسٹس نے وکیل سے پوچھا ’کیا سپریم کورٹ فیصلے میں لکھا ہے کہ بلے کا نشان کسی اور کو الاٹ نہیں ہو سکتا؟‘
وکیل نے جواب دیا کہ ’عدالتی فیصلے میں ایسا کچھ نہیں لکھا۔‘
چیف جسٹس نے انہیں کہا ’آپ کا بہت شکریہ۔ آپ کہہ رہے ہیں کہ میں اس لیے آزاد امیدوار ہوں کہ مجھے بلے کا نشان نہیں ملا۔ ہم نے تو نہیں کہا تھا انٹراپارٹی الیکشن نہ کرائیں۔ انٹرا پارٹی الیکشن کروا لیتے سارے مسئلے حل ہو جاتے۔‘
جسٹس محمد علی مظہر نے ریمارکس دیے کہ ’سپریم کورٹ میں کیس انتخابی نشان کا نہیں انٹرا پارٹی انتخابات کا تھا۔ عدالت نے مخصوص نشستوں کے معاملے پر کہا تھا کوئی ایشو ہوا تو رجوع کر سکتے ہیں۔‘
جسٹس اطہر من اللہ نے ریمارکس دیے ’اصل اسٹیک ہولڈر ووٹرز ہیں جو ہمارے سامنے نہیں۔ پی ٹی آئی مسلسل شکایت کر رہی تھی لیول پلیئنگ فیلڈ نہیں مل رہی۔‘
چیف جسٹس نے اس موقع پر کہا کہ ’وہ شکایت ہمارے سامنے نہیں۔‘ جسٹس اطہر من اللہ دوبارہ بولے ’ہم بنیادی حقوق کے محافظ ہیں۔ ہمیں دیکھنا ہے ووٹرز کے حقوق کا تحفظ کیسے ہو سکتا تھا۔ ایک جماعت مسلسل شفاف موقع نہ ملنے کا کہہ رہی تھی اور یہ پہلی بار نہیں تھا۔ اگر سچ سب بولنا شروع کر دیں تو سچ بہت کڑوا ہے۔ میں تو ہمیشہ سچ بولنے ہی کی کوشش کرتا ہوں۔‘