سپریم کورٹ میں فیصل واوڈا اور مصطفی کمال کے خلاف توہین عدالت کیس کی سماعت کے دوران چیف جسٹس نے کہا کہ ’کچھ لوگ سمجھتے ہیں کہ عدلیہ پر گالی گلوچ کر کے دباؤ ڈال کر فیصلے لے لیں گے، کیا گالی گلوچ ان کا دینی فریضہ ہے؟ ہمیں توہین عدالت نوٹسز جاری کرنے کا شوق نہیں، ہمارا کام فیصلے کرنا ہے، ہمارا فرض ہے کہ جلد از جلد فیصلے کریں، اراکین پارلیمنٹ کا حق نہیں کہ وہ دوسرے آئینی ادارے پرتنقید کریں۔‘
سپریم کورٹ میں فیصل واوڈا اور مصطفی کمال کے خلاف توہین عدالت کیس کی سماعت بدھ کے روز چیف جسٹس قاضی فائز عیسی کی سربراہی میں تین رکنی بنچ نے کی۔
چیف جسٹس قاضی فائر عیسی نے ریمارکس دیتے ہوئے کہا کہ ’اگر لوگوں میں شبہہ پیدا کیا جائے گا کہ جج بے ایمان ہیں اور فیصلے درست نہیں کرتے تو اس کے لیے ایک راستہ ہے ہمارے خلاف ریفرنس دائر کریں۔ ارکان پارلیمنٹ ہوتے ہوئے عدلیہ پر حملہ کیا جائے گا تو یہ آئینی ادارے کا دوسرے ادارے پر حملہ ہوتا ہے۔‘
انہوں نے مزید کہا کہ ’قوم کا تقاضا ہے کہ پارلیمنٹ اور عدلیہ اپنے امور کی انجام دہی کرے، پارلیمنٹ نے آرٹیکل 270 میں ترمیم کی، ہم نے کوئی بات نہیں کی، ہمیں پارلیمنٹ کا احترام ہے، اگر پاکستان کی خدمت کے لیے تنقید کرنی ہے تو ضرور کریں۔‘
سپریم کورٹ نے گذشتہ سماعت پر فیصل واوڈا اور مصطفی کمال کو ذاتی حیثیت میں طلب کیا تھا۔
آج فیصل واوڈا اور مصطفی کمال ذاتی حیثیت میں عدالت میں پیش ہوئے۔ چیف جسٹس نے استفسار کیا کہ ’فیصل واوڈا کے وکیل کہاں ہیں؟‘ فیصل واوڈا کے وکیل معیز احمد بھی روسٹرم پر آ گئے۔
مصطفی کمال کے وکیل فروغ نسیم نے دلائل کا آغاز کرتے ہوئے کہا کہ ’ہم نے تحریری جواب جمع کرا دیا ہے جس میں غیر مشروط معافی مانگی ہے۔‘
چیف جسٹس قاضی فائز عیسی نے انہیں کہا کہ آپ اپنا غیر مشروط معافی والا جواب عدالت میں پڑھ کر سنا دیں۔
فروغ نسیم نے عدالت میں مصطفی کمال کا جواب پڑھتے ہوئے کہا کہ ’مصطفی کمال نے بالخصوص 16 مئی کی پریس کانفرنس پر معافی مانگی ہے، مصطفی کمال نے پریس کانفرنس زیر التوا اپیلوں سے متعلق کی تھی، مصطفی کمال نے پریس کانفرنس زیر التوا اپیلوں سے متعلق کی تھی، مصطفی کمال خود کو عدالت کے رحم وکرم پر چھوڑ رہے ہیں۔‘
چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے فروغ نسیم سے سوال کیا کہ کیا مصطفیٰ کمال نے فیصل واوڈا سے متاثر ہوکر دوسرے روز میڈیا سے گفتگو کی؟ کیا آپ لوگ فیصل واوڈا سے متاثر نہیں ہیں؟ اس پر وکیل نے جواب دیا کہ مصطفیٰ کمال کی پریس کانفرنس محض اتفاق تھا۔‘
چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے فروغ نسیم سے کہا کہ ’بطور کورٹ افسر بتائیں آپ کے موکل نے توہین کی یا نہیں؟ مصطفی کمال معافی بھی مانگ رہے ہیں اور یہ بھی کہ رہے ہیں کہ توہین عدالت نہیں کی۔ یہ کوئی انا کا مسئلہ نہیں لیکن آپ پارلیمان کے ممبر ہیں۔‘
وکیل فروغ نسیم نے جواب دیا کہ ’مصطفی کمال کا کہنا ہے کہ وہ عدالتوں کی عزت کرتے ہیں۔ مصطفیٰ کمال نے معافی اس لیے مانگی کیوں کہ عدالتوں کی بہت عزت کرتے ہیں۔‘
اس پر چیف جسٹس نے کہا کہ ’معافی کی گنجائش دین اسلام میں قتل پر بھی ہے مگر پہلے اعتراف جرم لازم ہے، آپ نے پریس کلب میں جا کر معافی نہیں مانگی۔‘
وکیل فروغ نسیم نے جواباً کہا ’اسلام تو اور بھی بہت کچھ کہتا ہے، اگر پریس کلب میں معافی مانگنا شرط ہے تو مصطفیٰ کمال ایسا کرنے پر بھی تیار ہیں۔‘
چیف جسٹس نے فیصل واوڈا کو مخاطب کرتے ہوئے کہا کہ ’فیصل واوڈا صاحب آپ تو سینیٹ یعنی اپر ہاؤس کے ممبر ہیں، سینیٹ ممبران کو تو زیادہ تہذیب یافتہ تصور کیا جاتا ہے، چلیں پہلے مصطفی کمال کا معاملہ دیکھ لیں پھر آپ کو بھی سنتے ہیں، آپ ڈرائنگ روم میں بات کرتے تو الگ بات تھی، اگر پارلیمنٹ میں بات کرتے تو کچھ تحفظ حاصل ہوتا، آپ پریس کلب میں بات کریں اور تمام ٹی وی چینل اس کو چلائیں تو معاملہ الگ ہے۔‘
چیف جسٹس نے کہا کہ ’اظہارِ رائے کی آزادی سے متعلق آرٹیکل 19اے، کچھ چیزوں کے ساتھ مشروط ہے۔‘
اٹارنی جنرل منصور عثمان اعوان نے آرٹیکل 19اے پڑھ کر سنایا جس پر چیف جسٹس نے کہا کہ ’اس میں ایک لفظ استعمال ہوا ہے تہذیب، کیا گالی گلوچ تہذیب کے دائرے میں بھی آتی ہے، امام مالک نے کہا تھا کہ اختلاف رائے ایسے کرو گویا اگلے کے سر پر چڑیاں بیٹھی ہیں اور وہ ہلنے بھی نہ پائیں، آئین میں لکھا ہے کہ اقتدار اعلیٰ اللہ کی طرف سے امانت ہے اور پارلیمنٹیرینز یہ مقدس امانت استعمال کرتے ہیں اور پارلیمنٹ جلد از جلد قانون سازی کرے۔‘
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
چیف جسٹس نے ریمارکس دیے کہ ’ٹی وی والے سب سے زیادہ گالم گلوج کو ترویج دیتے ہیں، ٹی وی چینل کہہ دیتے ہیں فلاں نے تقریر کی ہم نے چلا دی یہ اظہار رائے کی آزادی ہے، ٹی وی چینلز نے 34 منٹ تک یہ تقاریر نشر کیں، کیا اب ان ٹی وی چینلز کو بھی نوٹس کریں، پیمرا نے عجیب قانون بنا دیا ہے کہ کورٹ کی کارروائی رپورٹ نہیں ہو گی، یہ زیادتی ہے کارروائی کیوں رپورٹ نہیں ہو گی۔ عدالت نے معاملے پر پیمرا سے جواب جبکہ اور ٹی وی چینلز کو نوٹسز جاری کر دیے۔
جسٹس عرفان سعادت نے ریمارکس دیے ’آپ نے پریس کانفرنس پاکستان کے لوگوں کے بارے میں نہیں کی، آپ نے دو انتہائی قابل احترام ججز پر بات کی ہے۔
’آپ اس پریس کانفرنس سے کس کی خدمت کرنا چاہتے تھے، کیا آپ نے کوئی قانون بدلنے کے لیے پارلیمنٹ میں بل پیش کیا، ہم نے کبھی کہا فلاں سینیٹر نے اتنے دن اجلاس میں شرکت کیوں نہیں کی، کبھی ہم نے یہ کہا کہ فلاں کو پارلیمنٹ نے توسیع کیوں دے دی، آپ نے کس حیثیت میں پریس کانفرنس کی تھی، آپ بار کونسل کے جج ہیں کیا۔‘
چیف جسٹس نے صحافیوں کی طرف اشارہ کرتے ہوئے کہا کہ یہاں بھی لوگ بیٹھے ہیں بڑی بڑی ٹویٹس کر جاتے ہیں، جو کرنا ہے کریں بس جھوٹ تو نہ بولیں، صحافیوں کو ہم نے بچایا ہے ان کی پٹیشن ہم نے اٹھائی۔
مصطفی کمال کی فوری معافی کی استدعا مسترد کر دی جبکہ فیصل واوڈا کے وکیل سے استفسار کیا کہ فیصل واوڈا معافی مانگ رہے ہیں یا نہیں؟
وکیل فیصل واوڈا نے عدالت سے کہا کہ ’مشاورت کے بعد عدالت کو آگاہ کریں گے۔‘
عدالت نے فیصل واوڈا سے توہین عدالت کے شوکاز نوٹس پر دوبارہ ایک ہفتے میں جواب طلب کرتے ہوئے سماعت 28 جون تک ملتوی کر دی۔
فیصل واوڈا اور مصطفی کمال کے جوابات
توہین عدالت مقدمے میں مصطفی کمال نے غیر مشروط تحریری معافی مانگی جبکہ سینیٹر فیصل واوڈا نے جواب جمع کروا دیا جس میں انہوں نے عدالت غیر مشروط معافی نہیں مانگی بلکہ عدالت سے کہا ہے کہ ’توہین عدالت کی کارروائی آگے بڑھانے پر عدالت عظمی تحمل کا مظاہرہ کرے اور استدعا ہے کہ توہین عدالت کا نوٹس واپس لیا جائے۔ دونوں اراکین پارلیمنٹ نے پریس کانفرنس میں عدلیہ اور ججوں پر تنقید کی تھی جس کے بعد عدالت نے انہیں توہین عدالت کے نوٹسز جاری کیے تھے۔