سینیٹر فیصل واوڈا نے عدلیہ مخالف مبینہ بیانات پر توہین عدالت کی کارروائی سے متعلق شو کاز نوٹس کے جواب میں عدلیہ سے تحمل کی استدعا کی ہے جبکہ رکن قومی اسمبلی مصطفیٰ کمال نے غیر مشروط معافی مانگ لی۔
سینیٹر فیصل واوڈا نے سپریم کورٹ آف پاکستان میں ججز کے خلاف مبینہ بیان بازی پر توہین عدالت کے نوٹس کا جواب جمع کرواتے ہوئے عدالت سے استدعا کی ہے کہ ’توہین عدالت کی کارروائی کو آگے بڑھانے پر عدالت عظمیٰ تحمل کا مظاہرہ کرے اور توہین عدالت کا نوٹس واپس لیا جائے۔‘
منگل کو جمع کروائے گئے آٹھ صفحات کے جواب میں فیصل واوڈا نے کہا کہ ’توہین عدالت کا مبینہ ملزم (واوڈا) عدالت کی عزت کرتا ہے، کسی بھی طریقے سے عدالت کا وقار مجروح کرنے کا سوچ بھی نہیں سکتا۔‘
ان کا مزید کہنا تھا کہ ’پریس کانفرنس کا مقصد عدلیہ کی توہین کرنا نہیں تھا۔ پریس کانفرنس کا مقصد ملک کی بہتری تھا۔ ملزم سمجھتا ہے کہ عدالت کا امیج عوام کی نظروں میں بےداغ ہونا چاہیے۔
’پاکستان کے تمام مسائل کا حل ایک فعال اور متحرک عدالتی نظام میں ہے، حال ہی میں چیف جسٹس نے کہا کہ عدلیہ کو اپنی غطلیاں تسلیم کرنی چاہیے۔‘
فیصل واوڈا نے جواب میں لکھا کہ ’اپریل 2024 میں اسلام آباد ہائی کورٹ ججز کے خلاف توہین آمیز مہم چلی۔ آرٹیکل 19 اے کے تحت میں نے جسٹس بابر ستار کے گرین کارڑ سے متعلق معلومات کے لیے رجسٹرار اسلام آباد ہائی کورٹ کو خط لکھا۔
’دو ہفتے گزر جانے کے باوجود جواب موصول نہیں ہوا، سمجھتا ہوں کہ پاکستان کے مضبوط دفاع کے لیے فوج اور خفیہ اداروں کی مضبوطی ضروری ہے، عدلیہ کے ساتھ فوج اور خفیہ اداروں کی مضبوطی کا انحصار عوامی تائید پر ہے۔ دفاعی اداروں اور خفیہ ایجنسیوں کے خلاف مہم زور پکڑ رہی ہے۔‘
فیصل واوڈا نے روف حسن، شہباز شریف اور مولانا فضل الرحمن کی عدالت اور ججز بابت تقاریر کے حوالے بھی دیے جس میں روف حسن نے ججوں کے لیے ٹاؤٹ اور شہباز شریف نے کالی بھیڑوں جیسے الفاظ استعمال کیے اور ان کی تقریروں کے ٹرانسکرپٹ بھی جواب کے ساتھ جمع کرائے۔
مصطفی کمال نے پریس کانفرنس پر غیر مشروط معافی مانگ لی
جبکہ دوسری جانب ایم کیو ایم پاکستان کے رکن قومی اسمبلی مصطفی کمال نے بیرسٹر فروغ نسیم کے توسط سے عدلیہ مخالف بیان پر سپریم کورٹ کراچی رجسٹری میں بیان حلفی جمع کرایا جس میں مصطفی کمال نے کہا کہ ’ججز بالخصوص اعلیٰ عدلیہ کے ججز کا دِل سے احترام کرتا ہوں۔‘
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
ان کا کہنا تھا کہ ’عدلیہ اور ججز کے اختیارات اور ساکھ کو بدنام کرنے کا تصور بھی نہیں کرسکتا۔‘
بیان حلفی میں کہا گیا ہے کہ ’عدلیہ سے متعلق اپنے پر بیان بالخصوص 16 مئی کی پریس کانفرنس پر غیر مشروط معافی کا طلب گار ہوں۔ معزز عدالت سے معافی کی درخواست اور خود کو عدالت کے رحم و کرم پر چھوڑتا ہوں۔‘
توہین عدالت کیس کی سماعت پانچ جون کو ہو گی
گذشتہ ماہ 17 مئی کو چیف جسٹس پاکستان قاضی فائز عیسیٰ کی سربراہی میں تین رکنی بینچ فیصل واوڈا اور مصطفی کمال کی پریس کانفرنس پر ازخود نوٹس کی سماعت کرتے ہوئے چیف جسٹس نے پریس کانفرنس کی تفصیلات طلب کی تھیں۔
عدالت نے کہا تھا کہ ’دونوں ہی افراد پارلیمنٹ کے ارکان ہیں، ایوان میں بولتے، ایسی گفتگو کرنے کے لیے پریس کلب کا ہی انتخاب کیوں کیا؟‘
عدالت نے فیصل واوڈا اور مصطفیٰ کمال کو توہین عدالت کا شوکاز نوٹس جاری کرتے ہوئے ذاتی حیثیت میں طلب کیا تھا۔
عدالت نے کہا تھا کہ دو ہفتے میں وضاحت دیں کیوں نہ ان کے خلاف توہین عدالت کی کارورائی کی جائے جب کہ عدالت نے مزید سماعت پانچ جون تک ملتوی کر دی تھی۔