سائنس دانوں نے انڈیا کی شمال مشرقی ریاست اروناچل پردیش میں نیلی چیونٹیوں کی ایک نئی قسم دریافت کی ہے، جس سے ہمالیہ کے اس حصے کی منفرد حیاتیاتی تنوع میں مزید دلچسپی پیدا ہوگئی ہے۔
نایاب چھوٹی چیونٹی، جس کا نام پیراپیراٹریچینا نیلا ہے، کی لمبائی دو ملی میٹر سے بھی کم ہوتی ہے اور اس کا جسم بنیادی طور پر دھاتی نیلے رنگ کا ہوتا ہے، سوائے اس کے اینٹینا، جبڑے اور ٹانگوں کے۔
اس کا ایک سہ رخی سر ہے جس پر بڑی آنکھیں اور پانچ دانتوں والے سہ رخی جبڑے ہیں۔
جرنل ’زو کیز‘ (Zookeys) میں شائع ہونے والی ایک نئی تحقیق میں بتایا گیا ہے کہ چیونٹی کی اس قسم کو اس کے نیلے رنگ کی وجہ سے ’نیلا‘ کا نام دیا گیا ہے، اس رنگ کو انڈیا کی اکثر زبانوں میں بھی نیلا ہی کہا جاتا ہے۔
بنگلورو میں اشوکا ٹرسٹ فار ریسرچ ان ایکولوجی اینڈ انوائرنمنٹ (اے ٹی آر ای ای) کے محققین نے بتایا کہ ’ایک شام دور افتادہ ینکو گاؤں میں مویشیوں کے راستے میں تقریباً 10 فٹ اونچے درخت کے سوراخ کی تلاشی کے دوران مٹی میں کچھ چمکتا ہوا نظر آیا۔‘
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
اگرچہ نیلا رنگ عام طور پر کیڑوں جیسا کہ تتلیوں، بیٹلز کے ساتھ ساتھ کچھ مکھیوں اور بھڑوں میں دیکھا جاتا ہے، لیکن یہ چیونٹیوں میں نسبتاً نایاب ہوتا ہے۔
دنیا بھر میں چیونٹیوں کی تقریباً 17,000 معلوم اقسام اور ذیلی انواع موجود ہیں۔ محققین کا کہنا ہے کہ صرف چند ایک ہی نیلے رنگ کی ہوتی ہیں۔
کیڑوں میں، نیلا رنگ اکثر نینو سٹرکچرز سے بنتا ہے جو جانوروں یا پودوں کے بافتوں کو قدرتی طور پر رنگنے والے مواد کی بجائے ان کی نظری خصوصیات کا استعمال کرتے ہوئے رنگ پیدا کرتے ہیں۔
یہ ابھی تک واضح نہیں ہے کہ آیا اس چیونٹی کا نیلا رنگ کسی مقصد کے لیے ہے جیسا کہ رابطے، کیموفلاج یا دیگر ماحولیاتی تعاملات۔
انڈیا میں برطانوی نوآبادیاتی حکومت میں 12-1911 میں مقامی لوگوں کے خلاف ’ابور‘ فوجی مہم کے ایک صدی بعد وادی کے دوبارہ سروے کے دوران یہ چیونٹیاں دریافت ہوئیں۔
نوآبادیاتی مہم نے وادی سیانگ کے بڑے حصوں کی نقشہ کشی کی اور ملنے والے پودوں، مینڈکوں، چھپکلیوں، مچھلیوں، پرندوں، ستنداریوں اور کیڑوں کی فہرست بنائی تھی۔
اب اے ٹی آر ای ای کے محققین نے ایک صدی بعد Siang Expedition کے بینر تلے مہمات کا آغاز کیا ہے تاکہ اس علاقے کی حیاتیاتی تنوع کا دوبارہ جائزہ لیا اور ریکارڈ تیار کیا جا سکے۔
سائنس دانوں نے کہا کہ ’دستیاب مدھم روشنی کا استعمال کرتے ہوئے، ہم نے دو کیڑوں کو ویکیوم کی مدد سے کھینچا۔ ہمارے لیے حیرت کی بات یہ ہے کہ ہمیں بعد میں پتہ چلا کہ وہ چیونٹیاں تھیں۔‘
مطالعات سے پتہ چلتا ہے کہ اروناچل پردیش کے اس حصے میں دنیا کا بے مثال تنوع ہے، جس میں سے اکثر کو تلاش کیا جانا ابھی باقی ہے۔
تاہم مطالعے کے مصنف پریادرسنن دھرما راجن نے خبردار کیا کہ ’ثقافتی اور ماحولیاتی دونوں طرح کی اس بے بہا دولت کو خطرات کا سامنا ہے۔ بڑے پیمانے پر بنیادی ڈھانچے کے منصوبے جیساکہ ڈیم، ہائی ویز اور آب و ہوا کی تبدیلی سمیت فوجی تنصیبات، تیزی سے وادی کو تبدیل کر رہے ہیں۔‘
ڈاکٹر راجن نے مزید کہا کہ ’اثر وادی سے باہر تک پھیلا ہوا ہے، کیونکہ یہ پہاڑ نہ صرف اپنے متنوع ماحولیاتی نظام کو برقرار رکھنے میں بلکہ نیچے کی طرف رہنے والے لاکھوں لوگوں کی فلاح و بہبود کو یقینی بنانے میں بھی اہم کردار ادا کرتے ہیں۔‘
© The Independent