ٹریل فائیو پر طحہ کی موت پر پیش رفت نہیں ہو رہی: والدہ کا شکوہ

پولیس حکام کے مطابق طحہ کی سیرولوجیکل رپورٹ آنا ابھی باقی ہے اس رپورٹ سے زہر کھلائے جانے کے حوالے سے دیکھا جائے گا۔ اس مقصد کے لیے نمونے پہلے سے لاہور بھجوائے جا چکے ہیں۔

پندرہ سالہ محمد طحہ ٹریکنگ کے لیے دوستوں ساتھ ٹریل فائیو پر گیا لیکن 40 گھنٹے گزرنے کے بعد بھی واپس گھر نہ پہنچ سکا۔ بعد میں پولیس کو اس کی لاشں ملی (انڈپینڈنٹ اردو/طحہ خاندان)

وفاقی دارالحکومت اسلام آباد کی مارگلہ پہاڑیوں میں ٹریل فائیو پر گذشتہ دنوں پندرہ سالہ لڑکے طحہ کی موت کا معاملہ دو ہفتے گزرنے کے بعد بھی واضح نہ ہو سکا اور ان کی والدہ نے شکوہ کیا ہے کہ اب پولیس کی کارروائی سست روی کا شکار ہے۔

محمد طحہ کی ابتدائی پوسٹ مارٹم رپورٹ پولیس کو موصول ہو گئی جس کے مطابق ان کے جسم پر کسی قسم کے نشانات نہیں پائے گئے۔ پولیس کو البتہ ابھی فرانزک رپورٹ کا انتظار ہے جس سے توقع ہے کہ موت کی گتھی سلجھ سکے گی۔ 

انڈپینڈنٹ اردو کو دستیاب پوسٹ مارٹم رپورٹ کی نقول کے مطابق طحہ کی تمام ہڈیاں بھی صحیح سلامت پائی گئی ہیں اور نہ ہی جسم پر کسی قسم کے تشدد کے نشانات ملے ہیں۔ رپورٹ کے مطابق گرم موسم کے باعث لاش کے گلنے کا عمل شروع ہو چکا تھا اس لیے بظاہر جانچ مشکل تھی لیکن ایکسرے اور دیگر چیک اپ کے بعد اس رپورٹ کو مرتب کیا گیا ہے۔ 

پولیس حکام کے مطابق طحہ کی سیرولوجیکل رپورٹ آنا ابھی باقی ہے اس رپورٹ سے زہر کھلائے جانے کے حوالے سے دیکھا جائے گا۔ اس مقصد کے لیے نمونے پہلے سے لاہور بھجوائے جا چکے ہیں۔

میسر معلومات کے مطابق پولیس نے طحہ کے دیگر پانچ دوستوں کو بھی شامل تفتیش کیا جن کے بیانات بھی قلم بند کیے جاچکے ہیں۔ تفتیش کے دوران ان لڑکوں کے ناخنوں کے نمونے بھی ڈی این اے ٹیسٹ کے لیے لاہور بھجوائے گئے ہیں تاکہ فرانزک رپورٹ میں اگر طحہ کے جسم پر کسی اور کے ڈی این اے نمونے ملیں تو ان کی جانچ کی جا سکے۔ 

فرانزک رپورٹ کی معلومات کے لیے ایس ایس پی انویسٹیگیشن سے رابطہ کرنے کی کوشش کی گئی لیکن رابطہ نہ ہو سکا۔ 

پولیس کی عدم دلچسپی کا الزام

محمد طحہ کی والدہ نے انڈپینڈنٹ اردو سے گفتگو میں بتایا کہ ’پولیس نے صرف ابتدائی دو تین دن مستعدی سے کیس کو دیکھا ہے لیکن اب عدم دلچسپی کا اظہار کر رہی ہے۔ انہیں شک ہے کہ ’طحہ کے دوستوں کے والدین اونچے وسائل اور عہدے رکھتے ہیں جن سے بظاہر لگتا ہے ان کا پولیس پر دباؤ ہے۔ ہم روزانہ تھانے جاتے ہیں لیکن شنوائی نہیں ہو رہی اور نہ ہی کیس میں پیش رفت ہو رہی ہے۔‘ 

مزید پڑھ

اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)

انہوں نے مزید کہا کہ ’رینجرز نے پولیس کو ہمارے سامنے بتایا تھا کہ ’بچوں نے طحہ کے حوالے سے نہیں بتایا ورنہ ہم اسے بھی لے آتے‘ لیکن پولیس نے رینجرز کا بیان باضابطہ طور پر ریکارڈ نہیں کیا۔ میرا بیٹا تو چلا گیا واپس نہیں آ سکتا لیکن میں اسے انصاف دلانا چاہتی ہوں، جاننا چاہتی ہوں کہ اس کے ساتھ وہاں کیا ہوا۔‘

ہوا کیا؟

26 مئی کی صبح اسلام آباد کے مارگلہ پہاڑوں میں واقع ٹریل فائیو جسے پگڈنڈی پانچ بھی کہا جاتا ہے، پر اکثر لوگ ہائیکنگ کرنے جاتے ہیں۔ وہاں  پندرہ سالہ محمد طحہ ہفتے کی صبح دوستوں کے ساتھ گیا لیکن 40 گھنٹے گزرنے کے بعد بھی واپس گھر نہ پہنچ سکا۔ 

27 مئی کو درج کرائی گئی ایف آئی آر کے مطابق ’ہفتے کی صبح سات بجے طحہ اپنے پانچ دوستوں کے ساتھ ہائیکنگ کرنے گیا۔ شام پانچ بجے ایک دوست ہادی کی طحہ کی والدہ کو کال آتی ہے کہ آنٹی ہم لوگ گھر پہنچ گئے ہیں طحہ بھی گھر پہنچا ہے کہ نہیں؟ تو والدہ نے جواب دیا کہ ’طحہ تو گھر نہیں پہنچا۔‘ اس کے بعد طحہ کی والدہ جو خود ایک سرکاری سکول ٹیچر ہیں اسے تلاش کرنے ٹریل فائیو پر گئیں اور ریسکیو ون فائیو کو بھی کال کر دی۔ رات گئے کوشش کی گئی لیکن بچے کا کچھ پتہ چل نہ سکا۔‘

ایف آئی آر میں کہا گیا کہ ’بیٹے کو کسی نے اغوا کر لیا ہے لہذا حسب ضابطہ کارروائی عمل میں لائی جائے۔‘

طحہ کی والدہ نے انڈپنڈنٹ اردو سے بات کرتے ہوئے کہا کہ طحہ کے ساتھ جو باقی دوست تھے وہ رینجرز کی چوکی سے نیچے آ رہے تھے جس کا نام پوائنٹ چھ ہے۔ نیچے آتے ہوئے ایک بچے کا پاؤں پھسلا اور وہ زخمی ہو گیا جس کے بعد باقی دوستوں نے نیچے جانے کا ارادہ ترک کرتے ہوئے مدد کے لیے رینجرز کی چوکی طرف جانے کا فیصلہ کیا۔ طحہ جو ان سے آگے تھا اور نیچے اتر چکا تھا اس نے کہا کہ ’آپ لوگ جاؤ میں نیچے چلا جاتا ہوں۔‘

والدہ نے بتایا کہ موبائل رات بھر آن تھا اور آخری لوکیشن بھی پوائنٹ چھ کے آس پاس سے آ رہی ہے لیکن پھر موبائل بھی بند ہوگیا۔‘

28 مئی کی صبح  محمد طحہ کی لاش ملنے کی اطلاع  فارسٹ اور انوائرمنٹ کےلوگوں نے پولیس اور ورثا کو دی۔ لاش 40 میٹر گہری کھائی سے ملی تھی۔

اس کے بعد سے قوی امکان تو یہ ظاہر کیا جا رہا ہے کہ طحہ خود ہی اترنے کے دوران گرا اور جان کھو بیٹھا لیکن بظاہر پولیس اور والدہ دونوں کسی امکان کو خارج از امکان ابھی قرار دینے کو تیار نہیں۔

whatsapp channel.jpeg

زیادہ پڑھی جانے والی تحقیق