پنجاب کے 53 کھرب روپے کی بجٹ تجاویز کے اہم نکات

بجٹ دستاویزات کے مطابق آئندہ مالی سال کے لیے بجٹ کا حجم رواں مالی سال کے 44 کھرب 80 ارب 70 کروڑ روپے کے مقابلے میں 20.3 فیصد اضافے کے ساتھ 53 کھرب 92 ارب روپے رکھے جانے کا امکان ہے۔

23 فروری، 2024 کو پنجاب اسمبلی کا اجلاس ہو رہا ہے (ارشد چوہدری)

پنجاب کے وزیر خزانہ مجتبیٰ شجاع الرحمان 53 کھرب روپے سے زیادہ کا آئندہ مالی سال (2024۔25) کے لیے صوبائی بجٹ  13 جون کو پیش کریں گے۔

پنجاب کے محکمہ خزانہ کے تیار کردہ آئندہ مالی سال کے تخمینہ جات کی دستاویزات کے مطابق 2024۔25 کے دوران سرکاری ملازمین کی تنخواہوں میں 10 سے 15 فیصد اضافہ متوقع ہے، جب کہ ٹیکس وصولیوں کا ہدف 12.9 ٹریلین روپے مقرر کیا جانے کا امکان ہے۔

بجٹ دستاویزات کے مطابق آئندہ مالی سال کے لیے بجٹ کا حجم رواں مالی سال کے 44 کھرب 80 ارب 70 کروڑ روپے کے مقابلے میں 20.3 فیصد اضافے کے ساتھ 53 کھرب 92 ارب روپے رکھے جانے کا امکان ہے۔ پنجاب کو آئندہ مالی سال کے لیے این ایف سی کی مد میں پنجاب کو 3700 ارب روپے ملنے کا امکان ہے، جب کہ صوبے کی اپنی آمدن کا  تخمینہ 1027 ارب روپے لگایا گیا ہے۔

تنخواہوں کی مد میں 597 ارب روپے، پنشن کی مد میں 447 ارب روپے اور سروس ڈیلیوری پر اخراجات کا تخمینہ 848 ارب روپے لگائے گئے ہیں۔

ترقیاتی بجٹ کی مد میں 800 ارب روپے، رمضان پیکج کے لیے 30 ارب، سی بی ڈی کو آٹھ ارب، تعلیم کے لیے 600 ارب، صحت کے لیے 406 ارب روپے مختص کرنے کی تجاویز پیش کی جائیں گی۔

بجٹ تجاویز کے مطابق وزیر اعلی مریم نواز ’روشن گھرانہ‘ کے لیے 9.8 ارب روپے اور ’اپنی چھت اپنا گھر منصوبے‘ کے تحت سات ارب روپے مختص کیے جانے کی تیاری کر رہی ہیں۔ گرین پاکستان اینیشی ایٹیو کے لیے 40 ارب روپے، صحافیوں کی فلاح و بہبود کے لیے انڈومنٹ فنڈ کے میں ایک ارب روپے رکھے جانے کا تخمینہ ہے۔

صوبے کی اپنی آمدن کے لیے محصولات میں پنجاب ریونیو اتھارٹی کے لیے ٹیکس وصولی کا ہدف 300 ارب، بورڈ آف ریونیو کے لیے 105 ارب اور ایکسائز اینڈ ٹیکسیشن کو 55 ارب روپے کا ہدف دیے جانے کا امکان ہے۔

بیرونی قرضوں کی ادائیگی کے لیے 121 ارب روپے رکھے جا رہے ہیں، جب کہ غیر صوبائی محاصل میں پنجاب کا ہدف 558 ارب روپے رکھنے کی تجویز ہے۔

ماہر معیشت ڈاکٹر محمد افضل کے بقول: ’جب تک حکومت سرکاری اخراجات کم کر کے چھوٹے کاروبار کو فروغ اور مہنگائی پر قابو نہیں پائے گی بجٹ خسارے پر کنٹرول ممکن نہیں۔‘

 

مزید پڑھ

اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)

بجٹ کی تیاری پر احتجاج کیوں؟

ترجمان آل گورنمنٹ ایمپلائز گرینڈ الائنس پاکستان رانا لیاقت نے انڈپینڈنٹ اردو سے بات کرتے ہوئے کہا ہے کہ ’مہنگائی کا سورج سوا نیزے پر ہے لیکن حکومت مہنگائی میں کمی کے جھوٹے دعوے کر رہی ہے۔ پٹرولیم مصنوعات کی قیمتوں میں کمی سے مہنگائی کا طوفان تھما نہیں بلکہ بجلی کی قیمتوں میں اضافے نے تنخواہ دار طبقے کی زندگیاں اجیرن کر دیں ہیں۔

’حکومت مہنگائی کو کنٹرول کرنے میں ناکام دکھائی دیتی ہے۔ پرائس کنٹرول کمیٹیوں کا وجود کہیں نظر نہیں آتا۔ گراں فروشی عروج پر ہے اشیا خورد و نوش کے من مانے ریٹ مقرر ہیں، جس کی وجہ سے ملازمین اور پنشنرز کا جینا دو بھر ہو چکا ہے۔‘

انہوں نے کہا ماضی کی طرح آئندہ کے وفاقی و صوبائی بجٹ میں وسائل میں کمی کا رونا رو کر ملازمین کو طفل تسلیاں دی جا رہی ہیں۔

بجٹ خسارے پر کیسے قابو پایا جاسکتا ہے؟

لاہور کالج فار فار وومن یونیورسٹی کے شعبہ اکنامکس کے سربراہ اور ماہر معیشت ڈاکٹر محمد افضل نے انڈپینڈنٹ اردو سے بات کرتے ہوئے کہا کہ ’پہلے کی طرح اس سال بھی حکومت خسارے کا بجٹ پیش کرے گی۔ ویسے تو کئی ممالک میں بجٹ خسارہ ہوتا ہے مگر اس بار بجٹ خسارہ پہلے سے کافی زیادہ ہے۔ اس وجہ سے حکومت سرکاری ملازمین یا شہریوں کو معقول ریلیف نہیں دے سکتی۔‘

انہوں نے کہا کہ ’ہماری حکومت کو بجٹ بھی قرض کی امید پر بنانا پڑتا ہے جس سے صرف اخراجات ہی پورے ہوسکتے ہیں۔ جب تک حکومت سرکاری اخراجات پر قابو نہیں پائے گی اور چھوٹے کاروباروں کو فروغ نہیں دے گی مسائل حل نہیں ہوسکتے۔‘

whatsapp channel.jpeg

زیادہ پڑھی جانے والی معیشت