خیبرپختونخوا کے علاقے لنڈی کوتل میں پشتو زبان کے شاعر اور بابائے غزل کے نام سے جانے جانے والے امیر حمزہ خان شنواری کا مقبرہ تعمیر نو کے بعد بحال کر دیا گیا ہے۔
امیر حمزہ خان کے پوتے سجاد علی شنواری نے انڈپینڈنٹ اردو کو بتایا کہ وہ اس بحالی پر ایف سی کے انسپکٹر جنرل (آئی جی) نور ولی خان کی ذاتی دلچسپی پر بہت مشکور ہیں۔ ’یہ مزار 2005 میں بنا تھا جبکہ اس کے بعد اس مزار پر کسی ادارے یا فرد نے کوئی کام نہیں کیا تھا۔‘
ان کے مطابق: ’یہ محض ایک مزار تھا جبکہ اب آئی جی ایف سی نور ولی خان کی ذاتی دلچسپی سے یہ قلیل مدت میں لائبریری کے قیام سے ایک کمپلکس کی صورت اختیار کر گیا ہے جہاں پر طالب علموں کے لیے مطالعے کا موقع دستیاب ہو گا۔‘
سجاد علی شنواری کہتے ہیں کہ ’پورے ضلع خیبر میں کہیں لائبریری نہیں ہے، یہاں لائبریری سے نوجوانوں اور بابا کے عقیدت مندوں کو فائدہ ہو گا کہ وہ ان کی تعلیمات، شاعری اور نثر سے استفادہ حاصل کر سکیں گے۔‘
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
انہوں نے مزید کہا: ’حمزہ بابا کی ذاتی استعمال کی چیزیں، جن میں ان کے ہاتھ کی لکھی ڈائریاں جو وہ روزانہ کی بنیاد پر لکھا کرتے تھے، وہ سب یہاں محفوظ ہیں، جنہیں لائبریری میں آنے والے افراد کے لیے رکھا جائے گا۔‘
امیر حمزہ خان شنواری پر پی ایچ ڈی کرنے والے گورنمنٹ پوسٹ گریجویٹ کالج لنڈی کوتل کے پروفیسر ڈاکٹر تواب شاہ مصرور نے انڈپینڈنٹ اردو کو بتایا کہ ’مزار پر تعمیراتی کام اور لائبریری کو فعال بنانے سے اس نے ایک کمپلکس کی شکل اختیار کر لی ہے۔‘
ڈاکٹر تواب شاہ مصرور نے کہا کہ ’پہلے مزار کا طرز تعمیر صوفیا اور شاعروں کے مزاروں جیسے نہیں تھا، تاہم اب انہیں ثقافتی ورثے کے طور پر تعمیر کیا گیا ہے جو خوش آئند ہے۔‘
اسی حوالے سے گورنمنٹ پوسٹ گریجویٹ کالج لنڈی کوتل کے سابق پرنسپل اور شاعر پروفیسر اسلم تاثیر آفریدی کہتے ہیں کہ ’مزار کی تعمیر وقت کی اہم ضرورت تھی۔ مزار کو پہلے معیار کے مطابق نہیں بنایا گیا تھا۔‘
امیر حمزہ خان شنواری کون تھے؟
امیر حمزہ خان، جنہیں پشتو میں بابائے غزل کے طور پر یاد کیا جاتا ہے، 1907 میں پیدا ہوئے۔ ان کی شاعری نے تحریک آزادی میں ایک اہم کردار ادا کیا جس نے پشتون عوام میں قوم پرستی اور ثقافتی فخر کو ہوا دی۔
پاکستان کی آزادی کے بعد امیر حمزہ خان شنواری نے اپنی زندگی پشتو زبان اور ثقافت کے تحفظ اور فروغ کے لیے وقف کر دی۔ انہوں نے ریڈیو پاکستان میں اپنے کام کے ذریعے پشتو زبان کو ترویج دی۔
1994 میں ان کی وفات کے بعد انہیں لنڈی کوتل میں سپرد خاک کر دیا گیا، جہاں ان کی خدمات کو خراج عقیدت پیش کرنے کے لیے ان کی قبر پر ایک مقبرہ تعمیر کیا گیا۔
آئی جی ایف سی، کے پی نارتھ نور ولی خان نے اس مقبرے کی اپنی ذاتی دلچسپی پر کم مدت میں از سر نو تعمیر کروایا اور 14 مئی کو مزار کی افتتاحی تقریب میں شرکت کی۔
اس موقعے پر انہوں نے اسے مزید بہتر بنانے کا اعلان بھی کیا۔