ہر شعبے کو ٹیکس نیٹ میں لائیں گے: وزیر خزانہ

وزیر خزانہ محمد اورنگزیب نے حکومتی اخراجات میں کمی اور ٹیکس کی شرح میں اضافے کے حکومتی عزم کا اعادہ کرتے ہوئے کہا ہے کہ ’ہسپتال اور سکول تو خیرات سے چل سکتے ہیں لیکن پورے ملک کا نظام ٹیکس سے ہی چلتا ہے۔‘

13 جون 2024 کو وفاقی وزیر خزانہ محمد اورنگزیب اسلام آباد میں پوسٹ بجٹ پریس کانفرنس کرتے ہوئے (اے ایف پی)

وفاقی وزیر خزانہ محمد اورنگزیب نے منگل کو ملکی معیشت کو مستحکم کرنے کی جامع کوششوں کے حصے کے طور پر حکومتی اخراجات میں کمی کے ساتھ ساتھ  ٹیکس کی شرح میں اضافے کے حکومتی عزم کا اعادہ کیا ہے۔

12 جون کو پیش کیے گئے مالی سال 25-2024 کے وفاقی بجٹ میں تنخواہ دار طبقے پر بھاری ٹیکسوں کے علاوہ دیگر شعبوں پر بھی عائد ٹیکسوں میں اضافے کی تجاویز پیش کی گئیں، جسے ناقدین نے ’ٹیکس بجٹ‘ قرار دیا ہے۔

منگل کو کمالیہ میں میڈیا سے گفتگو میں وزیر خزانہ نے کہا کہ ’ہسپتال اور سکول تو خیرات سے چل سکتے ہیں لیکن پورے ملک کا نظام ٹیکس سے ہی چلتا ہے۔‘

بقول محمد اورنگزیب: ’اس کے لیے ان شعبوں کو جو پہلے براہ راست ٹیکس نیٹ میں نہیں تھے، انہیں اس مد میں لایا جائے گا۔ ملک میں 3.9 ٹریلین کے ٹیکس چھوٹ ہیں، جنہیں بتدریج کم کرنا ہے۔‘

انہوں نے بتایا کہ ریٹیلر پر جولائی سے ٹیکس عائد کیا جا رہا ہے اور اس سلسلے میں 32 ہزار ریٹیلرز رجسٹرڈ ہو چکے ہیں۔

محمد اورنگزیب نے کہا کہ ’ملکی جی ڈی پی میں ٹیکس کی شرح ساڑھے نو فیصد ہے، جو پائیدار نہیں ہے اس لیے اسے اگلے تین سالوں میں 13 فیصد تک لانا ہے۔‘

انہوں نے کہا کہ کوئی ایسا شعبہ یا سکیٹر نہیں ہو سکتا جیسے ہم ٹیکس نیٹ میں نہ لے کر آئیں۔ ’میں آپ کو یقین دلاتا ہوں کہ ہم باقی سیکٹرز کو ٹیکس نیٹ میں لا رہے ہیں۔ ٹیکس چھوٹ میں زراعت اور طب جیسے شعبے ہیں، جن کو براہ راست ٹیکس نیٹ میں لانا ہے۔‘

وزیر خزانہ نے کہا کہ ٹیکس قوانین موجود ہیں لیکن اتھارٹی درست طریقے سے ٹیکس اکھٹا نہیں کر رہی۔ نظام میں خامیوں کو روکنا ہے اور پہلے سے موجود قوانین پر عمل درآمد کروانا ہے تاکہ جو ریونیو نہیں آ رہا تھا، اسے سسٹم میں لایا جائے۔

مزید پڑھ

اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)

انہوں نے فیڈرل بورڈ آف ریوینیو (ایف بی آر) کی ڈیجییٹلائزیشن کا ذکر کرتے ہوئے کہا کہ ’ایف بی آر میں اینڈ ٹو اینڈ ڈیجیٹلائزیشن لا رہے ہیں، جس کا مقصد یہ ہے کہ آٹومیشن سے انسانی مداخلت کم سے کم ہو۔ وزیر اعظم خود اس بات کی نگرانی کر رہے ہیں کہ ہم آٹومیشن کی طرف کیسے جا رہے ہیں کیوں کہ ایسا کرنا انتہائی اہم ہے۔‘

حکومتی اخراجات میں کمی کے حوالے سے وزیر خزانہ نے کہا کہ ’حکومت کو ان وزارتوں کو ختم کرنا چاہیے جو پہلے ہی تحلیل کرکے صوبوں کو دے دی گئی ہیں، مختلف حکومتی شعبوں کو بھی ضم کر دینا چاہیے تاکہ وہ خرچہ کم ہو۔ اس حوالے سے وزیر اعظم اعلان کر چکے ہیں کہ پاکستان پبلک ورکس ڈیپارٹمنٹ (پی ڈبلیو ڈی) جیسے ادارے ختم کیے جا رہے ہیں۔ کرپشن کو ختم کرنا بھی اس حوالے سے اہم ہے۔‘

انہوں نے دعویٰ کیا کہ ’ڈیڑھ ماہ میں حکومتی اخراجات میں کمی کے بارے میں سب جان جائیں گے۔‘

ساتھ ہی وزیر خزانہ نے معیشت میں بہتری کے لیے خسارے میں چلنے والے تمام سرکاری شعبوں کی نجکاری کرنے پر بھی زور دیا۔

انہوں نے کہا کہ ’اخراجات میں خسارے میں چلنے والے سرکاری ادارے ہیں، جن کو پرائیویٹ کیا جانا چاہیے۔ اکیلی قومی ایئر لائن پی آئی اے کی جانب سے حکومت کو 622 ارب روپے کا نقصان اپنے ذمے لینا پڑا ہے۔ اسی طرح توانائی کا شعبہ ہے جس کے نقصان کو پورا کرنے کے لیے حکومتی اخراجات کا بڑا حصہ خرچ کرنا پڑتا ہے۔‘

وزیر خزانہ نے کہا کہ ملکی معیشت بہتری کی جانب گامزن ہے جس میں آئی ٹی اور زراعت جیسے سیکٹر اہم کردار ادا کر رہے ہیں۔ ’آئی ٹی کی برآمدات ساڑھے تین ارب ڈالر ہے جس کو 25 ارب ڈالر تک لے جانے کا ہدف ہے جس کو پورا کریں گے۔‘

ساتھ ہی انہوں نے کہا کہ کھاد اور بیجوں پر ٹیکس چھوٹ دینے پر غور کر رہے ہیں تاکہ زراعت کے شعبے کو ترقی دی جا سکے۔

بقول محمد اورنگزیب: ’کسانوں کو بلا سود قرضوں کی فراہمی اور چینی ٹیکنالوجی سے بیجوں کی تیاری سے زراعت میں انقلاب لایا جا سکتا ہے۔‘

whatsapp channel.jpeg

زیادہ پڑھی جانے والی معیشت