امریکی محکمہ خارجہ کا کہنا ہے کہ امریکہ پاکستان اور انڈیا کے درمیان براہ راست بات چیت کا حامی ہے۔
امریکی محکمہ خارجہ کے ترجمان میتھیو ملر نے یہ بات جمعرات کو نیوز بریفنگ کے دوران ایک سوال کے جواب میں کہی۔
محکمہ خارجہ کے ترجمان سے پاکستان کے وزیراعظم شہباز شریف کی طرف سے بھارتی ہم منصب نریندر مودی کو تیسری بار وزارت عظمٰی کا منصب سنبھالنے کے بعد مبارکباد کے پیغام اوردونوں ملکوں کے درمیان تعلقات کو معمول پر لانے سے متعلق جب سوال پوچھا گیا تو میتھیو ملر نے کہا کہ ’امریکہ انڈیا اور پاکستان دونوں کے ساتھ اپنے اہم تعلقات کو اہمیت دیا ہے۔ ہم انڈیا اور پاکستان کے درمیان براہ راست بات چیت کی حمایت کرتے ہیں، لیکن (بات چیت) کے دائرہ کار اور کردار کا تعین ان دونوں ممالک کو کرنا ہے، ہمیں نہیں۔‘
رواں ماہ 10 جون کو پاکستان کے سابق وزیر اعظم اور مسلم لیگ ن کے صدر نواز شریف نے نریندر مودی کو تیسری مرتبہ وزیراعظم بننے پر مبارک باد دیتے ہوئے کہا تھا کہ ’ہمیں نفرت کو امید‘ سے بدلنے کی ضرورت ہے۔
نواز شریف نے سوشل میڈیا پلیٹ فارم ’ایکس‘ پر مودی کے نام پیغام میں لکھا تھا کہ ’میں مودی جی کو تیسری مرتبہ وزیراعظم بننے پر مبارک باد دیتا ہوں۔
’حالیہ انتخابات میں آپ کی (نریندر مودی) جماعت کی کامیابی سے آپ کی قیادت پر لوگوں کا اعتماد ظاہر ہوتا ہے۔‘
سابق وزیراعظم نواز شریف نے اپنے پیغام میں جنوبی ایشیا میں قیام امن اور باہمی تعاون کی بات کو آگے بڑھاتے ہوئے لکھا تھا کہ ’ہمیں نفرت کو امید سے بدلنا چاہیے اور جنوبی ایشیا کے دو ارب عوام کے مستقبل کو بنانے کے لیے اس موقع سے فائدہ اٹھانا چاہیے۔‘
اس پر انڈین وزیراعظم نریندر مودی نے نواز شریف کے بیان کا جواب دیتے ہوئے کہا ہے کہ ’آپ کے (نواز شریف) پیغام کی قدر کرتے ہیں۔
’انڈیا کے عوام ہمیشہ امن، سلامتی اور ترقی پسند خیالات کے حامی رہے ہیں۔ اپنے عوام کی فلاح و بہبود اور سلامتی کو آگے بڑھانا ہمیشہ ہماری ترجیح رہے گی۔‘
نریندر مودی نے نو جون کو تیسری مرتبہ انڈیا کے وزیراعظم کے طور پر حلف اٹھایا تھا۔
نواز شریف سے قبل ان کے بھائی اور پاکستان کے وزیراعظم شہباز شریف نے بھی مودی کو وزیراعظم بننے پر مبارک باد دی تھی۔
شہباز شریف کی جانب سے ایکس پر مبارک باد کے پیغام کے جواب میں انڈیا کے وزیراعظم نریندر مودی نے بھی ایکس پر ہی شہباز شریف کا شکریہ ادا کیا ہے۔
پاکستان اور انڈیا کے کشیدہ تعلقات کی تاریخ
پاکستان اور انڈیا کے تعلقات کشیدہ رہے ہیں اور جوہری طاقت کے حامل جنوبی ایشیا کے دونوں پڑوسی ممالک کے درمیان جنگیں بھی ہو چکی ہیں۔
تاہم گاہے بہ گاہے پاکستان کی طرف سے یہ کہا جاتا رہا ہے کہ دنیا کی ایک چوتھائی آبادی والے خطے جنوبی ایشیا کی ترقی کے لیے پڑوسی ممالک کے درمیان پرامن اور اچھے تعلقات ضروری ہیں۔
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
پاکستان اور انڈیا کے تعلقات میں کشیدگی کی ایک بڑی وجہ مسئلہ کشمیر ہے۔ کشمیر کا ایک حصہ پاکستان جبکہ دوسرا انڈیا کے زیرانتظام ہے۔
پاکستان مسئلہ کشمیر کا حل وہاں کی آبادی کی خواہش اور اقوام متحدہ کی قراردادوں کے مطابق چاہتا ہے جبکہ انڈیا اسے اپنے ملک کا حصہ تصور کرتا ہے اور اس نے اگست 2019 میں آرٹیکل 370 کے ذریعے اس کا از خود الحاق اپنے ساتھ کر لیا ہے۔
جس کے بعد پاکستان نے آرٹیکل 370 کے خاتمے کے بعد انڈیا کے ساتھ سفارتی تعلقات کم کرتے ہوئے تجارت معطل کرنے کا اعلان بھی کیا تھا۔
انڈیا کی سپریم کورٹ نے جموں و کشمیر کی خصوصی حیثیت سے متعلق آرٹیکل 370 کی منسوخی اور اسے مرکز کے زیر انتظام علاقوں میں تقسیم کرنے کے پانچ اگست 2019 کے متنازع فیصلے کو چیلنج کرنے والی درخواستوں کو دسمبر 2023 میں مسترد کرتے ہوئے ملک کے الیکشن کمیشن کو حکم دیا تھا کہ وہ ستمبر 2024 تک جموں و کشمیر میں انتخابات کرائے۔
پاکستان نے انڈین سپریم کورٹ کے فیصلے کو مسترد کیا تھا اور تاحال دونوں ممالک کے درمیان سفارتی تعلقات مکمل طور پر بحال نہیں ہوئے ہیں۔