کیا پاکستانی مڈل کلاس اخلاقی طور پر پست ہے؟

کسی معاشرے میں مڈل کلاس سے تعلق رکھنے والے شہری ہی دراصل اس معاشرے میں پائی جانے والی مذہبی، معاشرتی، اخلاقی اور ثقافتی اقدار کے محافظ ہوتے ہیں، جب کہ پاکستان میں ایسا ہوتا ہوا نظر نہیں آ رہا۔

پنجاب کے ضلع فیصل آباد میں کوکا کولا کا ٹرک لوٹا جا رہا ہے (سید نصرت علی فیس بک سکرین گریب)

چند روز قبل پنجاب کے ضلع فیصل آباد میں چھوٹا مانا والا کے علاقے میں معروف غیر ملکی مشروب کوکا کولا کی بوتلوں سے بھرا ایک ٹرک ڈرائیور سے بے قابو ہو کر سڑک کنارے ایک درخت سے ٹکراتا ہے۔ گھبرایا ہوا ڈرائیور، گرفتاری کے ڈر سے موقع واردات سے رفو چکر ہو جاتا ہے۔

حادثے کی آواز سن کر قریبی آبادی سے لوگ جائے وقوعہ کی جانب بھاگتے ہیں، جب کہ سڑک پر رکنے والی گاڑیوں میں سے مسافر بھی اترتے ہیں۔  

قریب پہنچنے پر آنے والوں کو احساس ہوتا ہے کہ ٹرک تو کوکا کولا کی بوتلوں سے بھرا ہوا ہے اور کوئی رکھوالا بھی موجود نہیں۔ پھر کیا تھا، ایکسیڈنٹ کی صورت میں مدد کے لیے آنے والوں نے (پلاسٹک میں لپٹی) کوکا کولا کی بوتلیں نکال نکال کر لے جانا شروع کر دیں۔

دیکھتے ہی دیکھتے وہاں ایک ہجوم اکٹھا ہو گیا، جس میں ہر عمر اور جنس کے لوگ شامل تھے۔

سوشل میڈیا پر وائرل ہونے والی ایک ویڈیو میں کم از کم ایک درجن موٹر سائیکل ٹرک کے قریب کھڑے دیکھے جا سکتے ہیں، جن کے سوار ٹرک میں سے کوکا کولا کے کارٹن اتار کر لے جا رہے ہیں۔ حتیٰ کہ کئی بسیں اور دوسری گاڑیاں بھی رکتی اور ان میں موجود لوگوں نے بھی ’مال غنیمت‘ پر ہاتھ صاف کرتے رہے۔

چھوٹا مانا والا سے ملتا جلتا ایک واقعہ 2017 میں جنوبی پنجاب کے ضلع بہاولپور میں پیش آیا تھا، جب پیٹرول کا ایک ٹینکر الٹنے کے باعث لِیک ہوا اور ہزاروں لیٹر ایندھن سڑک اور اس کے دونوں طرف کچی زمین پر بکھر گیا۔

ارد گرد کی آبادیوں کے باسی گھروں سے برتن لا کر زمین پر پڑا پیٹرول اکٹھا کرتے رہے، جب کہ کئی ایک موٹر سائیکل سوار بھی اپنی گاڑیوں کی ٹنکیاں بھرتے رہے۔

شومئی قسمت زمین پر پڑے پیٹرول نے کسی طرح آگ پکڑ لی جو ہر طرف پھیلی اور تقریباً 150 افراد جان سے گئے اور کئی دوسرے زخمی ہوئے۔

دسمبر 2012 میں پشاور شہر کے ایک محلے میں ایک سیاسی جماعت کی کارنر میٹنگ کے دوران خود کش حملہ ہوتا ہے، جس میں پارٹی کے اہم رہنما کے علاوہ کئی افراد جانوں کی بازی ہار جاتے ہیں۔

اسی واقعے میں زخمی ہونے والے ایک سیاسی کارکن نے بعد میں بتایا کہ دھماکے کے باعث وہ اپنے حواس جیسے کھو بیٹھے تھے۔ سب کچھ دیکھ اور سن پا رہے تھے لیکن جسم کے کسی حصے کو حرکت نہیں دے سکتے تھے۔

انہوں نے بتایا کہ انسانی اعضا اور خون ہر طرف بکھرا ہوا تھا جب کہ قانون نافذ کرنے والے ایک ادارے کا ایک اہلکار میتوں اور زخمیوں کی جیبوں کی تلاشی لے رہا تھا۔
مذکورہ اہلکار نے اس سیاسی کارکن کی جیب سے مبلغ 70 ہزار روپے نکالے۔
پاکستان میں ہی ایسے بے شمار واقعات رپورٹ ہو چکے ہیں، جن میں روڈ ایکسیڈنٹس یا دوسرے حادثات کی صورت میں جب متاثرہ لوگ مدد کے لیے پکار رہے ہوتے ہیں تو کچھ دوسرے پاکستانی ان کی جیبوں پر ہاتھ صاف کر رہے ہوتے ہیں۔

مندرجہ بالاسطور میں بیان کردہ واقعات میں ایک عجیب اور دلچسپ بات مشترک ہے اور وہ ہے ’لوٹ مار کرنے والوں کی اکثریت کا تعلق معاشی طور پر درمیانے طبقے یا مڈل کلاس سے ہونا۔‘

فیصل آباد کے قریب کوکا کولا کا ٹرک ’لوٹنے‘ والوں میں کوئی فقیر یا بہت غریب دیکھنے میں نہیں آیا بلکہ مال مفت لے جانے والوں میں اکثر دیکھنے میں ’مڈل کلاسیے‘ ہی لگتے ہیں۔ 

یعنی کوکا کولا کے ٹرک کی سرعام اور باجماعت لوٹ میں بہت غریب لوگ شامل نہیں تھے، جنہیں کبھی یہ غیر ملکی مشروب پینا نصیب نہیں ہوا ہو، بلکہ اکثریت ایسے پاکستانی شہریوں کی تھی، جو اگر روزانہ نہیں تو ہفتے میں ایک آدھ بار کوکا کولا، پیپسی یا سیون اپ جیسا کوئی مشروب ضرور نوش فرماتے ہوں گے۔

مزید پڑھ

اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)

اسی طرح ضلع بہاولپور میں اپنی جانیں خطرے میں ڈال کو پیٹرول اکٹھا کرنے والے بھی معاشی طور پر بہت کمزور نہیں تھے، جب کہ دھماکے کے مقام پر متاثرین کی جیبوں سے رقوم اور قیمتی اشیا نکالنے والا قانون نافذ کرنے والا اہلکار بھی کوڑی کوڑی کا محتاج ہونے کے بجائے ایک مناسب رقم ماہانہ تنخواہ کی صورت میں حاصل کرتا ہے۔

تو کیا وجہ ہے کہ ان واقعات میں مڈل کلاس سے تعلق رکھنے والے یہ تمام پاکستانی ایسی غیر اخلاقی حرکات کے مرتکب ہوتے دکھائی دیتے ہیں؟

یہ شاید ہمارے معاشرے میں اخلاقی اقدارکے انحطاط کی پستی کی چند ایک بدترین مثالیں ہیں، جو پاکستانی سوسائٹی کا خاصہ بن چکی ہیں۔ 

کسی معاشرے کی مڈل کلاس سے تعلق رکھنے والے شہری ہی دراصل اس معاشرے میں پائی جانے والی مذہبی، معاشرتی، اخلاقی اور ثقافتی اقدار کے محافظ تصور کیے جاتے ہیں۔  

معاشرے کا یوں اخلاقی انحطاط کا شکار ہونا ایک خطرناک اشارہ ہے کہ مذکورہ سوسائٹی تیزی سے اخلاقیات کی اتاہ گہرائیوں کی طرف گامزن ہے۔

اخلاق کی انتہائی پستی کی طرف تیزی سے بڑھتے کسی معاشرے کو کیسے سنبھالا جا سکتا ہے؟ اور اگر ایسا کوئی طریقہ موجود ہے تو اس کا پاکستانی معاشرے میں جنگی بنیادوں پر اطلاق ضروری ہے۔ 

اس سے پہلے کہ ہمارا معاشرہ اخلاقی پستی کی انتہائی گہرائی میں پہنچ جائے اسے بچا لینا چاہیے۔

یہ تحریر کالم نگار کی ذاتی آرا پر مبنی ہے، انڈپینڈنٹ اردو کا اس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔ 

whatsapp channel.jpeg
مزید پڑھیے

زیادہ پڑھی جانے والی بلاگ