’ہمارے یہاں بیٹی پیدا نہیں ہوتی‘ جیسا مکالمہ کہانی کی روایت پسندی بتا رہا ہے۔ ڈرامے ’نور جہاں‘ کی کہانی نے اسی مسئلے کے گرد گردش کرنا ہے۔
ڈرامے میں نسب و منصب، شجرہ و دولت کا فخر بھی موجود ہے اور انسان کی سلجھی ہوئی خاندانی سرد جنگ بھی موجود ہے، جو روز ازل سے جاری ہے۔
ایک جاگیردار سید گھرانے میں غیر سید لڑکی کی شادی ہونا معیوب سمجھتا جاتا ہے۔ نور جہاں ایسی ہی غیر سید بہو بن کر سید خاندان میں شامل تو ہو جاتی ہے لیکن اسے قبولیت نہیں ملتی۔
روایت کے مطابق تین بیٹوں کی صورت میں انہیں جاگیر کا وارث تو مل جاتا ہے جبکہ دوسرے بھائی مختار کے گھر بیٹا پیدا ہی نہیں ہوتا۔ ایک بیٹی نور بانو ہے جو باہر سے پڑھ کر آئی ہے۔ اب سید گھرانے کی مذہبی گدی کون سنبھالے گا، کہانی میں یہ جنگ شروع ہونی ہے۔
وہی روایتی ساس ہے، روایتی بہوئیں ہیں، وہی ساس کو بہوؤں کے ہاتھ کا کھانا چاہیے اور سب کچھ گھڑی کی سویوں کے مطابق چاہیے۔ ملازم رکھنا ساس امی کو پسند نہیں ہے۔ وہی ساس کو بہو سے پوتا یعنی جائیداد کا وارث چاہیے کہ ساس کے اپنے گھر کوئی بیٹی پیدا نہیں ہوئی، اسے اس بات پر فخر بھی ہے۔ اس کے مطابق اس کے بیٹوں کے گھر بھی بیٹی پیدا نہیں ہو گی۔ بڑی بہو سفینہ امید سے ہے اور لگتا ہے کہ ساس کی پوتے والی امید ٹوٹ جائے گی۔
نورجہاں کو اپنے غصے پر کنٹرول ہے، وہ بزنس ویمن ہیں، وہ میٹھی زبان سے کڑوے وار کرتی ہیں۔ جوہری ہیں، قیمتی جواہرات سے جیولری ڈیزائن کرتی ہیں۔ وقت کی نبض پر ہاتھ رکھنا جانتی ہیں، موقع پرست اور مطلب شناس ہیں، اس لیے وہ بہوؤں کے چناؤ میں بھی اپنے سے کم مرتبہ گھرانے کی لڑکیاں لائی ہیں تاکہ انہیں دبا کر رکھ سکیں اور ان کی حکمرانی قائم رہ سکے۔
مگر تیسرے بیٹے کے لیے بہو کے چناؤ میں وہ اپنے برابر سے اوپر کی لڑکی پسند کر بیٹھی ہیں۔ زندگی نے اس موڑ پر بھی نورجہاں کی حکمرانی کو آزمائش میں ڈالنا ہے۔ نور جہاں نے ایک جابر مگر نرم خو لیڈر کی طرح گھر اور بیٹوں کو اپنے مکمل کنٹرول میں رکھا ہوا ہے۔
بڑی بہو سفینہ ایک مڈل کلاس گھرانے کی لڑکی ہے، جو ساس کے ڈپلومیٹ رویے کے سبب ڈری سہمی رہتی ہے۔ اسے شوہر سے جو توجہ ملنی چاہیے وہ نہیں ملتی کیونکہ شوہر پر بھی ساس کا قبضہ ہے۔
دوسرا بیٹا سفیر ایک لڑکی سے یونیورسٹی میں محبت کر بیٹھا ہے مگر ماں نے سب جانتے ہوئے اپنے ایک سابقہ دفتری ملازم جاوید کی وفات کے وقت ہی سفیر کے لیے ان کی بیٹی سنبل کو نہ صرف پسند کر لیا بلکہ 15 دن کے اندر شادی بھی کر دی کہ نہ رہے گا بانس اور نہ بجے گی بانسری۔ سنبل سے سفیر پہلے دن سے ہی روکھا پھیکا رویہ رکھتا ہے مگر وہ شروع میں سمجھ نہیں پاتی۔
یہاں ایک اہم نکتہ جو ڈرامے میں بھی کمزور ہے اور ہماری زندگیوں میں بھی اس احساس کی شدید کمی ہے کہ جب ایک لڑکی کے باپ کا انتقال ہو جاتا ہے تو جنازہ اٹھنے سے پہلے ہی ہم اس لڑکی کے لیے لڑکے دیکھنا شروع کر دیتے ہیں، شادی کی بات شروع کر دیتے ہیں، جنازے سے زیادہ وزنی جنازے والے کی بیٹی ہو جاتی ہے۔
ایک دکھ، ایک ٹراما سے ایک لڑکی گزر رہی ہے، اس کے زخم کو بھرنے تو دیں تاکہ وہ زندگی کے نئے سفر کے لیے تیار ہو سکے۔ ہم لڑکھڑاتی، کمزور، ٹوٹی ٹانگوں کے ساتھ ایک لڑکی کو بھاگنے کی طرف راغب کرتے ہوئے انسانیت تک بھول جاتے ہیں۔ ایک حادثے کو دوسرے حادثے سے ٹھیک کرنے کی کوشش کرتے ہیں، ایسا نہیں ہوتا۔ ایک زخم بھرنے کے بعد درد تھمتا ہے تو انسان مسکرانے کے قابل ہو سکتا ہے۔
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
سنبل کے باپ کی وفات کے بعد جلد شادی ہو جانا اور پھر شوہر کا رویہ نامناسب ہونا، اس کے باوجود وہ نارمل لگ رہی ہے، جیسے چند دن قبل اس کے ساتھ کچھ ہوا ہی نہیں ہے۔ جیسے اسے باپ کی وفات کا صدمہ ہی نہیں ہے بلکہ جس شہزادے سے شادی کا انتظار تھا وہ مل گیا ہے، بات ختم ہوئی۔ وہ ایک بار بھی اپنے باپ کو یاد کرتی دکھائی نہیں دی، نہ ہی اس نے فوری شادی پر کسی قسم کے ردعمل کا اظہار کیا، یہاں کہانی اور کردار کمزور پڑ رہا ہے۔
تیسری کہانی نورجہاں کے تیسرے بیٹے مراد کی ہے جسے اس کی ماں نے اس کی چچا زاد نور بانو سے محبت کی اجازت بھی دی ہے اور یہ بھی کہہ دیا ہے کہ وہ یہ شادی بھی کروا دے گی، یہاں اس کا اپنے دیور مختار سے بدلے کا پہلو کارفرما ہے۔ وہ اس شادی سے مختار کو نیچا دکھانا چاہتی ہے کہ آج اس کی اکلوتی بیٹی بھی غیر سید گھر کی عورت کی بہو بن جائے گی۔
یہ خاندانی دشمنیاں، نفرتیں، حسد، کینہ، بغض کی آگ کہانی کو تو مصالحہ دے دیتی ہیں مگر سماج کو بھی، ناظر کو بھی، تھوڑا سا زہر دے دیتی ہے۔
نور جہاں ایک مضبوط زنانہ کردار ہے مگر غمازی کر رہا ہے کہ جبر کی جنگ میں مرد و عورت کی تفریق نہیں ہوتی بلکہ موقع و مناسبت انسان کو حیوان بنا دیتے ہیں۔ انا، خود پرستی، خود کو منوانا، دوسرے کو نیچا دیکھنا وہ منفی صفات ہیں جو انسان کو ایک خاص سانچے میں ڈھال دیتے ہیں اور جس کی لاٹھی ہوتی ہے، وہی بھینس لے جاتا ہے۔
چچا مختار ایک روایتی انسان ہیں جن کی اپنی بیوی کے ساتھ نہ بن سکی مگر انہیں اپنے بھائی کی بیوی سے بھی ہمیشہ اختلاف رہا ہے مگر خاندان کے غم و وخوشی میں ہر رنجش کے باوجود سب ساتھ ہوتے ہیں۔
ڈراما روایتی ضرور ہے مگر اس میں خاندانی پن کے جھوٹے ٹیبوز کو سلیقے سے نشانہ بنایا گیا ہے۔ گلیمر ہے مگر جو طبقہ دکھایا گیا ہے اس کے مطابق مناسب لگ رہا ہے۔ کاسٹ کا انتخاب عمدہ ہے۔ صبا حمید مرکزی کردار عمدگی نبھا رہی ہیں۔ باقی سب معاون کردار ہی کہے جا سکتے ہیں مگر اپنے رول میں جچ رہے ہیں۔
مکالمے شاعرانہ بناوٹ اور عمدہ کہاوتوں سے مزین ہیں۔ موسیقی بہت اچھی ہے۔ بیک گراؤنڈ میوزک مکالموں میں روح کا کام کر رہا ہے۔ زبان کا عمدہ استعمال کیا گیا ہے۔ مصنفہ ذنجبیل عاصم ہیں اور ڈائریکٹر مصدق ملک ہیں۔