پاکستان کے شہر کراچی میں واقع نوآبادیاتی دور کی ایک منزلہ عمارت میں سندھ پولیس میوزیم بنایا گیا ہے، جہاں تصاویر، وردیاں، تلواریں اور بندوقوں جیسے نایاب نوادرات موجود ہیں۔
یہ میوزیم 1843 میں پہلی بار قائم ہونے کے بعد سے صوبائی پولیس فورس کے ارتقا کی کہانی بیان کرتا ہے۔
یہ عمارت 1865 میں تعمیر کی گئی تھی اور اسے 2019 میں میوزیم میں تبدیل کیا گیا۔ یہ تصویری گیلری سندھ پولیس کی تاریخ بیان کرتی ہے، جس میں بانی پاکستان اور پہلے گورنر جنرل محمد علی جناح کو پیش کیے جانے والے گارڈ آف آنر جیسے تاریخی واقعات کو دکھایا گیا ہے۔
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
نوادرات کے سیکشن میں مختلف ادوار کے پولیس یونیفارم کے ساتھ ساتھ تلواریں، پرانے مواصلاتی آلات، میڈلز اور روایتی ڈھالوں سمیت سندھ کے برطانوی گورنر جنرل سر چارلس جیمز نیپئر کے اہم اور دلچسپ احکامات بھی رکھے گئے ہیں۔
میوزیم کے دورے کے دوران ایک نام جو بار بار سامنے آتا ہے وہ ایڈورڈ چارلس مارٹسن کا ہے، جنہیں سر نیپئر نے تعینات کیا تھا اور انہوں نے 1848 سے 1872 تک سندھ پولیس کے سربراہ کی حیثیت سے خدمات انجام دیں، انہوں نے اسے برطانوی حکمرانی والے برصغیر کے دیگر علاقوں کے لیے ایک ماڈل ڈپارٹمنٹ میں تبدیل کردیا۔
میوزیم کے انچارج شمیم احمد نے بتایا کہ ’میوزیم کے لیے اشیا جمع کرنا آسان نہیں تھا۔‘
انہوں نے عرب نیوز کو دیے گئے ایک انٹرویو میں بتایا: ’ہمیں (سابق) پولیس افسران کے رشتہ داروں یا اولادوں کو تلاش کرنا پڑا، ہم نے انہیں تلاش کیا اور (یہ چیزیں) جمع کیں۔ دستاویزات اور فائلوں کے ساتھ ساتھ ہتھیار بھی اسی طرح جمع کیے گئے۔‘
میوزیم انچارج کے مطابق اس منصوبے پر 2010 میں کراچی پولیس کے اس وقت کے سربراہ سعود مرزا اور ان کی ٹیم نے کام شروع کیا تھا، جنہوں نے محکمہ پولیس سے متعلق اہم دستاویزات کی تلاش کے لیے تقریباً ایک سال تک صوبائی آرکائیوز ڈپارٹمنٹ کا جائزہ لیا تھا۔
شمیم احمد کے مطابق: ’ابھی بھی کچھ ایسے سیکشن ہیں، جنہیں ہمیں مزید بہتر بنانا ہے۔‘
فی الحال، میوزیم گھڑ سوار اور دیہی پولیس فورس کی تاریخ کی ایک جھلک پیش کرتا ہے، جس نے سندھ کے دیہی علاقوں میں نظم و ضبط برقرار رکھنے میں مدد کی۔ یہ سٹی پولیس یونٹ کی بھی تاریخ بتاتا ہے جو اب پاکستان کے صوبائی دارالحکومت اور تجارتی مرکز کراچی کا انتظام سنبھالتا ہے۔
میوزیم کے سب سے دلچسپ پہلوؤں میں سے ایک نوآبادیاتی دور کی پولیس رپورٹس ہیں، جو مقامی سندھی زبان میں لکھی گئی ہیں۔ تین جنوری 1883 کو لکھی گئی ایک رپورٹ سندھ کے ضلع ٹھٹھہ کے رہائشی عمر جارو کی کہانی بیان کرتی ہے، جن کی پالتو گائے چوری ہو گئی تھی اور انہوں نے ایک تجربہ کار کھوجی کی مدد لی تھی، جنہیں مقامی طور پر’ پگی‘ یا ’جوگی‘ کے نام جانا جاتا تھا۔
انہوں نے برطانوی دور کی سندھ پولیس کے کانسٹیبل بچل شاہ کے ساتھ مل کر مجرم کے قدموں کے نشانات کا سراغ لگایا اور آخر کار اسے حیدرآباد کے قریب ایک گھر سے پکڑ لیا۔
میوزیم کے منصوبے پر کام کرنے والی مرکزی ٹیم کے سابق رکن ذوالفقار راشدی کا کہنا تھا کہ سندھ میں تعینات برطانوی پولیس افسران کے لیے سندھی زبان کا امتحان پاس کرنا لازمی تھا تاکہ یہ پتہ چل سکے کہ وہ اس علاقے کا کامیابی سے گشت کر سکیں گے جہاں لوگ زیادہ تر مقامی زبان میں بات چیت کرتے ہیں۔
ذوالفقار راشدی نے کہا کہ اگرچہ صوبائی پولیس نے جرائم کا مقابلہ کرنے کے لیے نئے ہتھیار اور تربیت حاصل کی، لیکن سرکاری دستاویزات میں استعمال کی جانے والی زبان وہی رہی۔
انہوں نے ٹھٹھہ کے عمر جارو کی 1883 کی پولیس رپورٹ کا موازنہ حالیہ رپورٹوں سے کرتے ہوئے کہا کہ ’ایف آئی آر (فرسٹ انفارمیشن رپورٹ) چاہے وہ پرانی ہوں یا نئی، کے کالم میں کوئی خاص تبدیلی نہیں دیکھی گئی۔ اصطلاحات دیکھیں جیسے کہ جائے وقوعہ، رپورٹنگ کا وقت، وقوعے کا وقت، ملوث افراد کی تعداد، کیا چوری کیا گیا، یہ تمام عناصر ہمیشہ ایک جیسے رہے ہیں۔‘
میوزیم کے انچارج شمیم احمد نے پولیس کی پرانی دستاویزات والی کتاب کے صفحات پلٹتے ہوئے کہا: ’چونکہ ہماری سندھ پولیس کی ایک تاریخ ہے اور کافی پرانی ہے، اس لیے ماضی سے لے کر آج تک پولیس کے بارے میں تمام ریکارڈ اور معلومات جمع کی گئی ہیں۔‘
انہوں نے مزید کہا: ’اگر ہم نے پولیس میوزیم قائم کرکے انہیں محفوظ نہ کیا ہوتا، تو یہ تمام چیزیں 20 سے 25 برسوں میں ختم ہو جاتیں۔ کسی کو بھی ان چیزوں کے بارے میں کوئی علم نہ ہوتا۔‘