بادشاہی مسجد اور اس کا کمرشل کلچر

شاہی مسجد لاہور کی پہچان ہے مگر انتظامیہ کو وہاں کے کلچر کو تبدیل کرنے کی ضرورت ہے تاکہ وہاں جانے والے سکون محسوس کریں۔

لاہور آنے والوں کی سیر بادشاہی مسجد آئے بغیر مکمل نہیں ہوتی (کری ایٹو کامنز)

مغل بادشاہ اورنگزیب عالمگیر کی تعمیر کردہ بادشاہی مسجد سرخ پتھروں اور خوبصورت میناروں کی وجہ سے لاہور کی پہچان کے ساتھ ساتھ ایک سیاحتی مرکز بھی بن چکی ہے۔ لاہور آنے والا سیاح اگر یہاں نہ جائے تو اس کی سیر ادھوری رہتی ہے۔  

یہ تحریر بلاگر کی زبانی سننے کے لیے یہاں کلک کیجیے:

میں بھی اس عید اپنے ایک غیر ملکی مسلمان دوست کو بادشاہی مسجد لے گئی۔ انہوں نے مسجد دیکھنے کے علاوہ وہاں نماز کی ادائیگی بھی کرنی تھی۔

ہم نے مسجد کے باہر کچھ تصاویر لیں، پھر مسجد کی طرف بڑھ گئے۔ مسجد میں داخل ہونے سے پہلے جوتے اتارنے تھے جن کی رکھوالی کے لیے کئی لوگ اپنی اپنی دکانیں سجائے ہوئے بیٹھے تھے۔ فی جوتا غالباً 50 روپے وصول کیے جا رہے تھے۔ ہم پانچ لوگ تھے، کچھ منٹ ان کے ساتھ ریٹ طے کرنے میں لگے، پھر انہیں جوتے پکڑا کر ہم مسجد میں داخل ہو گئے۔

مسجد میں داخل ہوتے ہی ہمارے پاس دو تین فوٹوگرافر آ گئے۔ ہم ابھی مسجد کا صحن دیکھ رہے تھے، وہ ہمارے سروں پر سوار ہو کر تصاویر بنوانے کی پیشکش کرنے لگے۔ اتنے میں عصر کی اذان شروع ہو گئی۔ میں نے انہیں کہا: ’بھائی، یہاں جس کام سے آئے ہیں، پہلے وہ کر لیں؟‘

وہ جی جی کرتے ہوئے ایک طرف تو ہو گئے لیکن صاف لگ رہا تھا کہ انہیں میرا ایسا کہنا برا لگا تھا۔ ہم وضو کر کے نماز پڑھنے چلے گئے۔

نماز پڑھ کر نکلے تو مسجد کی دونوں اطراف میں بنی راہداریوں کی طرف چلے گئے۔

مزید پڑھ

اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)

فرش تپ رہا تھا۔ انتظامیہ نے فرش پر کچھ چٹائیوں کے ذریعے ایک حصے سے دوسرے حصے تک جانے کے لیے رستہ بنایا ہوا ہے۔ لوگ انہی پر چل کر مسجد کے ایک حصے سے دوسرے حصے کی طرف جاتے ہیں۔

راہداریوں میں صاف لکھا تھا کہ ’دیواروں پر لکھنا منع ہے‘ اور ’خلاف ورزی کرنے والوں کے خلاف کارروائی کی جائے گی‘ تاہم ہر دیوار پر ہمارے نوجوانوں کی محبت کے قصے لکھے ہوئے تھے۔

دیوارِ چین کے کچھ حصوں میں سیاحوں کے ایسے کاموں کے لیے بڑی بڑی چادریں لگی ہوئی ہیں۔ سیاح ان پر اپنا نام اور اس دن کی تاریخ لکھ سکتے ہیں۔ بادشاہی مسجد کی راہداریوں میں بھی کچھ ایسا ہی انتظام کیا جا سکتا ہے تاکہ مسجد کی دیواریں بھی خراب نہ ہوں اور لوگوں کا دیوار پر لکھنے کا شوق بھی پورا ہو جائے۔ ایسا نہیں ہو سکتا تو سکیورٹی کا نظام ہی بڑھا دیں جو دیواروں پر لکھنے کو واقعی منع کرے۔

راہداری سے نکل کر ایک ہال میں داخل ہوئے۔ وہاں ہاتھ سے کڑھا ہوا قرآنِ پاک زیارت کے لیے رکھا ہوا تھا۔ اس ہال میں مامور آدمی چیخ چیخ کر سب کو ہال کی دیواروں کے ساتھ کھڑے ہونے کا کہہ رہا تھا۔ میرے خیال میں یہ کام ان کے گلے کی نسبت کچھ رکاوٹیں اور رسیاں بہتر انداز میں کر سکتی ہیں۔

ہال کی دیواروں سے چند فٹ کے فاصلوں پر رکاوٹیں کھڑی کر کے انہیں رسیوں سے جوڑا جا سکتا ہے۔ اس طرح لوگ انہی کے پار رہ کر قرآنِ پاک دیکھ سکیں گے اور ان صاحب کے گلے کو بھی آ رام ملے گا۔

بہرحال اسی چیخ پکار میں وہ صاحب اس قرآن کے بارے میں بتانے لگے۔ جب ان کی سمجھ آنا شروع ہوئی تو وہ ہال کے دوسرے حصے میں رکھے چندے کے صندوق میں پیسے ڈالنے کی درخواست کر رہے تھے۔

اس کے بعد وہ اس صندوق کے ساتھ ایسے کھڑے ہو گئے کہ ہال سے نکلتے ہوئے ہر انسان ان کی موجودگی سے شرمندہ ہو کر کچھ نہ کچھ اس میں ڈال کر ہی باہر نکل رہا تھا۔ میں نے اپنے دوست کو کچھ روپے اس صندوق میں ڈالنے کے لیے دیے۔

اس سے اگلے ہال میں مقدس تبرکات زیارت کے لیے رکھے ہوئے تھے۔ وہاں لوگوں کے چلنے کے لیے رکاوٹوں کی مدد سے رستہ بنایا ہوا تھا۔ میں اپنے غیر ملکی دوست کو ہر شے کے بارے میں انگریزی میں بتا رہی تھی۔ وہ ہر چیز کو حیرانی سے دیکھ رہے تھے۔ شاید ان کے ہاں مقدس تبرکات نہیں ہیں۔

چین میں کسی مسجد میں جوتوں کی حفاظت کے لیے لوگوں سے پیسے نہیں مانگے جاتے، نہ کسی کو مجبور کر کے چندہ لیا جاتا ہے۔ مسجد میں تصاویر بناؤ یا نماز پڑھو، کوئی کچھ نہیں کہتا۔

اس ہال کے اخراج پر بھی چندے کے لیے ایک بڑا سا صندوق پڑا ہوا تھا اور اس کی حفاظت پر مامور شخص لوگوں کو اس میں پیسے ڈالنے کے لیے مجبور کر رہا تھا۔ ہم نے وہاں پیسے نہیں دیے۔ ایک بار چندہ دینا کافی تھا۔ یہ صندوق کیوں رکھے جاتے ہیں، ان میں کتنا پیسہ آتا ہے اور ان میں آنے والا پیسہ کہاں جاتا ہے یہ ہم سب کو پتہ ہے۔

مسجد سے باہر نکل کر جوتے واپس لیے۔ ان کی حفاظت کے لیے دکان دار کو ادائیگی کی۔ اس وقت مجھے چین کی مساجد یاد آئیں۔ کسی مسجد میں جوتوں کی حفاظت کے لیے لوگوں سے پیسے نہیں مانگے جاتے تھے۔ کسی مسجد میں لوگوں کو مجبور کر کے چندہ نہیں مانگا جاتا تھا۔ کوئی پیچھے پیچھے نہیں آتا تھا۔ مسجد میں تصاویر بناؤ یا نماز پڑھو، کوئی کچھ نہیں کہتا تھا۔ وہاں کی مساجد آرام دہ اور پرسکون لگتی تھیں۔

بادشاہی مسجد میں اس سکون کی کمی تھی اور اس کی وجہ وہاں کی انتظامیہ کا چیخنا چنگھاڑنا، چندے کے لیے مجبور کرنا اور مسجد کا کمرشل کلچر تھا۔ وہاں جا کر انسان کا موڈ ہی خراب ہوتا ہے۔ سکون نصیب نہیں ہوتا۔

شاید مسجد انتظامیہ کو اس مسجد کو دوبارہ سے مسجد بنانے کی ضرورت ہے جہاں لوگ خوشی خوشی جائیں اور خوشی خوشی واپس اپنے گھروں کو جائیں۔

نوٹ: یہ تحریر بلاگر کی ذاتی آرا پر مبنی ہے جس سے انڈپینڈنٹ کا متفق ہونا ضروری نہیں۔

whatsapp channel.jpeg

زیادہ پڑھی جانے والی بلاگ