آئی ایم ایف سے نئے بیل آؤٹ پیکج کے لیے تمام مطالبے پورے کیے: وزیر

وزیر مملکت نے کہا کہ بجٹ میں تمام مطالبات پورے ہونے کے بعد امید ہے کہ اگلے تین سے چار ہفتوں میں آئی ایم ایف سے سٹاف لیول معاہدے کے لیے بات چیت کا عمل مکمل ہوجائے گا۔

26 جنوری 2022 کو واشنگٹن میں آئی ایم ایف کی عمارت کا بیرونی منظر (اے ایف پی)

حکام نے کہا ہے کہ پاکستان اپنے سالانہ بجٹ میں بین الاقوامی مالیاتی فنڈ کے مطالبات کو پورا کرنے کے بعد رواں ماہ آئی ایم ایف سے چھ ارب ڈالر سے زیادہ کے بیل آؤٹ پر سٹاف لیول معاہدے کا خواہاں ہے۔

پاکستان نے گذشتہ ماہ کے اختتام پر منظور کیے اپنے سالانہ بجٹ میں آمدنی کے مشکل اہداف مقرر کیے ہیں تاکہ اسے ایک اور معاشی بحران کو روکنے کے لیے آئی ایم ایف سے قرض کی منظوری حاصل کرنے میں مدد مل سکے جب کہ نئے اور بھاری ٹیکس لاگو ہونے پر عوام میں غم وغصہ بڑھ رہا ہے۔

وزیر مملکت برائے خزانہ اور محصولات علی پرویز ملک نے برطانوی خبر رساں ادارے روئٹرز کو بتایا: ’ہمیں امید ہے کہ اگلے تین سے چار ہفتوں میں یہ (آئی ایم ایف سے بات چیت کا) عمل مکمل ہوجائے گا۔

 انہوں نے کہا کہ حکومت کا مقصد آئی ایم ایف بورڈ کی چھٹی سے قبل سٹاف لیول معاہدے کو مکمل کرنا ہے۔

علی پرویز ملک نے ممکنہ پیکج کے حجم کے بارے میں کہا کہ ’میرے خیال میں یہ چھ ارب ڈالر سے زیادہ ہوگا‘ تاہم ان کا ماننا ہے کہ اس وقت آئی ایم ایف کی توثیق بنیادی مقصد ہے۔

ادھر آئی ایم ایف نے اس پر تبصرہ کی درخواست کا فوری جواب نہیں دیا۔

مزید پڑھ

اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)

پاکستان نے یکم جولائی سے شروع ہونے والے مالی سال کے لیے تقریباً 13 ہزار ارب روپے (47 ارب ڈالر) کا ٹیکس ریونیو کا ہدف مقرر کیا ہے جو گذشتہ سال کے مقابلے میں تقریباً 40 فیصد زیادہ ہے حالانکہ ملک کے مالیاتی خسارے میں تیزی سے کمی ہوئی ہے جو اس کی جی ڈی پی کے 5.9 فیصد تک پہنچ گیا ہے۔ گذشتہ سال یہ خسارہ جی ڈی پی کا 7.4 فیصد تھا۔

علی پرویز ملک نے کہا کہ ایک سخت اور عوام میں غیر مقبول بجٹ لانے کا مقصد اسے آئی ایم ایف پروگرام کے لیے ایک مضبوط بنیاد کے طور پر استعمال کرنا ہے۔ انہوں نے مزید کہا کہ آئی ایم ایف نے حالیہ بات چیت کے دوران حکومت کے محصولاتی اقدامات پر اطمینان کا اظہار کیا ہے۔

وزیر مملکت نے کہا: ’اب معاہدے میں کوئی بڑی رکاوٹ نہیں بچی تمام اہم پیشگی اقدامات پورے ہو چکے ہیں اور بجٹ ان میں سے ایک ہے۔‘

دوسری جانب تجزیہ کاروں کا کہنا ہے کہ آئی ایم ایف کی رضامندی سے منظور کیا گیا یہ بجٹ عوامی غم و غصے کو ہوا دے سکتا ہے۔

علی پرویز ملک نے اس حوالے سے کہا: ’ظاہر ہے کہ وہ (بجٹ اصلاحات) مقامی معیشت کے لیے بوجھ ہیں لیکن آئی ایم ایف کا پروگرام معاشی استحکام کے لیے ضروری ہے۔‘

ماہر اقتصادیات ثاقب شیرانی نے کہا کہ پاکستان کے زرمبادلہ کے ذخائر اور کرنسی پر دباؤ سے بچنے کے لیے آئی ایم ایف کے ساتھ ایک فوری معاہدے کی ضرورت تھی۔

انہوں نے روئٹرز کو بتایا: ’اگر اس (آئی ایم ایف سے معاہدے) میں زیادہ وقت لگتا ہے تو مرکزی بینک کو عارضی طور پر درآمدات اور سرمائے پر کنٹرول حاصل کرنے پر مجبور کیا جا سکتا ہے۔ یہ غیر یقینی صورت حال کا دور ہو گا اور ایک اور  نقصان یہ ہو گا کہ ایکوئٹیز میں تیزی آئے گی۔‘

اس دوران سٹاک مارکیٹ میں غیر معمولی تیزی دیکھی جا رہی ہے جہاں پاکستان کا بینچ مارک شیئر انڈیکس بدھ کو ٹریڈنگ کے دوران مزید ایک فیصد تک بڑھ کر 80,348 پوائنٹس کی ریکارڈ سطح پر پہنچ گیا۔

12 جون کو بجٹ پیش کیے جانے کے بعد سے انڈیکس میں تقریباً 10 فیصد اضافہ ہوا ہے اور سرمایہ کار آئی ایم ایف سے معاہدے کی امید کر رہے ہیں۔

whatsapp channel.jpeg

زیادہ پڑھی جانے والی معیشت