آسٹریلیا: مظاہرین نے پارلیمان پر غزہ جارحیت کے خلاف بینرز لہرا دیے

اس سے قبل آسٹریلیا میں فلسطینیوں کے حق میں مظاہرہ کرنے والے طلبا سے سڈنی، میلبورن، ایڈیلیڈ اور کینبرا کی یونیورسٹیاں بھر گئی تھیں۔

چار جولائی 2024 کو کینبرا میں پارلیمنٹ ہاؤس میں مظاہرین نے آسٹریلین پارلیمان کی چھت سے غزہ میں اسرائیلی جارحیت کے خلاف بینرز لگائے ہیں جو آسٹریلین براڈکاسٹ کارپوریشن کی جانب سے فراہم  کردہ ویڈیو فوٹیج میں دیکھے جاسکتے ہیں (اے ایف پی/ Australian Broadcast Corporation)

آسٹریلیا کے دارالحکومت کینبرا میں فلسطینیوں کے حق میں مظاہرہ کرنے والے افراد آسٹریلوی پارلیمنٹ کی چھت پر چڑھ گئے اور انہوں نے بینرز لہرائے جن پر نعرے درج تھے، اس کے جواب میں پولیس نے سکیورٹی کی خلاف ورزی پر عمارت کا لاک ڈاؤن کر دیا۔

مظاہرین دو گھنٹے بعد جب نیچے اترے تو پولیس انہیں اپنے ساتھ لے گئی۔ یہ واضح نہیں ہے کہ آیا ان میں سے کسی پر فرد جرم عائد کی گئی ہے یا نہیں۔

عمارت کی چھت پر کم از کم چار مظاہرین کو دیکھا گیا، جنہوں نے بینرز اٹھا رکھے تھے جن پر غزہ کے عوام کی حمایت میں ’دریا سے سمندر تک فلسطین آزاد ہوگا‘ کے نعرے درج تھے۔

ایک بینر پر لکھا تھا کہ ’جنگی جرائم کی، یہاں کی حمایت کی جاتی ہے۔‘

گذشتہ سال سات اکتوبر کو حماس کی جانب سے جنوبی اسرائیل پر حملے میں تقریبا 1200 افراد کی موت کے بعد اسرائیل نے غزہ پر زمینی اور فضائی جارحیت کا آغاز کیا تھا۔

غزہ کی وزارت صحت کے مطابق اسرائیلی جنگ میں اب تک 38 ہزار فلسطینی جان سے گئے ہیں۔ اقوام متحدہ کے انسانی حقوق کے ادارے کے مطابق اس نے علاقے کی 23 لاکھ آبادی میں سے 90 فیصد کو بے گھر کر دیا ہے اور انہیں بھوک کا سامنا کرنا پڑ رہا ہے۔

سکیورٹی کی اس ناکامی سے آسٹریلوی ارکان پارلیمنٹ میں تشویش پائی جاتی ہے جبکہ حزب اختلاف کے اتحاد نے تحقیقات کا مطالبہ کیا ہے۔ اس اتحاد کے ترجمان جیمز پیٹرسن کا کہنا ہے کہ ’یہ پارلیمنٹ کی سکیورٹی کی سنگین ناکامی ہے۔

’اس طرح کی دراندازی روکنے کے لیے بڑی رقم خرچ کر کے عمارت میں تبدیلیاں کی گئی تھیں۔ تحقیقات کی ضرورت ہے۔‘

رکن پارلیمنٹ کیتھ پٹ نے کہا کہ ’سنجیدہ سوالات‘ ہیں لازمی پوچھے جانے چاہیں کہ مظاہرین چھت تک کیسے پہنچے۔

اے بی سی نے ان کے حوالے سے کہا کہ ’میں کسی فرد کے احتجاج کے حق کی حمایت کرتا ہوں، یہ ایک ایسی چیز ہے جس کے لیے اس ملک میں آغاز سے ہی لڑائی لڑی جا رہی ہے اور اس کا دفاع کیا جا رہا ہے۔

لیکن میں کسی فرد کے اس حق کی حمایت نہیں کرتا کہ وہ پہلے خود کو خطرے میں ڈال دے، جیسا کہ ان افراد نے کیا ہے، اور دوسرا یہ کہ آسٹریلوی عوام کو ان کی پارلیمنٹ تک رسائی حاصل کرنے اور ان کے نمائندوں کو کام کرنے سے روکنا۔‘

رینیگیڈ ایکٹوسٹ گروپ سے تعلق رکھنے والے فلسطینی حامی مظاہرین نے مقامی لوگوں کے حقوق اور آب و ہوا کے بحران جیسے دیگر مسائل کے حامیوں کے ساتھ تعاون کیا۔

جمعرات کی صبح تقریبا 10 بجے ’رائزنگ ٹائڈ‘ شرٹس پہنے ہوئے کوئلے کے خلاف مظاہرہ کرنے والوں نے پارلیمنٹ کی عمارت کے سنگ مرمر کے ستونوں سے خود کو چپکا کر پولیس اور سکیورٹی اہلکاروں کو اپنی طرف متوجہ کیا۔

مزید پڑھ

اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)

جب انہیں ہٹایا جا رہا تھا تو فلسطینی حامی مظاہرین کا ایک گروپ مرکزی داخلی دروازے کے اوپر پورٹیکو پر چڑھ گیا اور غزہ میں اسرائیل کی جارحیت کے خلاف اور مقامی آسٹریلوی باشندوں کی حمایت میں بینرز لہرائے۔

چھت پر موجود کارکنوں نے ایک بیان بلند آواز سے پڑھا جس میں ’اسرائیل کی نسل کشی کرنے والی ریاست کے لیے امریکی اور آسٹریلوی حمایت‘ کے خاتمے کا مطالبہ کیا گیا تھا۔

انہوں نے اپنے پیغامات والے کاغذی جہاز بھی بھیجے۔

ان میں کہا گیا تھا کہ ’البانی حکومت کے لیے: ہم نہ بھولیں گے، ہم نہ معاف کریں گے، اور ہم مزاحمت جاری رکھیں گے۔‘

انہوں نے یہ اعلان بھی کیا: ’ہمیشہ سے آبائی سرزمین تھی، ہمیشہ رہے گی۔‘

پارلیمنٹ میں آب و ہوا کے خلاف احتجاج کا اہتمام کرنے والی رائزنگ ٹائیڈ کے ترجمان شان مرے نے اس سوال پر لاعلمی کا اظہار کیا کہ کیا انہیں علم ہے کہ اسی وقت دیگر مظاہرے بھی ہوں گے؟

انہوں نے گارڈین کو بتایا کہ ’نہیں۔ مجھے لگتا ہے کہ یہ صرف جمہوریت ہے۔ اس حکومت کا نسل کشی اور آب و ہوا کے حوالے سے چونکا دینے والا ریکارڈ ہے۔‘

مظاہروں پر ردعمل دیتے ہوئے وزیر دفاع رچرڈ مارلس کا کہنا تھا کہ ’میرے خیال میں یہ بہت اہم ہے کہ ہم یہاں کشیدگی کم کرنے کے لیے ہر ممکن کوشش کریں۔ یہ کسی کو بھی اپنی بات کہنے کے حق سے محروم کرنے کے بارے میں نہیں ہے- لوگوں کو اپنی بات کہنی چاہیے - لیکن یہ ایک قابل احترام طریقے سے کیا جاسکتا ہے جیسے قومی بحث میں حصہ ڈال کے، بغیر کسی اور آسٹریلوی کی بے عزتی کیے، لوگوں کو خطرے میں ڈالے یا سماجی تفرقہ پیدا کیے۔

اس سے قبل آسٹریلیا میں فلسطینیوں کے حق میں مظاہرہ کرنے والے طلبا سے سڈنی، میلبورن، ایڈیلیڈ اور کینبرا کی یونیورسٹیاں بھر گئی تھیں۔ ان سے مطالبہ کیا تھا کہ وہ اسرائیل کے ساتھ تعلیمی تعلقات منقطع کریں اور اسرائیلی فوج کو اسلحہ فراہم کرنے والی کمپنیوں کے ساتھ تحقیقی شراکت داری ختم کریں۔

© The Independent

whatsapp channel.jpeg

زیادہ پڑھی جانے والی دنیا