غزہ کے معصوموں کا دکھ

اسرائیلی جارحیت کے دوران بھوک سے بلکتے بچے اپنے ماں باپ کے ہاتھوں میں بےجان ہو رہے ہیں۔ کھانے کو تھوڑا ہی کچھ مل جانے کی امید میں کتنی ہی معصوم روحیں پرواز کرچکی ہیں۔ وہ جو بچے ابھی اس دنیا میں آئے ہی نہیں، ان کی موت کے پروانے بھی لکھے جا چکے ہیں۔

 17 جون 2024 کو شمالی غزہ کی پٹی میں فلسطینی پناہ گزینوں کے جبالیہ کیمپ میں یو این ریلیف اینڈ ورکس ایجنسی برائے فلسطینی پناہ گزین کے سکول میں بچے کھانا لینے کے لیے قطار میں کھڑے ہیں (عمر القطا / اے ایف پی)

کھانے کو دو لقمے نہیں، پانی کا ایک گھونٹ آبِ حیات سا قیمتی کہ میسر نہیں، اوڑھنے کو چادر نہیں، سر پر چھت نہیں، پڑھنے کو کتاب رہی، نہ لکھنے کو قلم۔ جن گلیوں میں معصوم بچوں کی آوازیں گونجتی تھیں آج وہ بموں کی بوچھاڑ سے ملبے کا ڈھیر بنی ہوئی ہیں۔

سات اکتوبر 2023 سے فلسطین میں جاری اسرائیلی جارحیت کو 200 سے زائد دن ہوگئے ہیں اور کسی ایک دن کا کوئی ایسا لمحہ نہیں گزرا کہ جب اہل غزہ نے کوئی لاشہ اپنے کاندھوں پر نہ اٹھایا ہو۔ جب یہ خبر شہ سرخی نہ بنی ہو کہ اسرائیل کے غزہ کی پٹی پر حملے کے نتیجے میں اتنے بچے جان سے گئے۔

غزہ کے بعد رفح آپریشن، جس سے اب انسانی المیہ جنم لے چکا ہے۔ غزہ کی وزارت صحت کے مطابق ان صرف نو مہینوں میں ساڑھے 37 ہزار سے زائد فلسطینی اسرائیلی جارحیت کا نشانہ بن چکے ہیں، جن میں صرف بچوں کی تعداد ہی 14,000 سے زائد ہے۔

صرف یہی نہیں بلکہ مشرقی وسطیٰ میں کام کرنے والی تنظیم ’سیو دی چلڈرن‘ کے مطابق تقریباً 21,000 ایسے بچے ہیں، جو یا تو لاپتہ ہیں، اسرائیلی حراست میں ہیں، ملبے تلے دبے ہوئے ہیں، ان کی نامعلوم طور پر تدفین کردی گئی ہے یا ان کا اپنے خاندانوں سے کوئی رابطہ نہیں۔

انسانوں کے دلوں کے دہلانے، ضمیر کو جھنجھوڑنے کے لیے فلسطین کے گلی کوچوں سے بےبس، لاچار لوگوں کی تصاویر اور ویڈیوز سوشل میڈیا کی زینت بنتی ہیں جہاں روز اک نیا کربلا بپا ہوتا ہے جبکہ انسانیت کے بڑے بڑے علمبردار سب غفلت کی نیند سو رہے ہیں۔

مزید پڑھ

اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)

اس سب کا نتیجہ یہ ہے کہ آج غزہ کی پٹی میں شدید قحط بپا ہونے کو ہے۔ غزہ کی 96 فیصد آبادی یعنی 21 لاکھ سے زائد لوگوں کو  شدید غذائی عدم تحفظ کا سامنا ہے۔57 فیصد آبادی پانی سے محروم ہے اور جنہیں میسر ہے وہ پانی پینا زندگی کو خطرناک مراحل سے گزار کر موت کے منہ میں جانے کے مترادف ہے۔

 بھوک سے بلکتے بچے اپنے ماں باپ کے ہاتھوں میں بےجان ہو رہے ہیں۔ کھانے کو تھوڑا ہی کچھ مل جانے کی امید میں کتنی ہی معصوم روحیں پرواز کرچکی ہیں۔ وہ جو بچے ابھی اس دنیا میں آئے ہی نہیں، ان کی موت کے پروانے بھی لکھے جا چکے ہیں۔ شیرخوار سر پر کفن باندھے ہوئے ہیں۔

غزہ کی پٹی کا وہ خاندان، جس نے بھوک مٹانے کے لیے گھوڑے کا گوشت کھایا ہو یا پھر خان یونس کا نو سالہ یونس جو رفح کے ہسپتال میں بےہوش پڑا ہے اور جس کی پسلیاں اس کی قمیص سے باہر واضح نظر آرہی ہیں۔ ایسے کئی معصوم ہیں جو یا تو ہسپتال کے بستر پر یا اپنے بےبس ماں باپ کے ہاتھوں میں کھانے کا انتظار کر رہے ہیں، وہیں لاچار ماں باپ حقیقت سے واقف موت کی تمنا کرنے پر مجبور ہیں۔

غزہ کا ہر بچہ موت کا منتظر ہے، وہ اسی کھانے کا منتظر ہے جس کی اہمیت کا اندازہ شاید ہم نہیں لگا سکتے۔ وہ کھانا جو اکثر اوقات ہمارے حکمرانوں کے شاہی محلات میں صرف پسند ناپسند پر ہی ضائع ہو جاتا ہے۔

دنیا کی آٹھ ارب کی آبادی ایک طرف اور  پاکستان سمیت قریب 58 اسلامی ممالک ایک طرف، کیا یہ سب مل کر بھی معصوم فلسطینیوں کے پیٹ نہیں پال سکتے؟ یہ سب مل کے بھی اسرائیل کی جانب سے نسل کشی نہیں روک سکتے؟

نوٹ: یہ تحریر بلاگر کی ذاتی آرا پر مبنی ہے، انڈپینڈنٹ اردو کا اس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

whatsapp channel.jpeg

زیادہ پڑھی جانے والی بلاگ