کیا پاکستان کا دفاعی بجٹ تعلیم اور صحت کے بجٹ سے زیادہ ہے؟

آبادی کی اکثریت بالشمول اعلیٰ تعلیم یافتہ افراد، رائے ساز، اینکرز، حتیٰ کہ جامعات کے اساتذہ بھی ایک مغالطے کا شکار نظر آتے ہیں کہ پاکستان دفاع پر بہت زیادہ اور اس کے مقابلے میں تعلیم اور صحت پر بہت کم خرچ کرتا ہے-

تین مارچ 2024 کو پاکستان کے صدر آصف علی زرداری اسلام آباد میں پریڈ کے دوران گارڈ آف آنر کا معائنہ کرتے ہوئے (اے ایف پی/ غلام رسول)

اس مضمون کے عنوان میں اٹھائے گئے سوال کا سادہ اور فوری جواب ہے: نہیں، بالکل نہیں! تو پھر اس حوالے سے خاص طور پر سوشل میڈیا پر حالیہ دنوں میں پھیلائے گئے تاثرات اور تبصرے سب غلط ہیں؟ جی، بالکل غلط اور بے بنیاد ہیں۔

ہر سال کی طرح اس سال بھی وفاقی اور صوبائی حکومتوں کے مالی سال 2024-25 کے بجٹ سامنے لائے جانے کے ساتھ ہی یہ بحث ایک مرتبہ پھر زوروں پر ہے کہ پاکستان میں دفاع کا خرچہ کتنا ہے اور اس کے مقابلے میں تعلیم اور صحت کے لیے رکھی جانے والی رقوم کتنی ہیں۔

آبادی کی اکثریت بالشمول اعلیٰ تعلیم یافتہ افراد، رائے ساز، اینکرز، حتیٰ کہ جامعات کے اساتذہ بھی ایک مغالطے کا شکار نظر آتے ہیں کہ پاکستان دفاع پر بہت زیادہ اور اس کے مقابلے میں تعلیم اور صحت پر بہت کم خرچ کرتا ہے۔

اس مغالطے کی بنیادی وجہ یہ ہے کہ عوام کی اکثریت دفاع کے لیے رکھی جانے والی رقم کا موازنہ تعلیم اور صحت کے لیے رکھی جانے والی اس رقم سے کرتی ہے جو حقیقت میں صرف وفاقی داراحکومت کے زیر انتظام چلنے والے تعلیم اور صحت کے اداروں کے لیے رکھی جاتی ہے۔

مثلاً 25-2024 کے لیے پاکستان کے دفاعی اخراجات 2128 ارب روپے رکھے گئے ہیں، جب کہ اس سال کے لیے وفاقی حکومت تعلیم پر 103 ارب اور صحت پر 28 ارب روپے خرچ کر رہی ہو گی۔

ان رقوم کا موازنہ کیا جائے تو صورت حال یک طرفہ ہی نظر آئے گی۔ دفاع کا خرچ تعلیم اور صحت کے مجموعی خرچ سے کئی گنا زیادہ ہی نظر آئے گا، لیکن یہی اصل میں مسئلہ ہے۔

یہ تصویر کا صرف ایک بلکہ جزوی رخ اور منظر ہے۔ حقیقت اس کے برعکس ہے اور وہ یہ کہ پاکستانی عوام کی اکثریت قومی مالیات، وفاق اور صوبوں کے درمیان مالیاتی حصہ داری اور ذمہ داری سے آگاہ نہیں-

پاکستان ایک وفاق ہے اور اس وفاق کی اقائیوں یعنی صوبوں کے درمیان وسائل کی تقسیم اور خرچ کرنے کی ذمہ داریوں کا ایک نظام اور طریقہ کار موجود ہے۔ جسے قومی مالیاتی کمیشن ایوارڈ (National Finance Commission Award) کا نام دیا جاتا ہے۔

اس نظام کے تحت، بالخصوص اٹھارویں آئینی ترمیم کے بعد دفاع تو وفاق کی ذمہ داری ہے لیکن تعلیم اور صحت اکائیوں یعنی صوبوں کی ذمہ داری ہے-

مالی سال 25-2024 کے لیے پنجاب نے تعلیم کا بجٹ 669 ارب روپے جبکہ صحت کے لیے 539 ارب روپے مختص کیے ہیں۔

سندھ نے تعلیم کے لیے 519 ارب جبکہ صحت کے لیے 334 ارب رکھے ہیں۔

خیبر پختونخواہ نے تعلیم کے لیے مالی سال کے دوران 348 ارب روپے اور صحت کے لیے 228 ارب روپے خرچ کرنے کا بجٹ رکھا ہے۔

سب سے کم وسائل والے صوبے یعنی بلوچستان نے بھی تعلیم کے لیے 88 ارب روپے اور صحت کے لیے 42 ارب روپے رکھے ہیں۔

اس طرح وفاق اور صوبوں کا مجموعی تعلیمی بجٹ برائے سال 25-2024 بنتا ہے 1727 ارب روپے، جبکہ صحت کے لیے وفاق اور صوبوں کا بجٹ 1171 ارب روپے بنتا ہے۔

یوں وفاق اور صوبے ملا کر تعلیم اور صحت پر مالی سال کے دوران 2898 ارب روپے خرچ کریں گے۔

مزید پڑھ

اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)

یہ کل دفاعی بجٹ 2128 ارب روپے کے تقریبا ڈیڑھ گنا سے زیادہ ہے۔

اب یہ جان لیجیے کہ صوبے یہ رقم لاتے کہاں سے ہیں؟ قومی مالیاتی کمیشن ایوارڈ کے تحت وفاق ہر سال اپنے محصولات میں سے نصف سے کافی زیادہ رقم صوبوں کو دیتا ہے۔

اگلے مالی سال کے دوران اگر وفاق 12700 ارب روپے کے ٹیکس جمع کرے گا تو اس میں سے ساڑھے سات ہزار ارب روپے تو صوبوں کو دے دے گا تاکہ وہ تعلیم، صحت اور دیگر بنیادی ضروریات پر اپنے صوبائی حالات کے مطابق خرچ کر سکیں۔

یہ بھی قومی مالیاتی نظام کا حصہ ہے جو بالعموم عوام کی اکثریت کے علم میں کم ہی ہوتا ہے۔

پاکستان دفاع پر اپنی مجموعی قومی جی ڈی پی کا صرف 1.8 فی صد خرچ کرتا ہے جبکہ تعلیم اور صحت پر خرچ جی ڈی پی کے 2.5 فی صد سے بھی قدرے زیادہ ہے۔ 

خود دفاعی بجٹ کا ایک حصہ بھی تعلیم اور صحت پر ہی خرچ ہوتا ہے۔

یہ جان لینا بھی ضروری ہے کہ وفاقی حکومت پاکستان کے زیر انتظام کشمیر، گلگت بلتستان اور سابقہ فاٹا کے خیبر پختونخوا میں ضم شدہ اضلاع کے لیے ہر سال بھاری رقوم فراہم کرتا ہے جن میں سے ایک بڑا حصہ تعلیم اور صحت پر خرچ ہوتا ہے۔

بے نظیر انکم سپورٹ پروگرام کے ذریعے لاکھوں خواتین کو ملنے والے 600 ارب روپے، اگرچہ فی کس رقم بہت تھوڑی ہوتی ہے، توقع  کی جاسکتی ہے کہ خواتین اور ان کے بچوں کی تعلیم اور صحت کی سہولیات تک رسائی کو بہتر بناتے ہیں۔

بلاشبہ تعلیم اور صحت کے لیے رکھی جانے والی رقوم ابھی بھی عالمی بلکہ علاقائی معیارسے بھی کم ہیں لیکن ساتھ ہی یہ تاثر بھی بے بنیاد ہے کہ دفاع پر خرچ زیادہ اور تعلیم پر کم ہے۔

پاکستان کا اصل مسئلہ قرض پر انحصار ہے جس کا واحد حل مقامی وسائل میں اضافہ ہے-

نوٹ: یہ تحریر لکھاری کی ذاتی آرا پر مبنی ہے، انڈپینڈنٹ اردو کا اس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

whatsapp channel.jpeg

زیادہ پڑھی جانے والی بلاگ