ایران میں آج (بروز جمعہ) رن آف صدارتی انتخابات میں اصلاح پسند صدارتی امیدوار مسعود پزشکیان اور قدامت پسند سعید جلیلی کے درمیان مقابلہ ہو گا۔
28 جون کو ہونے والے انتخابات کے پہلے مرحلے میں صرف 40 فیصد ووٹ ڈالے گئے تھے جو کہ 1979 کے اسلامی انقلاب کے بعد ایران میں کسی بھی صدارتی انتخابات میں ڈالے گئے ووٹوں کی سب سے کم شرح ہے۔
مسعود پزشکیان اور سعید جلیلی ووٹوں کے اعتبار سے بالترتیب پہلے اور دوسرے نمبر پر رہے لیکن کوئی بھی صدر بننے کے لیے مطلوبہ ووٹ حاصل کرنے میں ناکام رہا، اس لیے دونوں امیدواروں کے درمیان آج دوبارہ مقابلہ ہو گا۔
تقریباً چھ کروڑ 10 لاکھ ایرانی اس انتخابات میں حق رائے دہی استعمال کرنے کے اہل ہیں، جو صدر ابراہیم رئیسی کی ہیلی کاپٹر کے حادثے میں موت کے بعد آج ایک بار پھر پولنگ کے عمل میں حصہ لیں گے۔
یہ انتخابات ایک ایسے وقت میں ہو رہے ہیں، جب غزہ میں جاری اسرائیلی جارحیت پر بڑھتی ہوئی علاقائی کشیدگی، ایران کے جوہری پروگرام پر مغرب کے ساتھ تنازعے اور ایران کی پابندیوں سے متاثرہ معیشت پر عوامی عدم اطمینان کی صورت حال ہے۔
28 جون کو انتخابات کے پہلے راؤنڈ میں غیر مقبول مسعود پزشکیان 42 فیصد ووٹوں کے ساتھ سرفہرست رہے۔
پزشکیان کی اس غیر معمولی کارکردگی نے ایران کے اصلاح پسند عوامی حلقے کے لیے کئی سالوں کے قدامت پسند غلبے کے بعد امیدیں زندہ کر دی ہے۔
رن آف انتخابات میں ان کا مقابلہ سعید جلیلی سے ہے، جنہوں نے پہلے راؤنڈ میں 38 فیصد ووٹ حاصل کیے تھے اور انہیں دوسرے قدامت پسند اور انتہائی قدامت پسند امیدواروں کی حمایت بھی حاصل ہے۔
پارلیمنٹ کے سپیکر محمد باقر غالیباف، جو پہلے راؤنڈ میں 13.8 فیصد کے ساتھ تیسرے نمبر پر آئے تھے، نے اپنے حامیوں پر زور دیا کہ وہ رن آف میں سعید جلیلی کی حمایت کریں کیوں کہ دو قدامت پسند امیدوار پہلے ہی دوڑ سے باہر ہو چکے ہیں۔
دوسری جانب سابق صدر محمد خاتمی نے اصلاح پسند مسعود پزشکیان کی حمایت کا اعلان کرتے ہوئے ووٹروں پر زور دیا ہے کہ وہ ایران میں ’صورت حال کو مزید خراب کرنے سے بچانے‘ کے لیے بڑی تعداد میں انتخابات میں حصہ لیں۔\
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
پیر کو دونوں حریفوں نے ٹیلی ویژن پر دو گھنٹے طویل بحث میں ایک دوسرے کا آمنا سامنا کیا، جہاں انہوں نے ایران کی اقتصادی مشکلات، بین الاقوامی تعلقات، ووٹروں کی کم تعداد اور انٹرنیٹ کی پابندیوں پر اپنا اپنا نقطہ نظر پیش کیا۔
مسعود پزشکیان نے بحث کے دوران خواتین کے ساتھ ساتھ مذہبی اور نسلی اقلیتوں کو سیاست میں شامل کرنے میں ناکامی کا ذمہ دار حکومتوں کو ٹھہراتے ہوئے کہا کہ ’عوام ہم سے ناخوش ہیں۔‘
دوسری جانب سعید جلیلی نے کم ووٹر ٹرن آؤٹ پر مایوسی کا اظہار کیا۔
بحث کے دوران مسعود پزیشکیان نے انٹرنیٹ پر پابندیوں کو نرم کرنے کے مطالبات کا اعادہ کیا، جس سے ایران میں گذشتہ برسوں سے سوشل میڈیا پلیٹ فارمز تک رسائی محدود ہو گئی ہے۔
دوسری جانب سعید جلیلی نے امریکہ اور دیگر عالمی طاقتوں کے ساتھ جوہری معاہدے کی سخت مخالفت کی۔
ایران کے سابق جوہری مذاکرات کار سعید جلیلی نے مغرب مخالف موقف کو برقرار رکھتے ہوئے کہا کہ تہران کو پیش رفت کے لیے 2015 کے جوہری معاہدے کی ضرورت نہیں ہے۔
انہوں نے کہا : ’آج ہمیں (جوہری معاہدے کے دوبارہ آغاز کے انتظار میں) اپنے معاملات کو ملتوی نہیں کرنا چاہیے۔‘
امریکہ اور یورپی ممالک کے ساتھ تعمیری تعلقات کا مطالبہ کرتے ہوئے پزشکیان نے سعید جلیلی پر تنقید کرتے ہوئے کہا کہ وہ جوہری معاہدے کے لیے کوئی متبادل پیش نہیں کر رہے ہیں۔
معیشت کے بارے میں سعید جلیلی نے کہا کہ ان کی حکومت آٹھ فیصد جی ڈی پی کا ہدف حاصل کر سکتی ہے۔
تاہم مسعود پزشکیان نے اس دعوے کا مذاق اڑاتے ہوئے کہا کہ اگر ان کے حریف یہ سب کرنے میں ناکام رہے تو انہیں ’پھانسی‘ دی جانی چاہیے۔
وسطی تہران میں باورچی کا کام کرنے والے 42 سالہ جواد عبدالکریمی نے کہا کہ انہیں امید ہے کہ نئی حکومت بڑھتے ہوئے افراطِ زر اور امریکی ڈالر کے مقابلے میں ایرانی ریال کی گراوٹ کو روکنے کے لیے کام کرے گی۔
75 سالہ فاطمہ نے کہا: ’میں نے پہلے راؤنڈ میں ووٹ نہیں دیا تھا اور نہ ہی دوسرے مرحلے میں ایسا کروں گی۔‘
ان کے بقول: ’دونوں امیدوار عوام کے مسائل حل کرنے کی بجائے اپنی بقا کے لیے آئے ہیں۔ انہیں عوام کی کوئی پروا نہیں ہے۔‘
حزب اختلاف کے گروپوں، خاص طور پر سمندر پار ایرانیوں نے انتخابات کی ساکھ پر سوال اٹھاتے ہوئے یہ دلیل دی ہے کہ اصلاح پسند اور قدامت پسند ایک ہی سکے کے دو رخ ہیں۔
کان کنی کے شعبے میں 39 سالہ پروجیکٹ مینیجر نے کہا کہ انہیں دونوں امیدواروں میں سے کسی ایک سے بھی کوئی امید نہیں ہے۔
انہوں نے تہران میں اے ایف پی کو بتایا: ’یہ دیکھتے ہوئے کہ انتخابات میں عوام کی شرکت کئی سال پہلے سے کم ہو رہی ہے، (حکام کو) سمجھنے کی ضرورت ہے کہ یہ ایک مسئلہ ہے۔ میرے خیال میں قدامت پسندوں اور اصلاح پسندوں دونوں کا دور ختم ہو گیا ہے۔‘