نہ لاہور جہاں میں اور نہ ایسی برسات کہیں اور

لاہور کی بارش تو وہ بارش ہوتی ہے کہ آپ گرمی سے بےحال زبان نکالے پیڈسٹل فین کے آگے بیٹھے، ناران کاغان جانے کے لیے آنے پائیاں گن رہے ہوتے ہیں اور زمین آسمان آگ اگل رہے ہوتے ہیں کہ اچانک ہوا کا ایک جھونکا آتا ہے۔

لاہور میں یکم جولائی 2024 کو ہونے والی موسلا دھار بارش کے بعد سڑکوں پر پانی کھڑا ہے اور لوگ راستہ تلاش کرکے گزر رہے ہیں (اے ایف پی / عارف علی)

لاہور میں موسم کی پہلی بارش برسی۔ پہلی اس لیے کہ اس سے پہلے کی بارشیں صرف بارش کا ٹریلر تھیں۔ مٹی اڑا کے، ادھر کے پتے ادھر پھینک کے اور صرف کیچڑ کی ہلکی سی تہہ جما کے ترسا کے گزر جانے والی بارشوں کو ہم لاہوریے خاطر میں نہیں لاتے۔

لاہور کی بارش تو وہ بارش ہوتی ہے کہ آپ گرمی سے بےحال زبان نکالے پیڈسٹل فین کے آگے بیٹھے، ناران کاغان جانے کے لیے آنے پائیاں گن رہے ہوتے ہیں اور زمین آسمان آگ اگل رہے ہوتے ہیں کہ اچانک ہوا کا ایک جھونکا آتا ہے۔

اس جھونکے میں کچھ ایسا ہوتا ہے کہ آپ چونک جاتے ہیں۔ ناک کے نتھنے پھڑکنے لگتے ہیں اور نجانے کس جبلت سے مجبور ہو کے قریب کھڑے فرد سے کہتے ہیں: ’بارش ہونے والی ہے۔‘

اکثر ایسے وقت میں محکمہ موسمیات نے اگلے دو دن گرم اور خشک بتائے ہوتے ہیں لیکن آپ اس جھونکے سے مسرور ہو کر گھر کے پرنالے صاف کرا لیتے ہیں۔ دھوپ ویسی کی ویسی ہوتی ہے مگر لگتا ہے کہ دھوپ ماند پڑ گئی۔

اس جھونکے کو گزرے آدھا گھنٹہ بھی نہیں گزرتا کہ شمال کی طرف سے گردوغبار کا طوفان، شاپر اڑاتا، سائن بورڈ گراتا، ٹہنیاں توڑتا، درانہ گلیوں بازاروں میں گھس آتا ہے۔

بھاگتے دوڑتے، دروازے کھڑکیاں بند کرتے کرتے بھی سارا گھر مٹی مٹی ہو جاتا ہے۔ الگنی پہ پڑے کپڑے اڑ کے پڑوسیوں کے گھر پہنچ جاتے ہیں اور ان کے گھر کے دوپٹے پاجامے آپ کے لان میں آ گرتے ہیں۔

چھت پہ سوکھنے کو رکھی بڑیاں اور کیریاں اتارتے اتارتے کالے سیاہ بادلوں کا دل آسمان کو ڈھانپ لیتا ہے۔ زبردست گھن گرج سنائی دیتی ہے اور دیکھتے ہی دیکھتے یہ موٹی موٹی بوندیں تڑا تڑ برسنے لگتی ہیں۔

بارش کی خوشبو کے ساتھ بچوں کی چیخیں اور قہقہے بھی بلند ہوتی ہیں۔ حد یہ کہ مجھ جیسے آدم بےزار بھی پہلی بارش دیکھنے کو گھر سے باہر نکل آتے ہیں۔

لاہوریوں کا کمال یہ ہے کہ بارش کتنی بھی تیز کیوں نہ ہو یہ چھتری استعمال نہیں کرتے۔ ہمیں تو ایک ہی وجہ سمجھ آتی ہے کہ ایسی منتوں مرادوں والی بارش میں چھتری لینا بارش کی توہین ہے۔

مزید پڑھ

اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)

بارش کا پہلا گھنٹہ تو ہم خوب ناچتے کودتے اور ایسے حیران ہوتے ہیں جیسے پہلے کبھی بارش نہ دیکھی ہو۔ پھر جیسے جیسے شام ڈھلتی ہے، بتی غائب ہوتی ہے اور بارش تیز سے تیز تر ہوتی ہے۔ تھوڑی تشویش شروع ہوتی ہے۔ پہلا سٹیٹس واپڈا کے خلاف لگتا ہے۔

اس اثنا میں خبر ملتی ہے کہ فلاں کمرے میں پانی آگیا ہے۔ پانی نکالتے نکالتے دھیان آتا ہے کہ بارش کچھ زیادہ ہی تیز ہے۔ چار گھنٹے تک گلی میں پانی بھر جاتا ہے اور چھہ گھنٹے کے بعد یو پی ایس جواب دے جاتا ہے۔

بارش وقفے وقفے سے رات بھر جاری رہتی ہے۔ نشیبی علاقے زیر آب آجاتے ہیں۔ تہہ خانوں میں پانی بھر جاتا ہے۔ کوئی سڑک بیٹھ جاتی ہے۔ کسی عمارت کا کوئی حصہ منہدم ہوتا ہے اور ایک کے بعد ایک سٹیٹس لگنے لگتے ہیں۔

حکومت کی نا اہلی، موسمیاتی تبدیلی،  شہروں کی پلاننگ، اربن فلڈنگ، ڈینگی کا خوف اور دیواروں پہ پھولتی کائی اور الماریوں میں لگی پھپھوندی کو بھگانے کے تیر بہدف نسخے۔

برسات گھنی ہو تی جاتی ہے۔ ایک دن چھوڑ کے ایک دن برستی ہے۔ جمعرات کی جھڑی لگتی ہے۔ موسلادھار، پھوئیاں پھوئیاں، کن من اور ترشح،  ہر شکل میں برستی ہے۔ لاہور کے جامن، گہرے اودے اور آم میٹھے ترین ہوتے جاتے ہیں۔ کائی سی دیواریں سیاہ پڑ جاتی ہیں اور در و دیوار سے سبزہ پھوٹ پڑتا ہے۔

لاہور کی پہلی برسات شروع ہو چکی ہے۔ پرنالے لیپ لیجیے اور تیار ہو جائیے۔ نہ لاہور جہاں میں اور ہے اور نہ ہی ایسی برسات کہیں اور برستی ہے اور نہ ہی ایسے زندہ دل لوگ کہیں اور بستے ہیں۔ برسات مبارک!

نوٹ: یہ تحریر کالم نگار کی ذاتی آرا پر مبنی ہے، جس سے انڈپینڈنٹ اردو کا متفق ہونا ضروری نہیں۔

whatsapp channel.jpeg

زیادہ پڑھی جانے والی نقطۂ نظر