عزم استحکام کا مقصد انتہاپسندی کا خاتمہ ہے: وزیر اعظم

وزیر اعظم شہباز شریف نے منگل کو اسلام آباد میں کابینہ کے اجلاس کی صدارت کرتے ہوئے اراکین کو ویژن عزم استحکام سے متعلق اعتماد میں لیا۔

وزیر اعظم شہباز شریف منگل کو اسلام آباد میں وفاقی کابینہ کے اجلاس کی صدارت کرتے ہوئے (ایوان وزیر اعظم) 

وزیر اعظم شہباز شریف نے کہا ہے کہ عزم استحکام آپریشن ایک کثیر جہتی، مختلف سکیورٹی اداروں کے تعاون اور پورے ریاستی نظام کا مجموعی قومی وژن ہے اور اس کا مقصد شدت پسندوں کی باقیات، جرائم و عسکریت پسندوں کے گٹھ جوڑ اور ملک میں انتہا پسندی کو فیصلہ کن طور پر جڑ سے اکھاڑ پھینکنا  ہے۔

اسلام آباد میں ہونے والے وفاقی کابینہ کے اجلاس کی صدارت کرتے ہوئے وزیر اعظم شہباز شریف نے وژن عزم استحکام کے حوالے سے گردش کرتی غلط فہمیوں اورقیاس آرائیوں کے حوالے سے ارکان کابینہ کو اعتماد میں لیا۔

منگل کو ایوان وزیر اعظم سے جاری ہونے والے ایک بیان کے مطابق: ’وزیر اعظم کا کہنا تھا کہ عزم استحکام کے تحت کسی نئے و منظم مسلح آپریشن کے بجائے پہلے سے جاری انٹیلی جنس کی بنیاد پر کارروائیوں کو مزید تیز کیا جائے گا۔‘

انہوں نے وضاحت کی کہ ’ بڑے پیمانے پر مسلح آپریشن جس کے نتیجے میں نقل مکانی کی ضرورت ہو، وژن عزم استحکام کے تحت ایسے کسی آپریشن کی شروعات محض غلط فہمی ہے۔‘

بیان کے مطابق وزیر اعظم شہباز شریف نے کہا کہ عزم استحکام کا مقصد دہشت گردوں کی باقیات، جرائم و دہشت گرد گٹھ جوڑ اور ملک میں پر تشدد انتہا پسندی کو فیصلہ کن طور پر جڑ سے اکھاڑ پھینکنا  ہے۔

وزیر دفاع خواجہ آصف نے آپریشن عزم استحکام کے اعلان کی وضاحت کرتے ہوئے کہا ہے کہ اس پر عمل درآمد کا منصوبہ کابینہ میں پیش ہوگا، پارلیمان میں اس پر بحث ہوگی، ایوان کا اتفاق حاصل کیا جائے گا جس میں حزب اختلاف اور اتحادی جماعتوں کو بحث کا وقت دیا جائے گا اور ان کے سوالات اور تشویش کا جواب دیا جائے گا۔

لاہور میں ایک پریس کانفرنس کے دوران انہوں نے کہا کہ نئے آپریشن کو ضرب عضب، راہ نجات اور رد الفساد سے نہ ملایا جائے۔ ’ان کی نوعیت مختلف تھی تاہم مقاصد وہی ہیں، ماضی میں بھی دہشت گردوں کے خلاف آپریشن ہوئے، یہ بھی انہیں کے خلاف ہوگا۔‘

پاکستان کی حکومت نے حزب مخالف کی جماعتوں کی طرف سے تنقید اور تحفظات کے بعد حال ہی میں اعلان کردہ آپریشن ’عزم استحکام‘ سے متعلق وضاحت کرتے ہوئے کہا ہے کہ ’اسے غلط سمجھا جا رہا ہے۔‘

ان کا کہنا تھا کہ قومی ایکشن پلان آٹھ سال قبل بنایا گیا تھا۔ ’اس وقت اور آج کی صورت حال میں فرق ہے۔ اس وقت بڑے علاقوں پر دہشت گردوں کا قبضہ تھا، آج ویسی صورت حال نہیں ہے۔‘

البتہ انہوں نے تسلیم کیا کہ ایسے علاقے ہیں جہاں طالبان کا راتوں کو اثر و رسوخ ہوتا ہے یا بلوچستان میں بی ایل اے رات کو کارروائی کرتی ہے۔ ایسی کوئی بات نہیں ہے کہ ہمارے کسی علاقے میں دہشت گردوں کی رٹ قائم ہوئی ہو، جس کو ہم ختم کرنے کا آغاز کر رہے ہیں۔‘

خواجہ اصف نے تاہم کہا کہ یہ اس کا اگلہ مرحلہ ضرور ہے جو 2016 میں طے ہوا تھا، چاروں چیف موجود تھے اور کسی نے مخالفت نہیں کی۔

انہوں نے یقین دلایا کہ اس کارروائی کے سیاسی عزائم نہیں۔ ’ہم صرف دہشت گردی کی بڑھتی ہوئی لہر کا مقابلہ کرنا اور اس کو ختم کرنا چاہتے ہیں۔ دوسری بات ہمیں اس وقت بالکل ضرورت ہے تمام اداروں کو چاہیے کہ اس کی حمایت کریں۔‘

عدالتوں کے بارے میں انہوں نے خدشے کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ ایسا نہ ہو کہ قانون نافذ کرنے والے ادارے کوئی کارروائی کریں اور ان کو عدالت سے ریلیف ملنا شروع ہو جائے۔

خیبرپختونخوا کے وزیر اعلی امین گنڈاپور کے بیان سے متعلق ان کا کہنا تھا کہ ہوسکتا ہے بہت سے عناصر اس میں ہیں جو تعاون نہیں بھی کرسکتے۔ ’کے پی کی حکومت نے، سی ایم نے کوئی اختلاف نہیں کیا۔ انہوں نے کل میڈیا سے جو بات کی اس میں اعتراف کیا کہ بات چیت میرے سامنے ہوئی ہے۔ انہوں نے دبے لفظوں میں کہا ہے کہ وہ اس کی حمایت کریں گے۔‘

خواجہ آصف نے موجودہ حالات کو ایک قومی بحران قرار دیا جس کا حل بقول ان کے صرف فوج کا فرض نہیں، باقی اداروں کا بھی ہے۔ ’تمام اداروں کو فائدہ ہوتا ہے، صرف افواج قربانیاں دے رہی ہیں، روزانہ شہادتیں ہو رہی ہیں۔‘

انہوں نے اس خدشے کا اظہار کیا کہ اس بحران کو اگر کنٹرول نہ کیا گیا تو یہ خیبرپختونخوا اور بلوچستان کے علاوہ دوسرے صوبوں میں بھی پھیل سکتا ہے۔

’عدلیہ اگر انصاف، سپورٹ فراہم نہیں کرے گی، جو ایک نیشنل سکیورٹی کا مسئلہ ہے، یہ کوئی سیاسی ایفرٹ نہیں ہے، یہ قومی سلامتی کا ایفرٹ ہے یا میڈیا سپورٹ نہیں کرے گا تو اس میں وہ اثر پیدا نہیں ہوگا جو ہونا چاہیے یا جس کی ضرورت ہے۔‘

انہوں نے افغانستان کا ذکر کرتے ہوئے کہا کہ مداخلت ہوتی ہے، تشکیلیں آتی ہیں اور بارڈ کراس کرتی ہیں۔ ’جو پانچ چھ ہزار دہشت گرد لا کر بسائے گئے تھے، )یہ تشکیلیں) ان کے گھروں میں قیام کرتے ہیں، ان کو پاکستان میں یہ پناہ گاہیں میسر ہو چکی ہیں۔‘

انہوں نے ماضی کی حکومت کے فیصلوں کی جانب اشارہ کرتے ہوئے کہا کہ جن کو تین سال قبل پاکستان میں واپس آنے کی اجازت دی گئی ان میں طالبان کے بڑے بڑے مشہور لیڈروں کو بھی معافی بھی دی گئی۔ ’ایک صاحب، جنہیں بچر آف سوات کہا جاتا ہے، ان کو بھی معافی دی گئی۔‘

مختلف جماعتوں کے تحفظات کے متعلق ایک سوال کے جواب میں انہوں نے کہا کہ قانونی اور آئینی عمل کو مکمل کیا جائے گا۔ ’آئیڈیل صورت حال تو یہ ہے کہ تحفظات نہ ہوں اور دور ہوجائیں، لیکن اگر پھر بھی تحفظات رہتے ہیں تو وہ پولیٹیکلی موٹی ویٹڈ ہیں۔

’وہاں ان تین پارٹیوں کا ووٹ بینک ہے، وہ اپنے ووٹ بینک کو محفوظ رکھنے کے لیے یا مزید ووٹر بینک کے لیے اس قسم کے سٹینڈ لے رہے ہیں۔ ان کی اپنی مرضی ہے۔ میں درخواست ہی کر سکتا ہوں کہ سٹینڈ قومی سطح پر لیا جایے ووٹوں کے لیے نہ لیا جائے، جو شہدا جانیں دے رہے ہیں ان کی طرف دیکھیں۔‘

مزید پڑھ

اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)

آپریشن کے خدوخال کے متعلق ان کا کہنا تھا کہ یہ انٹیلی جنس کی بنیاد پر ہوں گے۔

ایک صحافی نے سوال کیا کہ پہلی دو جنگیں امریکہ کے لیے لڑیں اب چین نے مطالبہ کیا ہے تو اس کے جواب میں وزیر کا کہنا تھا انہوں نے کسی سطح پر ڈیمانڈ نہیں کی ہے۔

وزیر اعظم کی وضاحت

اس سے قبل وزیراعظم شہباز شریف کے دفتر سے پیر کو رات گئے جاری کیے گئے ایک بیان میں کہا گیا کہ ملک کے پائیدار امن و استحکام کے لیے حال ہی میں اعلان کردہ ’وژن جس کا نام عزم استحکام رکھا گیا ہے، کو غلط سمجھا جا رہا ہے اور اس کا موازنہ گذشتہ مسلح آپریشنز جیسے ضرب عضب اور راہ نجات وغیرہ سے کیا جا رہا ہے۔‘

22 جون کو وزیراعظم شہباز شریف کی زیر صدارت نیشنل ایکشن پلان کی ایپکس کمیٹی کے اجلاس میں عسکریت پسندی کے انسداد کے لیے آپریشن ’عزم استحکام‘ کی منظوری دی گئی تھی، لیکن حزب مخالف کی کئی جماعتوں بشمول پاکستان تحریک انصاف (پی ٹی آئی) نے یہ کہہ کر مجوزہ آپریشن کو مسترد کر دیا کہ اسے پارلیمان میں پیش نہیں کیا گیا اور نہ ہی اس پر بحث کی گئی ہے۔

اپوزیشن اور خاص طور پر پاکستان تحریک انصاف کی جانب سے اتوار کو قومی اسمبلی میں اس حوالے سے احتجاج اور تقاریر بھی کی گئیں جبکہ بعض پی ٹی آئی رہنماؤں نے پارلیمان کے باہر میڈیا کے نمائندوں سے بات کرتے ہوئے کہا کہ ’کوئی بھی آپریشن پارلیمان کو اعتماد میں لیے بغیر شروع نہ کیا جائے۔‘

خیبرپختونخوا کے وزیراعلیٰ علی امین گنڈا پور نے پیر کو اڈیالہ جیل کے باہر صحافیوں سے بات چیت میں کہا تھا کہ ’یہ آپریشن بحث کے بغیر نہیں ہو سکتا۔‘

اپوزیشن کے ان ہی تحفظات کی وضاحت کے لیے وزیراعظم شہباز شریف کے دفتر سے جاری بیان میں کہا گیا کہ ’عزم استحکام پاکستان میں پائیدار امن و استحکام کے لیے ایک کثیر جہتی، مختلف سکیورٹی اداروں کے تعاون اور پورے ریاستی نظام کا مجموعی قومی وژن ہے۔

’اس کا مقصد نظرثانی شدہ قومی ایکشن پلان، جو کہ سیاسی میدان میں قومی اتفاق رائے کے بعد شروع کیا گیا تھا، کے جاری نفاذ میں ایک نئی روح اور جذبہ پیدا کرنا ہے۔‘

بیان میں کہا گیا کہ عزم استحکام کا مقصد پہلے سے جاری انٹیلی جنس کی بنیاد پر مسلح کارروائیوں کو مزید متحرک کرنا ہے تاکہ ’دہشت گردوں کی باقیات کی ناپاک موجودگی، جرائم و دہشت گرد گٹھ جوڑ کی وجہ سے ان کی سہولت کاری اور ملک میں پرتشدد انتہا پسندی کو فیصلہ کن طور پر جڑ سے اکھاڑ پھینکا جائے۔ اس سے ملک کی معاشی ترقی اور خوشحالی کے لیے مجموعی طور پر محفوظ ماحول یقینی بنایا جا سکے گا۔‘

بیان میں کہا گیا کہ اس میں تمام قانون نافذ کرنے والے اداروں کی طرف سے پہلے سے جاری کارروائیوں کے علاوہ سیاسی، سفارتی، قانونی اور معلوماتی پہلو شامل ہوں گے۔

حکومت کے وضاحتی بیان میں کہا گیا کہ گذشتہ مسلح آپریشنز میں ایسے معلوم مقامات جو ’نوگو‘ علاقے بننے کے ساتھ ساتھ ریاست کی رٹ کو چیلنج کر رہے تھے، وہاں سے دہشت گردوں کا خاتمہ کیا گیا۔ ’ان کارروائیوں کے لیے مقامی آبادی کی بڑے پیمانے پر نقل مکانی اور متاثرہ علاقوں سے دہشت گردی کی عفریت کی مکمل صفائی کی ضرورت تھی۔‘

مزید کہا گیا: ’اس وقت ملک میں ایسے کوئی نوگو علاقے نہیں ہیں کیونکہ دہشت گرد تنظیموں کی پاکستان کے اندر بڑے پیمانے پر منظم کارروائیاں کرنے یا انجام دینے کی صلاحیت کو گذشتہ مسلح آپریشنز سے فیصلہ کن طور پر شکست دی جا چکی ہے، اس لیے بڑے پیمانے پر کسی ایسے فوجی آپریشن پر غور نہیں کیا جا رہا ہے جہاں آبادی کی نقل مکانی کی ضرورت ہو گی۔‘

حکومت کی طرف سے کہا گیا کہ ’ہم سب کو قومی سلامتی اور ملکی استحکام کے لیے مجموعی دانش اور سیاسی اتفاقِ رائے سے شروع کیے گئے اس مثبت اقدام کی پزیرائی کرتے ہوئے تمام غلط فہمیوں کو دور کرنے کے ساتھ ساتھ اس موضوع پر غیر ضروری بحث کو بھی ختم کرنا چاہیے۔‘

whatsapp channel.jpeg

زیادہ پڑھی جانے والی پاکستان