پاکستان میں ایک مرتبہ پھر زبان زد عام ایک نیا فوجی آپریشن ہے جسے آپریشن عزم استحکام کا نام دیا گیا ہے۔ اس کی ضرورت اچانک کیوں پیش آئی اور حکومت اس سے کیا حاصل کرنا چاہتی ہے؟
22 جون کو وزیراعظم محمد شہباز شریف کی زیر صدارت نیشنل ایکشن پلان کی ایپکس کمیٹی کے اجلاس ہوا جس میں آرمی چیف جنرل عاصم منیر بھی شریک تھے۔ اس اجلاس میں عسکریت پسندی کے انسداد کے لیے آپریشن ’عزم استحکام‘ کی منظوری دی۔
اس کے بعد سے حزب اختلاف کی سیاسی جماعتوں اور دیگر حلقوں کی جانب سے شدید خدشات اور تحفظات کا اظہار کیا جانے لگا ہے۔ جعمیت علمائے اسلام کے مولانا فضل الرحمان نے تو اسے مسترد کرتے ہوئے ’آپریشن عدم استحکام‘ کا نام بھی دے دیا۔
نئے آپریشن کی وجہ کیا ہے؟
ہمسایہ ملک افغانستان میں طالبان حکومت کے قیام کے بعد سے پاکستان میں شدت پسندوں کی کارروائیوں میں اضافہ اور اس کے نتیجے میں جانی نقصان میں مسلسل اضافہ دیکھا جا رہا ہے۔
سال 2023 میں پاکستانی سکیورٹی فورسز کے پانچ سو سے زائد اہلکار دہشت گردوں کے حملوں میں جان کھو چکے ہیں جبکہ جاری سال 2024 کے پہلے چھ ماہ میں مزید اڑھائی سو اہلکاروں کی اموات ہوئی ہیں۔ ان میں سے 70 اموات اپریل میں ہوئیں۔
شدت پسند ماضی کے برعکس بظاہر اب عام عوامی مقامات پر حملوں کی بجائے سکیورٹی فورسز کو زیادہ نشانہ بنا رہے ہیں۔
وزیر دفاع خواجہ محمد آصف نے واضح کیا ہے کہ اگر اس رجحان اور بحران کو اگر ابھی روکا نہیں گیا تو یہ خیبرپختونخوا اور بلوچستان کے علاوہ دوسرے صوبوں میں بھی پھیل سکتا ہے۔
ماضی کے برعکس شدت پسند اس وقت کسی علاقے پر قابض نہیں لیکن رات کی کارروائیاں شدت سے کر رہے ہیں۔
مقصد کیا ہے؟
حکومت نے اب تک جو معلومات دی ہیں ان کے مطابق دہشت گردوں کی باقیات کا خاتمہ، مجرموں اور دہشت گردوں کا گٹھ جوڑ (خاص طور پر کراچی اور کچے کے علاقوں میں) اور ملک سے پرتشدد انتہا پسندی کو جڑ سے اکھاڑ پھینکنا ہے۔
کیا چین سے تعلق ہے؟
پاکستان کو شدید معاشی مشکلات کا بھی سامنا ہے۔ موجودہ حکومت چین پاکستان راہداری منصوبے سی پیک کو بحال کرنے کے لیے کوششیں کر رہی ہے۔ تاہم جہاں اسلام آباد میں سی پیک پر ہونے والا کل جماعتی اجلاس بظاہر سیاسی استحکام پیدا کرنے کی کوشش تھی، ایسا لگ رہا ہے کہ اس نئے آپریشن کے ذریعے عسکری حل کی نیت واضح کی گئی ہے۔
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
سی پیک اجلاس میں شریک سینیئر چینی وزیر لیوجیان چاؤ نے غیرمعمولی طور پر کھل کر بات کی تھی اور سیاسی اور امن عامہ کی صورت بہتر کرنے پر زور دیا تھا۔ البتہ اس مرتبہ حکومت نے انکار کیا ہے کہ اس نئے آپریشن کو چین کے مطالبے پر شروع کیا گیا ہے اور اس کا کہنا ہے کہ چین کا ایسا کوئی مطالبہ نہیں ہے۔
آپریشن کے خدوخال کیا ہوں گے؟
- ایسے بڑے پیمانے پر مسلح آپریشن نہیں ہوں گے جن کے نتیجے میں نقل مکانی کی ضرورت محسوس ہو۔
- آپریشن کا آغاز پارلیمانی اتفاق رائے کے بعد شروع کیا جائے گا۔
- خفیہ معلومات کی بنیاد پر کارروائی ہو گی۔
ماضی کے کئی فوجی سربراہوں کے ضرب عضب اور ردالفساد جیسے آپریشنز کی طرح اب جنرل عاصم منیر نے اپنا سٹیمپڈ آپریشن عزم استحکام کا اعلان کیا ہے۔
ماہرین کے مطابق بہتر ہوتا کہ وفاقی کابینہ، اتحادیوں اور پارلیمان کو اعتماد میں لینے کے بعد اس تازہ کارروائی کا اعلان کیا جاتا لیکن ایسا نہیں ہوا اور اچانک اعلان نے خدشات پیدا کیے۔
اس کارروائی میں حکومت نے عدلیہ سے بھی مدد مانگی ہے کہ کہیں ایسا نہ ہو کہ قانون نافذ کرنے والے ادارے کسی کے خلاف کارروائی کریں اور ان کو عدالت سے ریلیف ملنا شروع ہوجائے۔
تازہ اعلان سے بظاہر آٹھ سال سے گرمی نرمی کے ساتھ انسداد دہشت گردی کے مقصد سے جاری قومی ایکشن پلان میں ایک نئی روح اور جذبہ پیدا کرنا ہے۔
اس کے ذریعے شدت پسندوں اور ان کے حامیوں کو واضح پیغام بھی دینا ہے کہ ریاست پاکستان کمزور نہیں ہوئی اور ان کے خلاف کارروائی جاری رہے گی۔