پشاور میں جمعرات کو جمعیت علمائے اسلام (جے یو آئی) کے زیر اہتمام ’گرینڈ قبائلی جرگے‘ نے آپریشن عزم استحکام کی مخالفت کرتے ہوئے قبائلی اضلاع میں افغانستان سے متصل سرحدوں کو کھولنے کا مطالبہ کیا ہے۔
جے یو آئی کے سربراہ مولانا فضل الرحمان کی قیادت میں ہونے والے جرگے میں قبائلی اضلاع کے مشیران نے شرکت کی۔
جرگے کے اختتام پر ایک متفقہ قرارداد میں قبائلی اضلاع میں آپریشن عزم استحکام کی مخالفت کرتے ہوئے ریاست سے مطالبہ کیا گیا کہ وہ اپنی آئینی و قانونی ذمہ داری پوری کر کے قبائلی علاقوں میں امن قائم کرے۔
وزیر اعظم شہباز شریف نے رواں ہفتے کو نیشنل ایکشن پلان کی ایپکس کمیٹی کے اجلاس میں انسداد عسکریت پسندی کے لیے آپریشن ’عزم استحکام‘ کی منظوری دی تھی۔
اجلاس کے بعد وزیر اعظم ہاؤس سے جاری ہونے والے ایک بیان میں کہا گیا تھا کہ ’آپریشن عزم استحکام کو شروع کرنے کی منظوری پاکستانیوں کے عسکریت پسندی کے خاتمے کے قومی عزم کی علامت ہے۔‘
بیان کے مطابق: ’آپریشن عزم استحکام ایک جامع اور فیصلہ کن انداز میں ملک میں انتہا پسندی اور عسکریت پسندی کے خطرات سے نمٹنے کے لیے کوششوں کے متعدد خطوط کو مربوط اور ہم آہنگ کرے گا۔‘
تاہم قومی اسمبلی میں حزب اختلاف کی بڑی جماعتوں بشمول پاکستان تحریک انصاف نے آپریشن کے خلاف نہ صرف احتجاج کیا بلکہ تقاریر بھی کیں۔
پاکستان تحریک انصاف اور مولانا فضل الرحمان کے علاوہ عوامی نیشنل پارٹی (اے این پی) کے رہنماؤں نے بھی عزم استحکام آپریشن پر مشاورت نہ کرنے کا شکوہ کیا ہے۔
عوامی نیشنل پارٹی کے رہنما میاں افتخار حسین نے رواں ہفتے پیر کو کہا تھا کہ ’آپریشن عزم استحکام پر کسی کو اعتماد میں میں نہیں لیا گیا۔ یہ یک طرفہ فیصلہ ہے۔‘
پشاور میں منعقدہ جرگے میں منظور ہونے والی متفقہ قرارداد (جس کی کاپی انڈپینڈنٹ اردو کے پاس موجود ہے) کے مطابق آپریشن عزم استحکام قبائلی عوام کی تباہ کاری اور قبائل کے خلاف ہے جو گذشتہ 20 سالوں سے مختلف ناموں سے کیے گئے۔
قرارداد میں مزید کہا گیا کہ افغان سرحد سے متصل سرحدیں غلام خان، انگور اڈہ، خرلاچی، ناوہ پاس، طورخم اور چمن وغیرہ کو انسانی ہمدردی اور تجارتی سرگرمیوں کے لیے کھولا جائے۔
قرارداد کے مطابق: ’قبائلی اضلاع کے انضمام کے وقت وہاں کے لوگوں سے کیے گئے وعدہ پورے کیے جائیں جس میں نیشنل فنانس کمیشن کے سالانہ ڈیڑھ ارب روپے دینا بھی شامل ہے۔‘
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
قرارد میں لکھا گیا کہ قبائلی علاقوں کی معدنیات اور وسائل پر قبائل کا حق ہے اور اس کی رائلٹی قبائلی عوام کو دی جائے۔
جرگے کے بعد مولانا فضل الرحمان نے پریس کانفرنس کے دوران ایک سوال کے جواب میں کہا کہ پاکستان کی فوج اور اینٹیلجنس ادارے دنیا کے مضبوط اداروں میں شامل ہیں جبکہ افغانستان میں تو اینٹیلجنس ادارہ اور فوج اتنی مضبوط نہیں۔
انہوں نے کہا کہ ’اب اگر سرحد پر دراندازی ہوتی ہے تو ہمیں پہلے خود بیٹھ کر اس پر بات کرنی چاہیے، افغانستان کی فوج اتنی بڑی سرحد کی نگرانی نہیں کر سکتی کیونکہ وہاں فوج اتنی مضبوط نہیں۔‘
مولانا فضل الرحمان نے واضح کیا کہ یہ جرگہ آپریشن عزم استحکام کے اعلان کے بعد نہیں بلایا گیا بلکہ یہ پہلے سے طے شدہ تھا لیکن چونکہ یہ حالیہ معاملہ تھا لہٰذا اس پر بھی بات ہوئی۔
’آپریشن کو اس لیے مسترد نہیں کیا گیا کہ جرگہ امن نہیں چاہتا۔ امن کے حوالے سے صورت حال بہت گھمبیر ہے اور مسلح لوگ پہلے سے زیادہ علاقے میں پھیل گئے ہیں لیکن ماضی کے آپریشنز میں قبائلی عوام نے بہت مشکلات کا سامنا کیا اور اب ایک بار پھر آپریشن کا اعلان آ گیا ہے۔‘
سرحد پر دراندازی کے حوالے سے مولانا فضل الرحمان کا کہنا تھا کہ افغانستان کے حوالے سے بعض مرتبہ پاکستانی ریاست جذبات میں آ کر فیصلے اور رد عمل دیتی ہے، اس کے باوجود کہ افغانستان میں ظاہر شاہ سے لے کر اشرف غنی تک پرو انڈیا حکومت تھی لیکن افغان طالبان پرو پاکستان ہے۔