پاکستان میں حقوق انسانی کے تحفظ کے لیے سرگرم تنظیم پاکستان کمیشن برائے انسانی حقوق (ایچ آر سی پی) نے منگل کو ایک بیان میں حال ہی میں اعلان کردہ عزم استحکام آپریشن کے ممکنہ اثرات پر تشویش کا اظہار کیا ہے۔
لاہور سے جاری بیان میں ایچ آر سی پی کے چیئرپرسن اسد اقبال بٹ کا کہنا تھا کہ اگرچہ اس میں کوئی شک نہیں کہ ریاست کو ملک بھر میں بگڑتی ہوئی امن و امان اور سکیورٹی کی صورت حال سے فوری طور پر نمٹنا چاہیے، تاہم ایچ آر سی پی کو اس اقدام کی شفافیت پر تشویش ہے۔ ان کا کہنا تھا کہ ’ریاست کو یہ نہیں بھولنا چاہیے کہ اس طرح کے اقدامات کا تعلق صرف سکیورٹی سے نہیں بلکہ ان کا ایک سیاسی تناظر بھی ہے۔ چنانچہ، پارلیمنٹ کو جہاں تک ممکن ہو تمام سیاسی حلقوں کے خدشات کو مدنظر رکھتے ہوئے اس آپریشن کا احتیاط اور شفافیت سے جائزہ لینا چاہیے۔‘
اس بیان کے سامنے آنے سے قبل گذشتہ ہفتے کور کمانڈرز کانفرنس میں عسکری کمان نے آپریشن ’عزم استحکام‘ پر ہونے والی ’بلاجواز تنقید اور مخصوص مفادات کے حصول کے لیے قیاس آرائیوں پر‘ تشویش کا اظہار کیا تھا اور اسے وقت کا اہم تقاضہ قرار دیا تھا۔
اس سے قبل سیاسی حکومت بھی اس آپریشن کی مسلسل بیانات کے ذریعے وضاحتیں کرچکی ہیں اور اب وزیر اعظم میاں شہباز شریف نے کل جماعتی کانفرنس کے جلد انعقاد کا اعلان بھی کیا ہے۔
وزیراعظم شہباز شریف ایک بیان میں کہہ چکے ہیں کہ عزم استحکام آپریشن ایک کثیر جہتی، مختلف سکیورٹی اداروں کے تعاون اور پورے ریاستی نظام کا مجموعی قومی وژن ہے اور اس کا مقصد شدت پسندوں کی باقیات، جرائم و عسکریت پسندوں کے گٹھ جوڑ اور ملک میں انتہا پسندی کو فیصلہ کن طور پر جڑ سے اکھاڑ پھینکنا ہے۔
وزیر اعظم کا کہنا تھا کہ عزم استحکام کے تحت کسی نئے و منظم مسلح آپریشن کے بجائے پہلے سے جاری انٹیلی جنس کی بنیاد پر کارروائیوں کو مزید تیز کیا جائے گا۔ ’بڑے پیمانے پر مسلح آپریشن جس کے نتیجے میں نقل مکانی کی ضرورت ہو، وژن عزم استحکام کے تحت ایسے کسی آپریشن کی شروعات محض غلط فہمی ہے۔‘
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
ہیومن رائٹس کمیشن کا اصرار تھا کہ اسے سب سے زیادہ فکر اس بات کی ہے کہ اس اقدام سے عام شہریوں پر ممکنہ طور پر منفی اثرات مرتب ہو سکتے ہیں۔ ’ان میں بہت سے ایسے خاندان بھی شامل ہیں جو اس سے پہلے کے سکیورٹی آپریشنز کی وجہ سے بےگھر ہو گئے تھے۔ ان لوگوں کو اب تک معاوضہ نہیں دیا گیا نہ ہی ان کی بحالی کے لیے اقدامات کیے گئے ہیں۔‘
اسد اقبال بٹ کا مزید کہنا تھا کہ عسکریت پسندی سے نمٹنے کے کسی بھی حقیقت پسندانہ اقدام میں متاثرین کے حقوق کو نظر انداز نہیں کیا جانا چاہیے۔ چنانچہ، اس آپریشن کو مزید جبری گمشدگیوں، حراستی مراکز یا فوجی عدالتوں کے استعمال، ماورائے عدالت قتل، غیر قانونی گرفتاریوں یا حراستی تشدد کے جواز کے طور پر استعمال نہیں کیا جانا چاہیے۔
پاکستان فوج کی ملک کے مختلف علاقوں میں شدت پسندوں کے خلاف کارروائیاں پہلے سے جاری ہیں۔ البتہ کالعدم بلوچ لبریشن آرمی نے اپنے ردعمل میں اس آپریشن کے خلاف اپنی کارروائیوں میں تیزی لانے کا اعلان کیا ہے۔ اس کے ترجمان کا کہنا ہے کہ اس کے تحت فوجی تنصیبات بلکہ چینی مفادات پر بھی حملوں میں شدت لائی جائے گی۔
22 جون کو وزیراعظم محمد شہباز شریف کی زیر صدارت نیشنل ایکشن پلان کی ایپکس کمیٹی کے اجلاس ہوا تھا، جس میں آرمی چیف جنرل عاصم منیر بھی شریک تھے۔ اس اجلاس میں عسکریت پسندی کے انسداد کے لیے آپریشن ’عزم استحکام‘ کی منظوری دی گئی تھی۔