ایک دوست نے سوال کیا، ’مہنگائی بہت بڑھ نہیں گئی؟‘ اور مجھے تحریک انصاف کا وہ رکن قومی اسمبلی یاد آ گیا جس نے اپنے دورِ مبارک میں صحافی کے سوال پر آنکھوں میں فاختہ جیسی معصومیت لا کر سوال کیا تھا: کہاں ہے ’مہنگپائی‘ (مہنگائی) ؟ مجھے تو کہیں ’مہنگپائی‘ نظر نہیں آ رہی!‘
ملک میں اگر مہنگائی ہوتی اور عوام کی کمر ناروا ٹیکسوں سے دہری کر دی جاتی تو کیا زندہ اور پائندہ قوم اس پر احتجاج کرنے کی بجائے سوشل میڈیا پرتشریف فرما ہو کر ’طاغوت‘ پر لمبی لمبی علمی بحثیں کر رہی ہوتی؟
کینیا میں اگر اتنا غیر معمولی احتجاج ہو سکتا ہے تو یہاں قبرستان جیسا سناٹا کیوں ہے؟ سوال وہی ہے: کہاں ہے مہنگپائی؟
معاشرہ کیا سوچ رہا ہے یہ جاننا کوئی مشکل کام نہیں۔ عوام میں اضطراب ہو تو وہ سڑکوں پر نکلتے ہیں اور اس کی قدرت بھی نہ رکھیں تو سوشل میڈیا پر اپنی بات کہتے ہیں۔ ہماری سڑکیں بھی پرسکون ہیں اور ہمارا سوشل میڈیا بھی ہر سہ پہر نامعقولیت کا ایک نیا کنواں کھود کر اپنی پیاس بجھا رہا ہوتا ہے۔ اگر معاشرہ اتنا بے نیاز اور لاتعلق ہے تو دیوارِ دل پر پھر وہی سوال دستک دیتا ہے: کہاں ہے مہنگپائی؟
مہنگائی اور ٹیکسوں کے آزار سے اگر لوگ تنگ ہیں تو وہ باہر کیوں نہیں نکلے؟ دلچسپ حقیقت یہ ہے کہ جماعت اسلامی کے سوا کسی سیاسی جماعت نے ابھی تک مہنگائی اور ٹیکسوں کی بھرمار کے خلاف کسی مظاہرے کی کال نہیں دی۔
عمران خان، آصف زرداری اور نواز شریف کے بارے میں تو ہم سو طرح کی بد گمانیاں پال سکتے ہیں کہ مہنگائی سے انہیں کیا پریشانی، انہوں نے کون سا کما کر کھانا ہے لیکن یہاں تو فضل الرحمٰن صاحب جیسے ’اللہ والے‘ بھی خاموش ہیں جن کے بارے میں حسن ظن ہے کہ وہ صرف رزق حلال ہی کو عین عبادت سمجھتے ہوں گے۔ مولانا امورِ دیگر پر تو روز حکومت کو للکار رہے ہوتے ہیں لیکن ان کے مطلع سے مقطع تک مہنگائی نام کی کسی چیز کا گزر نہیں۔
برسات کا موسم ہے مگرشام اترتی ہے تو پروانوں سے زیادہ ٹاک شوز آ جاتے ہیں۔ قلت موضوعات اور فکر کا یکساں بحران ہے۔ چاند ماری کا اکھاڑا سج جاتا ہے، لیکن مجال ہے کبھی کسی ملکی معیشت کو اس کی روح کے ساتھ زیر بحث لانے کی کوشش کی ہو۔ کہیں ذکر ہوا بھی ہو گا تو ایسے ہی جیسے سیاست کے مقطع میں کوئی سخن گسترانہ سی بات آ جائے۔
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
سوشل میڈیا تو عوام کا اپنا فورم ہے۔ ایکس پر پچھلے دو ماہ کے ٹاپ ٹرینڈز کی فہرست اٹھا کر دیکھ لیجیے، کیا ان میں مہنگائی اور ٹیکس کے عنوانات شامل ہیں؟ شامل رہے تو تعداد اور دورانیہ کیا تھا؟ اور گفتگو کا محور سیاست تھی یا مہنگائی اور معیشت؟
پارلیمان کے اندر ہونے والی گفتگو سن لیجیے۔ سیاست کے تقاضوں کی حد تک تو یقیناً شور مچتا ہے اور ہر دور میں مچتا ہے کہ مہنگائی کر دی لیکن کیا مہنگائی معیشت اور ٹیکس کے موضوع پر پارلیمان میں کوئی سنجیدہ بحث سننے کو ملی؟ کیا اس پر کوئی سیشن ہوا کہ عوام کی قوت خرید سکڑ کر تباہ ہو گئی۔
کیا اس پر کبھی بات ہوئی کہ سود اور قرض کی مد میں بجٹ اسی تناسب سے خرچ ہوتا رہا تو کتنے سالوں میں قریب سارا بجٹ ہی اس دلدل میں جھونکنا پڑے گا؟
ماہرین میں اتفاق پایا جاتا ہے کہ معاشی استحکام کے لیے سیاسی استحکام ضروری ہے۔ کیا سوشل میڈیا پر کبھی یہ نکتہ اپنی معنویت کے ساتھ زیر بحث آیا کہ اس انتشار نے عوام کو کیا دیا؟
یہاں کے عوام اپنے لیے تو پریشان ہیں ہی نہیں۔ ان کی اپنی محرومیاں تو کبھی سوشل میڈیا پر بھی زیر بحث نہیں آئیں، اپنی اور اپنے بچوں کی ان خوشیوں پر کوئی بات ہی نہیں کرتا، جو ان سے چھین لی گئی ہیں۔
کوئی طاغوت کی شرح کے لیے باؤلا ہوا پھرتا ہے، کوئی کرکٹ کا مجنون بنا ہوا ہے۔ والدین کے لیے دوا ہے یا نہیں، بچوں کے لیے فیس ہے یا نہیں اور کھانے کو کچھ دستیاب ہے یا نہیں، یہ عوام کا موضوع ہی نہیں۔ ان کے موضوعات ہی کچھ اور ہیں۔ ان کی ترجیحات ہی الگ ہیں اور ان کی دلچسپی کے میدان ہی اور ہیں۔ ملک میں مہنگائی ہوتی تو کیا عوام یوں لاتعلق اور اتنے کھلنڈرے ہوتے؟
افسر شاہی اور عدلیہ کی مراعات دیکھیں۔ دنیا میں کیا ایک بھی ایسا ملک ہے جہاں کی افسر شاہی اور عدلیہ کے پاس یہ مراعات ہوں؟ ملک میں اگر معاشی بحران ہوتا تو یہ مراعات برقرار رہ پاتیں یا ان میں اضافہ ہو پاتا؟ اور اگر ایسا ہوتا تو کیا عوام ایک طوفان نہ کھڑا کر دیتے؟ کیا پارلیمان سراپا سوال نہ بن جاتی؟ کیا لوگ سڑکوں پر نہ آ جاتے؟ کیا ایک تحریک نہ کھڑی ہو جاتی؟
یہ اگر رعایا ہے تو اس کی بے بسی اور خاموشی سمجھ میں آتی ہے لیکن یہ اگر عوام ہیں اور برابر کے شہری ہیں تو پھر یہ گونگا پن سمجھ سے باہر ہے۔
نوٹ: یہ تحریر کالم نگار کی ذاتی آرا پر مبنی ہے، جس سے انڈپینڈنٹ اردو کا متفق ہونا ضروری نہیں۔