مالی سال 2024-25 کا وفاقی بجٹ قومی اسمبلی میں پیش کر دیا گیا ہے جس کے بعد معاشرے کے مختلف طبقات سے تعلق رکھنے والے لوگ اس منی بل میں اپنے لیے ریلیف تلاش کرنے کی کوشش کر رہے ہیں۔
دوسروں کی طرح خواتین خانہ بھی پیش کردہ بجٹ میں آئندہ مالی سال کے دوران اپنی آمدن اور گھر کے اخراجات کے درمیان فرق کا اندازہ لگانے کے علاوہ اس خلیج کو پر کرنے کے طریقے سوچ رہی ہیں۔
خصوصاً ایسی خواتین خانہ، جو ورکنگ وومن بھی ہیں، کے لیے آئندہ مالی سال کے بجٹ میں پیش کردہ تجاویز دو دھاری تلوار کی مانند ہیں، جس کی وجہ تنخواہ دار طبقے کی آمدن پر لگنے والا ٹیکس اور روزمرہ استعمال کی اشیا کی قیمتوں میں متوقع اضافہ ہیں۔
انڈپینڈنٹ اردو نے ایسی ہی ایک خاتون رکن سندھ اسمبلی سعدیہ جاوید، جو گھر گرہستی کے علاوہ ایم پی اے کی حیثیت سے ملنے والی ماہانہ تنخواہ سے زندگی کی ضروریات پورا کرتی ہیں، سے مالی سال 2024-25 کے بجٹ میں پیش کردہ تجاویز کی روشنی میں جاننے کی کوشش کی ہے کہ وہ کیسے گھریلو بجٹ بنائیں گی۔
انڈپینڈنٹ اردو سے گفتگو کرتے ہوئے سعدیہ جاوید کا کہنا تھا کہ ’بجٹ سرکاری ہو یا گھریلو ایک چیلنج ہی ہوتا ہے اور اس کو تیار کرتے وقت ضروریات کا لحاظ کر کے آمدنی و خرچ کو دیکھا جاتا ہے۔‘
ان کا کہنا تھا کہ ’سمجھدار خواتین اور اپنی آمدنی کے اندر بجٹ بناتی ہیں اور جو آمدنی کا لحاظ نہیں رکھتیں انہیں مالی پریشانیوں سے دوچار ہونا پڑتا ہے۔‘
’میں نے اپنی زندگی سے لگژری آئٹمز کو نکال دیا ہے۔ کھانے پینے اور کچن کے سامان میں جو پہلے کولڈ ڈرنکس آتے تھے وہ اب خریداری کی فہرست سے خارج کر دیے ہیں، جب کہ گوشت اب ہفتے میں ایک سے دو بار بنتا ہے۔‘
رکن سندھ اسمبلی کہتی ہیں کہ ’اشیا خورد و نوش کی خریداری سے قبل وہ مارکیٹ کا سروے کرتی ہیں اور پھر چیزیں خریدتی ہیں۔‘
انہوں نے خواتین خانہ کو نصیحت کرتے ہوئے کہا کہ ’گھر کے بجٹ میں مخصوص چیزوں کی تحریری فہرست تیار کریں اور حتی الامکان کوشش کریں کہ خریداری کے وقت اس سے باہر کی کسی چیز پر رقم خرچ نہ ہو۔
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
’اس فہرست میں بنیادی ضروریات کو سب سے اوپر رکھیں اور غیر ضروری اور فضول شاپنگ سے مکمل گریز کریں۔ یعنی گھریلو بجٹ میں غیر ضروری اخراجات کو شامل نہ کیا جائے۔‘
ایم پی اے نے کہا کہ ’پارلیمان کے ایوانوں میں بیٹھنے والی خواتین بھی بجٹ کو لے کر فکر مند ہوتی ہیں اور ان پر بھی مہنگائی اثر انداز ہوتی ہے۔
’ہم بھی مہنگائی میں اتنا ہی پس رہے ہوتے ہی جتنا عام لوگ۔ میں اپنا گھر چلا رہی ہوں اور واقف ہوں کہ مہنگائی شدت کی حد تک بڑھ گئی ہے۔ مجھے اندازہ ہے کہ گوشت کی قیمت بڑھ گئی ہے کہ اب وہ میری قوت خرید سے بھی باہر ہے۔ جس طرح پہلے روزانہ گوشت بن جاتا تھا اب وہ سلسلہ نہیں رہا۔‘
بدھ کو قومی اسمبلی میں پیش کیے گئے بجٹ سے متعلق انہوں نے کہا کہ اس میں خواتین کا خصوصاً خیال رکھا جانا چاہیے۔
’فارمیلیٹی بجٹ نہیں ہونا چاہیے۔ اس میں خواتین کو خاص ریلیف ملنا چاہیے۔ بجٹ گھریلو ہونا چاہیے۔‘