سارے فساد کی جڑ یہ کپتانی!

پاکستان کی کرکٹ نے کچھ ایسا رنگ بدلا ہے کہ وہی کھلاڑی جو پہلے شیر و شکر تھے اب ان کے درمیان خلیج اور ایک ایسی فضا پیدا ہوچکی ہے جو نہ کرکٹرز کے لیے اچھی ہے اور نہ ہی پاکستان کی کرکٹ کے لیے۔

20 اکتوبر 2023 کو بنگلورو کے ایم چناسوامی سٹیڈیم میں آسٹریلیا اور پاکستان کے درمیان آئی سی سی کرکٹ ورلڈ کپ ون ڈے انٹرنیشنل میچ کے دوران فیلڈنگ کرتے ہوئے پاکستان کے کپتان بابر اعظم کا ایک انداز (ستیش بابو / اے ایف پی)

زن، زر اور زمین کے بارے میں یہی کہا جاتا ہے کہ یہ فساد کی جڑ ہیں لیکن اگر ہم پاکستان کی کرکٹ پر نظر ڈالیں تو صرف ایک ہی چیز سارے فساد کی جڑ نظر آتی ہے اور وہ ہے کپتانی۔

اگر آپ کی یادداشت  کمزور نہیں تو آپ کو یقیناً یاد ہوگا کہ نجم سیٹھی کے زمانے میں جب بابر اعظم کو کپتانی سے ہٹانے کی باتیں ہورہی تھیں تو شاہین آفریدی اور کئی دوسرے کھلاڑی بابراعظم کی حمایت میں کھل کر سامنے  آئے تھے۔

شاہین آفریدی نے تو ایکس پر ’سوچنا بھی منع ہے‘ کے ہیش ٹیگ کے ساتھ بابر اعظم کے ساتھ یکجہتی کا برملا اظہار کر دیا تھا کہ وہ ہماری اور پاکستان کی شان ہیں اور ہمیشہ کپتان رہیں گے۔

 لیکن اب حالات یکسر بدل چکے ہیں۔ پاکستان کی کرکٹ نے کچھ  ایسا رنگ بدلا ہے کہ وہی کھلاڑی جو پہلے شیر و شکر تھے، اب ان کے درمیان خلیج اور ایک ایسی فضا پیدا ہوچکی ہے، جو نہ کرکٹرز کے لیے اچھی ہے اور نہ ہی پاکستان کی کرکٹ کے لیے۔

یہاں سوال یہ ہے کہ جو کچھ بھی ہوا ہے اس کی وجہ کیا ہے؟ تو اس کا سیدھا سادہ جواب ہے کپتانی۔ 

اس تمام صورت حال کے پس منظر سے تقریباً تمام ہی لوگ اچھی طرح واقف ہیں کہ بابر اعظم کو 50 اوورز کے ورلڈ کپ کے بعد کپتانی سے ہٹنا پڑا اور شاہین آفریدی کپتان بنا دیے گئے لیکن نیوزی لینڈ کے دورے میں شکست کے بعد شاہین آفریدی بھی کپتان نہ رہے اور قیادت کی ذمہ داری ایک بار پھر بابر اعظم کے سپرد کر دی گئی اور یہ بات کسی سے پوشیدہ نہیں کہ شاہین آفریدی کپتانی سے ہٹائے جانے سے قطعاً خوش نہیں تھے۔

کپتان کی تبدیلی کوئی انوکھا عمل نہیں۔ نتائج اور صورت حال کو مدنظر رکھ کر یہ تبدیلی عمل میں لائی جاتی ہے لیکن پاکستان کی کرکٹ میں یہ تبدیلی کئی بار تنازعات اور بغاوتوں کا سبب بن چکی ہے۔

آسٹریلیا کے سابق کپتان ای این چیپل نے ایک مرتبہ یہ بات کہی تھی، جو آج تک حوالے کے طور پر بیان کی جاتی ہے کہ پاکستان میں لوگ جتنی تیزی سے قمیص تبدیل نہیں کرتے، اتنی تیزی سے کپتان تبدیل ہوتے ہیں۔

اس وقت ذرائع ابلاغ اور سوشل میڈیا پر ہر جانب پاکستانی ٹیم کی ٹی 20 ورلڈ کپ میں مایوس کن کارکردگی کے بارے میں ہیڈ کوچ گیری کرسٹن اور اسسٹنٹ کوچ اظہرمحمود کی رپورٹس کا بڑا چرچا ہے، جن میں مبینہ طور پر ٹیم میں گروپنگ اور سب سے اہم بات فاسٹ بولر شاہین آفریدی کے ٹیم مینیجمنٹ کے ساتھ مبینہ نامناسب رویے کا بہت زیادہ ذکر ہو رہا ہے۔

ساتھ ہی ذرائع ابلاغ میں ٹیم کے سینیئر مینیجر وہاب ریاض اور مینیجر منصور رانا کی جانب سے صورت حال پر کنٹرول نہ ہونے کی باتیں بھی ہو رہی ہیں۔ اس کے علاوہ  ٹیم سلیکشن میں نقائص کے تذکرے بھی ہو رہے ہیں۔

وہاب ریاض کا سلیکشن کمیٹی سے ہٹایا جانا اس لیے بھی غیرمعمولی بات ہے کہ وہ پی سی بی کے چیئرمین محسن نقوی کے بہت قریب تھے۔

محسن نقوی جب پنجاب کے نگران وزیراعلیٰ تھے تو وہاب ریاض ان کی کابینہ میں بھی تھے اور جب محسن نقوی پی سی بی میں آئے تو اس وقت سے بھی وہاب ریاض ان کے بہت قریب اور دیگر سلیکٹرز کے مقابلے میں بہت زیادہ نمایاں نظر آتے رہے۔

نہ صرف یہ بلکہ انگلینڈ، آئرلینڈ اور ٹی 20 ورلڈ کپ کے دورے کے لیے وہ ٹیم کے سینیئر منیجر بھی بنائے گئے تھے۔

وہاب ریاض نے سلیکشن کمیٹی سے فارغ کیے جانے کے فیصلے پر اپنا ردعمل ٹویٹ کے ذریعے دیا ہے کہ سلیکشن کے فیصلے انہوں نے تنہا نہیں کیے لیکن وہ خود اس بات سے انکار نہیں کرسکتے کہ سات رکنی سلیکشن کمیٹی میں وہ چیف سلیکٹر نہ ہوتے ہوئے بھی سب سے بااختیار سلیکٹر سمجھے جاتے تھے۔ 

بابر اعظم اور شاہین آفریدی کے درمیان کپتانی کے معاملے میں یہ بات بھی نوٹ کرنے والی ہے کہ شاہد آفریدی بھی اس معاملے میں کسی سے پیچھے نہیں رہے ہیں اور وہ مستقل میڈیا پر بابر اعظم کی مخالفت میں بڑھ چڑھ کر بیان دیتے رہے ہیں۔

جیسا کہ شاہین آفریدی کو کپتانی سے ہٹا کر بابر اعظم کو کپتان بنائے جانے پر انہوں نے ٹویٹ کی کہ تجربہ کار کرکٹرز پر مشتمل سلیکشن کمیٹی کے فیصلے سے انہیں حیرانی ہوئی ہے، اگر کپتان کی تبدیلی اتنی ہی ضروری تھی تو پھر ان کے خیال میں محمد رضوان بہترین انتخاب تھے۔

ابھی چند روز قبل بھی انہوں نے دوبارہ بابر اعظم پر تنقید کا موقع ہاتھ سے نہیں جانے دیا۔

سوشل میڈیا پر وائرل ہونے والی ایک ویڈیو میں شاہد آفریدی یہ کہہ رہے ہیں کہ بابراعظم کو کپتانی کے جتنے مواقع مل چکے ہیں، اتنے مواقع کسی دوسرے کپتان کو نہیں ملے تھے لہذا اب کسی نئے کپتان کی تقرری ہونی چاہیے۔

مزید پڑھ

اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)

پاکستان کرکٹ بورڈ کے چیئرمین محسن نقوی کے لیے موجودہ صورت حال اس لیے بھی چیلنجنگ ہے کہ ایک جانب ان کی توجہ چیمپیئنز ٹرافی کے پاکستان میں انعقاد پر مرکوز ہے اور وہ سٹیڈیمز کی اپ گریڈیشن پر خاص توجہ دے رہے ہیں کہ یہ کام چیمپیئنز ٹرافی سے قبل مکمل ہوجائے لیکن دوسری جانب انہیں ٹیم کے اندرونی معاملات کو درست کرنے پر بھی اپنی توجہ مرکوز کرنی پڑ رہی ہے، جسے وہ سرجری کا نام دے کر کہہ چکے ہیں کہ غصے اور جذبات میں آکر فیصلے نہیں کیے جاتے، جس کا ثبوت وہاب ریاض اور عبدالرزاق کو ان کے عہدے سے ہٹائے جانے کا فیصلہ ہے، جس کے لیے انہوں نے ہیڈ کوچ گیری کرسٹن کی رپورٹ اور ان سے ملاقات کا انتظار کیا اور اس کے بعد وہ اس فیصلے تک پہنچے۔

ٹی 20 ورلڈ کپ میں پاکستانی ٹیم کی مایوس کن کارکردگی نے یقیناً ہر کسی کو مایوس کیا ہے لیکن سب سے بڑا دھچکہ یقینی طور پر ہیڈ کوچ گیری کرسٹن کو پہنچا ہے کیونکہ یہ ان کا پاکستان کے لیے پہلا اہم اسائنمنٹ تھا اور اس مایوس کن کارکردگی سے ان کی ساکھ یقینی متاثر ہوئی ہے اور وہ نہیں چاہیں گے کہ اس طرح کی صورت حال کا انہیں دوبارہ سامنا کرنا پڑے۔

مستقبل قریب میں پاکستان کو چیمپیئنز ٹرافی کی میزبانی بھی کرنی ہے اور اپنے اعزاز کا دفاع بھی کرنا ہے۔

پاکستانی کرکٹ ٹیم کی ون ڈے مصروفیت فی الحال نہیں ہیں۔ اسے بنگلہ دیش، انگلینڈ اور پھر ویسٹ انڈیز سے ٹیسٹ سیریز کھیلنی ہے۔

پاکستان کی ٹیسٹ ٹیم کی کپتانی پہلے سے شان مسعود کے سپرد ہےاور ریڈ بال ہیڈ کوچ جیسن گلیسپی پُر امید ہیں کہ ٹیم ان میچوں میں اچھی کارکردگی کا مظاہرہ کرے گی لیکن اس وقت پاکستان کی کرکٹ کو جس صورت حال کا سامنا ہے، اسے اس سے فوراً نکلنا ہوگا کیونکہ یہ ٹیم کے لیے اچھی نہیں ہے۔

پاکستان کرکٹ کا کوئی بھی معاملہ متنازع بن جائے اور ہیڈ لائن میں آجائے سوشل میڈیا پر طوفان مچ جاتا ہے اور ہر شخص چاہے اس نے زندگی بھر ٹیپ بال کرکٹ بھی نہ کھیلی ہو، وہ ایسے تبصرے اور باتیں کرنا شروع کردیتا ہے کہ جیسے اس سے بڑا کوئی ایکسپرٹ نہیں۔

اس پورے معاملے کا اہم پہلو یہ بھی ہے کہ ہمارے بہت سے سپورٹس جرنلسٹس بھی میدان میں ایسے چھلانگ مارتے ہیں کہ وہ یہ بھول جاتے ہیں کہ وہ صحافی ہیں نہ کہ کسی مخصوص کھلاڑی کے پبلک ریلیشنز آفیسر، جس کی شان میں وہ بڑھ چڑھ کر قصیدے پڑھ رہے ہوتے ہیں اور جو کھلاڑی انہیں پسند نہیں اس کے خلاف تبصروں اور تجزیوں میں وہ اخلاقی اور صحافتی حدوں کو پار کرجاتے ہیں۔

اس وقت شاہین آفریدی اور بابر اعظم کے معاملے میں بھی ہمیں ایکس وغیرہ پر یہی کچھ دیکھنے کو مل رہا ہے۔ ایک طرف فینز اپنی ’قابلیت‘ کا بھرپور مظاہرہ کر رہے ہیں تو دوسری جانب میڈیا بھی پسند، ناپسند حمایت اور مخالفت کی بنیاد پر منقسم  نظر آتا ہے۔

نوٹ: یہ تحریر کالم نگار کی ذاتی آرا پر مبنی ہے، جس سے انڈپینڈنٹ اردو کا متفق ہونا ضروری نہیں۔

whatsapp channel.jpeg

زیادہ پڑھی جانے والی نقطۂ نظر