انگلینڈ سے شکستوں کے انبار لیے پاکستانی کرکٹ ٹیم امریکہ روانہ

جب ٹیم برمنگھم کا میچ ہاری تو صاحبان اقتدار و اختیار نے موسم اور کنڈیشنز کے ساتھ نا آشنائی قرار دے کر احتساب سے پیچھا چھڑوا لیا، لیکن آخری میچ میں اوول میں یکطرفہ اور شرمناک شکست نے پوری ٹیم کی کارکردگی کی قلعی اتار دی۔ 

پاکستان کے محمد رضوان (دائیں) 30 مئی 2024 کو لندن کے اوول کرکٹ گراؤنڈ میں انگلینڈ اور پاکستان کے درمیان چوتھے ٹی ٹوئنٹی بین الاقوامی کرکٹ میچ کے دوران انگلینڈ کے عادل رشید کے ہاتھوں بولڈ ہونے پر ردعمل ظاہر کرتے ہوئے (گلین کرک/ اے ایف پی) 

ٹی ٹوئنٹی ورلڈکپ سے قبل انگلینڈ کے ساتھ پاکستان کرکٹ ٹیم کے لیے چار میچوں پر مشتمل سیریز یہ سوچ کر رکھی گئی تھی کہ ورلڈ کپ کے لیے ٹیم رواں ہوجائے گی اور میگا ایونٹ میں بڑے مقابلوں سے پہلے موجودہ چیمپیئن کے خلاف اس کی کارکردگی میں بہتری آئے گی، لیکن دور اندیشوں کی یہ کوشش ناقابل فراموش شکستوں کے مزید باب رقم کر گئی۔

اگرچہ سیریز میں بارش نے کسی حد تک گرین شرٹس کو مکمل ہزیمت سے بچالیا لیکن کھیلے گئے فقط دو میچ بھی مداحوں کو مایوس کرگئے۔

جب ٹیم برمنگھم کا میچ ہاری تو صاحبان اقتدار و اختیار نے موسم اور کنڈیشنز کے ساتھ نا آشنائی قرار دے کر احتساب سے پیچھا چھڑوا لیا، لیکن آخری میچ میں اوول میں یکطرفہ اور شرمناک شکست نے پوری ٹیم کی کارکردگی کی قلعی اتار دی۔ 

زنگ آلود صلاحیتوں نے جس نااہلی کا منظر پیش کیا، اس نے لندن کے قلب میں تاریخی اوول گراؤنڈ میں جمعرات کی شب مداحوں کو اس حد تک رنجیدہ کر دیا کہ بابر اعظم سمیت پوری ٹیم کے لیے ناقابل بیان الفاظ استعمال کیے جا رہے تھے۔

 18 افراد پر مشتمل کوچنگ سٹاف بڑے بڑے نام جمع کرنے کے علاوہ کچھ نہیں کرسکا۔ اپنے دور میں اندرون خانہ سازشوں کا جال بننے والے ایک معروف بلے باز جب سے پاکستان ٹیم کے کوچ بنے ہیں، اچھے بھلے بلے باز بھی اپنی لائن سے اکھڑ گئے ہیں۔

اوول جو ہمیشہ سے پاکستان کے لیے خوش قسمت اور مہربان میدان رہا ہے۔  وہ بھی اپنی بھرپور کوشش کے باوجود اس سیریز میں بدترین کارکردگی کے سامنے ہتھیار ڈال گیا۔ 

مزید پڑھ

اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)

اوول میں ایک ایسی پچ، جس پر گیند بلے پر اس قدر شاندار آ رہی تھی کہ آپ کو بس درست وقت پر بلا گیند کے سامنے رکھنا ہو اور چوکوں چھکوں کی برسات کر دیں، وہاں مارک ووڈ اور آرچر کی فاسٹ بولنگ کھیلنا مصیبت بن گیا تھا۔ 

صبح سے بارش اور گہرے بادلوں کے باعث انگلینڈ کے جوز بٹلر کا ٹاس جیت کر پاکستان کو بیٹنگ کروانا ایک عام سا دانش مندانہ فیصلہ تھا، لیکن ووڈ کی تیز گیندوں سے ڈرے سہمے پاکستانی بلے بازوں کو زیادہ زک ایک لیگ سپنر عادل رشید نے پہنچائی۔ ان کی عام سی لیگ سپن پر محمد رضوان اور شاداب خان آؤٹ ہوئے، جس نے 25 ہزار تماشائیوں کو حیران کر دیا۔

پاکستان نے اگرچہ پہلی دفعہ پاور پلے میں ایک اچھی بنیاد رکھی۔ جب صائم ایوب کی جگہ بابر دوبارہ اوپنر آئے۔ صائم کی جگہ عثمان خان کو ملی، جنہوں نے کسی حد تک بہتر بلے بازی کی لیکن ان تینوں کے بعد پاکستانی بیٹنگ سوکھے پتوں کی طرح اڑ گئی۔

پہلے 10 اوورز میں 90 رنز بنانے والی ٹیم اگلے 10 اوورز صرف 67 رنز بنا سکی۔

بیٹنگ کے بعد پاکستانی بولنگ بھی انگلش بلے بازوں کے ہاتھوں رہی سہی کسر کھو بیٹھی اور محض آٹھ اوورزمیں 100 رنز نے پاکستانی بولنگ کو نیپالی بولنگ بنا دیا۔

محمد عامر اور نسیم شاہ کی بولنگ کی وہ درگت بنی کہ شاید خواب میں بھی سالٹ اور بٹلر نظر آئیں گے۔

قصہ مختصر، یہ سیریز بے عزتی کے نئے باب رقم کر گئی۔ میچ کے بعد کپتان جوز بٹلر نے سادہ الفاظ میں جیت کا محور ’بے خوف بیٹنگ‘ کو قرار دیا۔ 

ٹیم پر بوجھ اعظم خان

پاکستان ٹیم کی مینجمنٹ بھی نرالی ہے۔ ایک طرف فٹنس کے لیے فوجیوں کی مدد لیتی ہے جبکہ دوسری طرف وزن کی زیادتی کے شکار اعظم خان کو سینے سے لگا کر رکھتی ہے۔

اعظم خان جنہیں ٹیم میں ویوین رچرڈز سمجھ کر رکھا گیا ہے، وہ بیٹنگ کے دلیپ دوشی ثابت ہو رہے ہیں۔ غلط تکنیک اور سست الوجود ہونے کے باعث جس طرح وہ اوول میں مارک ووڈ کی گیند پر آؤٹ ہوئے، اس نے سب کو حیران کر دیا ہے۔

ایک عام سے باؤنسر پر اس طرح آؤٹ ہوکر اعظم خان نے ثابت کر دیا کہ وہ کلب کرکٹر کے سوا کچھ نہیں ہیں۔

اسی طرح شاداب خان بھی فارم کھو جانے کے باوجود ٹیم پر بوجھ بن چکے ہیں۔

اگلا ہدف امریکی میدان

پاکستانی ٹیم ٹی ٹوئنٹی ورلڈکپ میں اپنے سفر کا آغاز ٹیکساس کے صحرائی شہر ڈیلاس سے چھ جون کو کرے گی۔ سامنے میزبان امریکہ کی ٹیم ہوگی جس نے بنگلہ دیش کو باہمی سیریز میں شکست دے کر بابر اعظم کی نیندیں اڑا دی ہیں۔  نیوزی لینڈ کے سابق آل راؤنڈر کوری اینڈرسن اب امریکی شہریت اختیار کرکے ٹیم کا حصہ ہیں۔ ٹیم میں علی خان سمیت کئی ایسے کھلاڑی ہیں جو پاکستان کو سخت وقت دے سکتے ہیں۔ پاکستان کی موجودہ بے ربط اور متزلزل بیٹنگ لائن کے لیے تو یہ میچ بھی کانٹوں کی سیج بن سکتا ہے۔

کیا امریکہ کی غیر روایتی کرکٹ پچوں پر روایتی کرکٹ ہوسکے گی؟

2007  میں جنوبی افریقہ سے شروع ہونے والا ٹی ٹوئنٹی کرکٹ ورلڈ کپ ساری دنیا کا چکر لگا کر امریکہ پہنچ گیا ہے۔  امریکہ سیاسی طور پر جتنا طاقتور اور دنیا کی حکمرانی کا دعوے دار ہے۔ کھیلوں کے مقابلوں میں اتنا ہی پیچھے نظر آتا ہے۔ اگرچہ باسکٹ بال، امریکن فٹ بال، ریسلنگ اور باکسنگ وغیرہ میں امریکہ بہت آگے ہے لیکن دنیا میں سب سے زیادہ دیکھے جانے والے سپورٹس فٹ بال اور کرکٹ میں وہ ابھی تک بہت پیچھے ہے۔

کرکٹ کے پہلے انٹرنیشنل میچ کے اعزاز کے باوجود امریکہ میں کرکٹ پنپ نہیں سکی ہے۔ ایشیائی اور کیریبئین ممالک کے کرکٹ شائقین کے باعث وہاں کرکٹ کسی حد تک مقبول تو ہے لیکن ایک موثر انفرا سٹراکچر کا ابھی تک کوئی وجود نہیں ہے۔ 

چونکہ جنوبی ریاستوں میں موسم کرکٹ کے لیے زیادہ دوستانہ رہتا ہے، اس لیے ٹیکساس اور فلوریڈا میں کرکٹ باقاعدگی سے کھیلی جاتی ہے۔ 

دونوں مقامات پر باقاعدہ انفرا سٹرکچر نہ ہونے کے باعث ورلڈکپ کے میچوں کا معیار بدترین ہوگا جبکہ نیویارک کا سٹیٹ آف سی آرٹ سٹیڈیم ابھی تک گھونگھٹ کی آڑ میں ہے۔ 

ڈیلاس اور لاؤڈر ہل (فلوریڈا) کے گراؤنڈز چھوٹے ہیں اور یہاں کی پچیں بیٹنگ کے لیے جنت ہوں گی۔ اگرچہ امریکہ اور بنگلہ دیش کے میچوں میں بولرز چھائے رہے، لیکن اب آئندہ میچوں میں پچ پر گھاس ہوگی اور نہ تیزی۔  

نیویارک کی پچ جس کی مٹی ایڈیلیڈ، آسٹریلیاسے لائی گئی ہے اور اسے ایک آسٹریلین کمپنی نے تیار کیا ہے، وہ فلوریڈامیں تیار ہو کر نیویارک پہنچ چکی ہے۔  ماہرین کو اس پچ میں تغیر نظر آتا ہے۔ شاید اس پر سپنرز کامیاب ہوں۔ نیویارک کا گراؤنڈ بھی چھوٹا ہے اور انتظامی ڈھانچہ کم سن اور ناتجربہ کار ہے۔

پاکستان ٹیم کی گذشتہ ایک سال کی خراب ترین کارکردگی پر اوول میچ کے بعد کپتان بابر اعظم صرف اپنے دورِ کپتانی کادفاع کرتے نظر آئے، لیکن وہ اعظم خان اور شاداب خان کی مسلسل شمولیت پر جواب نہ دے سکے۔

امریکہ اور ویسٹ انڈیز میں ٹیم کون سے نئے گل کھلاتی ہے، اس کے لیے سب کی امیدیں بہت کم ہیں، مگر برے آغاز کے باوجود پاکستان ٹیم اپنے ہر ٹی ٹوئنٹی ورلڈکپ میں سیمی فائنلز تک پہنچ جاتی ہے۔

خراب کارکردگی کے باوجود اس ’قدرت کے نظام‘ نے ٹیم کو کس حد تک سست اور کاہل بنا دیا ہے، اس کا جواب تو سب کو پہلے سے معلوم ہے لیکن ایک سال میں چار چیئیرمین بدلنے والے پی سی بی کو ابھی تک آشنائی نہیں ہے۔

whatsapp channel.jpeg

زیادہ پڑھی جانے والی کرکٹ