امریکی صدر جو بائیڈن کا کرونا ٹیسٹ بدھ کو مثبت آیا ہے، تاہم ان میں علامات معمولی ہیں۔ ٹیسٹ کے فوری بعد انہوں نے تسلیم کیا کہ اگر ڈاکٹروں نے ان کی سنگین طبی حالت کی تشخیص کی تو وہ صدارتی الیکشن کی دوڑ سے باہر ہونے پر غور کریں گے۔
امریکی صدر نے جمعرات کو اپنے ایکس اکاؤنٹ پر مختصر سی ٹویٹ میں لکھا: ’میں بیمار ہوں۔‘
پاکستانی وزیراعظم شہباز شریف نے اپنے پیغام میں ’امریکی صدر جو بائیڈن کی کووڈ سے جلد اور مکمل صحت یابی کے لیے نیک خواہشات‘ کا اظہار کیا۔
خبر رساں ایجنسی اے ایف پی کے مطابق 81 سالہ ڈیموکریٹ امیدوار نے کرونا ٹیسٹ مثبت آنے کے بعد لاس ویگاس میں اپنی انتخابی مہم مختصر کی اور ڈیلاویئر کے ساحل پر واقع اپنے گھر میں آئیسولیشن میں چلے گئے۔ اس موقعے پر انہوں نے صحافیوں سے کہا: ’میں اچھا محسوس کر رہا ہوں۔‘
جو بائیڈن نے ایکس پر خیر خواہوں کا شکریہ ادا کرتے ہوئے کہا: ’میں صحت یابی کے دوران خود کو الگ تھلگ رکھوں گا اور اس دوران امریکی عوام کے لیے کام کرتا رہوں گا۔‘
امریکی صدر کا کرونا ٹیسٹ ایک ایسے وقت میں مثبت آیا ہے، جب رپبلکن حریف ڈونلڈ ٹرمپ کے خلاف مباحثے میں خراب کارکردگی نے ان کی صحت کے بارے میں خدشات کو جنم دیا اور کچھ ڈیموکریٹس نے مطالبہ کیا کہ وہ الیکشن سے باہر ہو جائیں۔
یہ وائٹ ہاؤس کے لیے پہلے سے جاری ہنگامہ خیز دوڑ میں تازہ ترین پیش رفت ہے، جب کچھ دن قبل ہی ڈونلڈ ٹرمپ اپنی ایک انتخابی ریلی میں قاتلانہ حملے میں بال بال بچ گئے تھے۔
ٹیسٹ مثبت آنے کے بعد جو بائیڈن کو مبجوراً لاطینی مزدوروں، جو ان کی انتخابی مہم کے لیے اہم ہوں گے، کی نمائندگی کرنے والی ایک یونین سے خطاب منسوخ کرنا پڑا۔ انہوں نے اسی دن ایک انتخابی تقریب میں شرکت کی تھی اور ایک ریڈیو انٹرویو بھی دیا تھا۔
امریکی صدر کی ترجمان کیرین جین پیئر نے کہا کہ جو بائیڈن کو ویکسین اور بوسٹر لگا دیا گیا تھا، وہ اب کوویڈ 19 کی دوا پیکسلوویڈ لے رہے ہیں اور آئسولیشن میں رہتے ہوئے بھی ’اپنے فرائض مکمل طور پر انجام دے رہے ہیں۔‘
وائٹ ہاؤس کے ڈاکٹر کیون او کونر کا کہنا تھا کہ جو بائیڈن نے ناک بہنے، کھانسی اور ’بے چینی‘ کی شکایت کی تھی اور انتخابی مہم میں شرکت کے بعد ان کا ٹیسٹ مثبت آیا تھا۔
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
کیون اوکونر نے مزید کہا کہ ان میں علامات معمولی ہیں اور سانس کی شرح، درجہ حرارت اور خون میں آکسیجن کی سطح سب نارمل ہیں۔
امریکی صدر جو بائیڈن کو (کرونا ٹیسٹ مثبت آنے کے بعد) لاس ویگاس میں اپنی لیموزین سے بغیر ماسک کے اپنے طیارے تک جاتے ہوئے دیکھا گیا تھا۔ جب ان سے پوچھا گیا کہ وہ کیسا محسوس کرتے ہیں تو انہوں نے کہا: ’اچھا، میں اچھا محسوس کر رہا ہوں۔‘
لاطینی مزدوروں کے لیے یونیڈوس یونین کی صدر جینیٹ مرگویا نے وائٹ ہاؤس کے اعلان سے کچھ دیر قبل شرکا کو امریکی صدر میں کرونا کی تشخیص کے بارے میں بتایا۔
ان کا کہنا تھا: ’میں نے ابھی صدر بائیڈن سے فون پر بات کی اور انہوں نے آج سہ پہر ہمارے ساتھ شامل نہ ہونے پر اپنی مایوسی کا اظہار کیا۔‘
امریکی صدر کی تقریر کا انتظار کرنے والے لوگوں کا کہنا تھا کہ کرونا کی تشخیص کے باوجود وہ جو بائیڈن کی صحت سے پریشان نہیں ہیں۔
این ولاگوٹ نے اے ایف پی کو بتایا کہ ’میرے خیال میں وہ مضبوط ہیں اور جلد ہی صحت یاب ہو جائیں گے۔‘
لیکن بائیڈن کی بیماری ایک ایسے وقت میں سامنے آئی ہے جب امریکی تاریخ کے سب سے عمر رسیدہ امریکی صدر کی صحت کے بارے میں خدشات شدت اختیار کر گئے ہیں۔
منگل کو لاس ویگاس میں ایک ریڈیو انٹرویو کے دوران جب ان سے پوچھا گیا کہ وہ کونسی سے چیز ہے، جس کے باعث وہ صدارتی الیکشن کی دوڑ پر دوبارہ غور کر سکتے ہیں تو بائیڈن نے کہا: ’اگر مجھ میں کوئی ایسا طبی مسئلہ سامنے آ جائے، اگر کوئی، اگر ڈاکٹر آ کر یہ کہیں کہ ’آپ کو یہ مسئلہ ہے، وہ مسئلہ ہے۔‘
جو بائیڈن نے اب تک صدارتی الیکشن کی دوڑ سے باہر ہونے سے انکار کیا ہے اور ٹرمپ سے اپنے مباحثے، جس کے دوران وہ تھکے ہوئے اور الجھن کا شکار دکھائی دے رہے تھے، کی ناکامی کا الزام شدید زکام اور جیٹ لیگ پر ڈال دیا۔
تاہم انہیں بدھ کو اس وقت بڑا دھچکا لگا جب اب تک کے سب سے ہائی پروفائل ڈیموکریٹ رکن ایڈم شف نے بائیڈن پر زور دیا کہ وہ ’(صدارتی امیدوار کی) مشعل کسی اور کو تھما دیں۔‘
لاس اینجلس ٹائمز کو دیے گئے ایک بیان میں شیف نے کہا کہ ٹرمپ کی دوسری صدارت ہماری جمہوریت کی بنیاد کو کمزور کر دے گی اور مجھے اس بارے میں شدید تشویش ہے کہ آیا صدر جو بائیڈن نومبر میں ڈونلڈ ٹرمپ کو شکست دے سکتے ہیں یا نہیں۔
اس کے بعد امریکی نشریاتی ادارے اے بی سی نیوز نے خبر دی تھی کہ سینیٹ میں ڈیموکریٹک پارٹی کے اکثریتی رہنما چک شومر نے بائیڈن سے کہا تھا کہ ’اگر وہ دستبردار جائیں تو یہ ملک کے لیے بہتر ہوگا۔‘
تاہم چک شومر کے ایک ترجمان نے اس رپورٹ کو مسترد کرتے ہوئے کہا کہ ’جب تک اے بی سی کا سورس سینیٹر چک شومر یا صدر جو بائیڈن نہیں ہیں، یہ رپورٹنگ محض قیاس آرائیاں ہیں۔‘
انہوں نے مزید کہا کہ ’شومر نے ہفتے کو اپنے گروپ کے خیالات براہ راست صدر بائیڈن کو پہنچائے۔‘
دریں اثنا بائیڈن کی انتخابی مہم نے صدر کی بیماری کو چندہ جمع کرنے کا موقع بنا لیا۔ ان کے ایکس اکاؤنٹ سے کہا گیا کہ ’میں بیمار ہوں‘ اور پھر کہا گیا: ’ایلون مسک اور ان کے امیر دوست اس الیکشن کو خریدنے کی کوشش کر رہے ہیں۔‘
ایلون مسک نے ہفتے کو کہا تھا کہ وہ پنسلوینیا میں ایک ریلی میں قتل کی کوشش کے بعد ٹرمپ کی حمایت کر رہے ہیں۔
جو بائیڈن کا اصرار ہے کہ ڈیموکریٹک ووٹرز ان کی حمایت کرتے ہیں لیکن ایسوسی ایٹڈ پریس اور این او آر سی سینٹر فار پبلک افیئرز ریسرچ کے ایک سروے سے پتہ چلا ہے کہ تقریباً دو تہائی ووٹرز چاہتے ہیں کہ وہ الیکشن کی دوڑ سے باہر ہو جائیں۔