امریکہ میں صدارتی انتخابات کے سلسلے میں پہلے مباحثے کے دوران صدر جو بائیڈن اور سابق صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے ایک دوسرے کو شدید تنقید کا نشانہ بناتے ہوئے چند وعدے اور دعوے کیے جن پر اب طرح طرح کے تبصرے کیے جا رہے ہیں۔
مباحثے کے دوران صدر بائیڈن کو کئی بار اپنے مدمقابل ڈونلڈ ٹرمپ کی جانب سے شدید تنقید کا سامنا کرنا پڑا جس کے باعث وہ دفاعی پوزیشن لینے پر مجبور ہو گئے۔
جبکہ ایک موقعے پر ٹرمپ نے بائیڈن پر حماس کے خلاف اسرائیل کی ’مکمل مدد‘ نہ کرنے کا بھی الزام عائد کیا۔
خبر رساں ادارے اے ایف پی کے مطابق ڈونلڈ ٹرمپ نے امریکی صدر کو سخت تنقید کا نشانہ بناتے ہوئے انہیں معاشی اور عالمی سطح پر ناکام قرار دیا۔
بائیڈن نے ٹرمپ کو بھرپور جواب دینے کی کوشش تو کی لیکن وہ ہچکچاتے رہے کیونکہ وہ دھیمی اور مدھم آواز میں تیزی سے بولتے ہوئے کئی بار اپنے ہی الفاظ میں الجھے رہے۔
امریکی تاریخ میں یہ کسی صدر اور سابق صدر کے درمیان پہلی بحث تھی اور دونوں نے اس مباحثے کے دوران ایک دوسرے پر تاریخ کا بدترین صدر ہونے الزام عائد کیا۔
ٹرمپ اور بائیڈن، جو پہلی بار منتخب ہوتے وقت سب سے عمر رسیدہ امریکی صدر تھے، نے ایک دوسرے پر ’بچوں جیسا‘ ہونے کا الزام بھی لگایا۔
اٹلانٹا میں سی این این ہیڈ کوارٹر میں اپنے پوڈیم پر جاتے ہوئے81 سالہ بائیڈن اور 78 سالہ ٹرمپ نے ہاتھ نہیں ملایا۔
ان کے سامنے لوگ موجود نہیں تھے اور جب ایک امیدوار بولتا تو دوسرے کا مائیکروفون بند رہتا تھا۔ ان قوانین پر اس وقت اتفاق کیا گیا تھا جب انہوں نے اپنی مہم شروع کی تھی۔
جو بائیڈن نے ٹرمپ کو واضح طور پر تنقید کا نشانہ بناتے ہوئے لاکھوں ٹیلی ویژن ناظرین کو یاد دلانے کی کوشش کی کہ ’ٹرمپ وائٹ ہاؤس میں سزا یافتہ مجرم ہوں گے۔‘
بائیڈن نے کہا کہ ’آپ خود کو ملنے والی تمام سول سزاؤں کے بارے میں سوچیں۔
’عوامی مقامات پر ایک خاتون کے ساتھ دست درازی کرنے اور جب آپ کی بیوی حاملہ تھی ایک پورن سٹار کے ساتھ جنسی تعلقات قائم کرنے پر سول جرمانے کی مد میں آپ پر کتنے ارب ڈالر واجب الادا ہیں؟‘
بائیڈن نے کہا کہ ’آپ کی اخلاقیات انتہائی گھٹیا ہیں۔‘
ریلیوں اور رئیلٹی ٹیلی ویژن کے ماہر ٹرمپ نے بائیڈن کے ریکارڈ پر شکایات کی طویل فہرست با آواز بلند بیان کی۔
صدارتی امیدواروں کے درمیان اس مباحثے کے بعد امریکی جریدے یو ایس اے ٹوڈے نے اپنے آرٹیکل میں صدر بائیڈن کی عمر کے حوالے سے خدشات کا اظہار کرتے ہوئے لکھا ہے کہ ’بائیڈن کے حوالے سے پہلے ہی کہا جا رہا ہے کہ وہ اپنی دوسری مدت کے لیے بہت ضعیف العمر ہیں۔‘
جریدے کے مطابق ٹرمپ نے مباحثے کے دوران زیادہ طاقت کا مظاہرہ کیا جبکہ بائیڈن کئی بار جواب دیتے ہوئے رکتے رہے۔
صدارتی تاریخ دان اور بوسٹن یونیورسٹی کے پروفیسر تھامس ویلن کا کہنا ہے کہ ’بائیڈن اپنی عمر کے حساب سے ہی بات کر رہے تھے‘ جبکہ ٹرمپ ’زیادہ کنٹرول میں دکھائی دیے اور اپنی بات چیت پر توجہ مرکوز کیے رہے۔‘
یونیورسٹی آف مشی گن ڈیبیٹ پروگرام کے ڈائریکٹر آرون کل کا کہنا ہے کہ ’بائیڈن کے بار بار رکنے سے ان کی عمر اور فٹنس کے بارے میں لامتناہی خبروں کا سلسلہ شروع ہو سکتا ہے۔‘
دونوں امیدواروں کے ’جھوٹے دعوے‘
رٹگرز ایگلٹن سینٹر فار پبلک انٹرسٹ پولنگ کے ڈائریکٹر ایشلے کوننگ کا کہنا ہے کہ ’حقائق اور سچائی‘ کو اس رات سب سے زیادہ نقصان اٹھانا پڑا۔
ٹرمپ اور بائیڈن دونوں نے بحث کے دوران جھوٹے تبصرے کیے جن پر منتظمین نے کافی حد تک قابو نہیں پایا۔
ٹرمپ نے یہ جھوٹا دعویٰ دہرایا کہ چھ جنوری 2020 کو امریکی کیپیٹل پر ہونے والا حملہ ایوان نمائندگان کی سابق سپیکر نینسی پلوسی کی غلطی تھی۔
ٹرمپ نے دعویٰ کیا کہ انہوں نے پلوسی کو حملے کو روکنے کے لیے ’10 ہزار فوجیوں‘ کی پیش کش کی تھی۔
تاہم پیلوسی کے دفتر نے کہا ہے کہ انہیں ایسی کوئی پیش کش کبھی نہیں ملی اور نہ ہی ان کے پاس کسی بھی طرح سے انکار کرنے کا اختیار ہوتا۔
مباحثے کے دوران صدر بائیڈن نے بھی غلط دعوے کیے۔ ایک موقع پر، انہوں نے دعوی کیا کہ وہ ’اس صدی کے واحد صدر ہیں جن کے دور صدارت میں دنیا میں کہیں بھی کوئی امریکی فوجی ہلاک نہیں ہوا۔‘
سنہ 2021 میں بائیڈن کی صدارت کے دوران افغانستان میں ہونے والے ایک خودکش حملے میں 13 امریکی فوجی مارے گئے تھے جب ہزاروں افراد طالبان کے ملک پر قبضے سے فرار ہونے کی کوشش کر رہے تھے۔
’ٹرمپ نومبر میں جیت جائیں گے‘
برطانوی جریدے دی ٹیلی گراف نے اس مباحثے پر ماہرین کے تبصرے شائع کیے ہیں جن میں سے اکثریت کے مطابق اس میں ٹرمپ کا پلڑا بھاری دکھائی دیا۔
لکھاری ٹم سٹینلی نے لکھا کہ ’اب مجھے یقین ہے نومبر میں ٹرمپ جیت جائیں گے۔‘
ان کا کہنا ہے کہ ’بائیڈن نے اس بحث کے دوران ووٹرز کو ٹرمپ کی انتہا پسندی یاد دلانی تھی لیکن وہ اس میں اپنی ذہنی صورت حال کو ظاہر کر بیٹھے۔‘
ان کے مطابق: ’ٹرمپ کی بھی غلطیاں ہو سکتی ہیں لیکن انہوں نے اپنی کامیابیوں کو حد سے بڑھ کر بتایا جبکہ بائیڈن کی ناکامیوں کو بھی خوب بڑھا چڑھا کر پیش کیا۔‘
لکھاری ٹونی ڈائیور نے پہلے صدارتی مباحثے کو صدر بائیڈن کے لیے ایک سانحہ قرار دیا ہے۔
ان کا کہنا ہے کہ ’وائٹ ہاؤس کا عملہ گذشتہ تین ہفتے سے صدر کی عمر کے حوالے سے دعوے کرتا رہا ہے کہ اس حوالے سے سامنے آنے والی خبریں جھوٹی اور گھٹیا ہیں۔
’لیکن اس مباحثے کو دیکھنے والے افراد ایک غیر منقسم نتیجے پر پہنچ چکے ہیں کہ صدر بائیڈن اپنے آپ کو سنبھال نہیں سکے جبکہ ٹرمپ نے ان کو بھرپور انداز میں تنقید کر کے دفاع پر مجبور کیا۔
بائیڈن اسرائیل کی مکمل مدد نہیں کر رہے: ٹرمپ کا الزام
مباحثے کے دوران ٹرمپ نے بائیڈن پر الزام عائد کیا کہ وہ حماس کے خلاف ’کام مکمل کرنے‘ میں اسرائیل کی مدد نہیں کر رہے۔
صدر بائیڈن کو اسرائیل کی حمایت پر کچھ ڈیموکریٹک حلقوں اور ووٹرز کی جانب سے ردعمل کا سامنا ہے۔
ٹرمپ نے کہا کہ ’وہ (بائیڈن) ایسا نہیں کرنا چاہتے۔ وہ ایک فلسطینی جیسے بن گئے ہیں لیکن وہ اسے پسند نہیں کرتے کیونکہ وہ بہت برے فلسطینی ہیں، وہ کمزور ہیں۔‘
ٹرمپ نے بائیڈن کے افغانستان سے انخلا کو ’اپنے ملک کی تاریخ کا سب سے شرمناک لمحہ‘ قرار دیا اور کہا کہ اس سے روس کو یوکرین پر حملہ کرنے کی ترغیب ملی۔
تاہم بائیڈن نے کہا کہ وہ پہلے صدر ہیں جن کے دور میں بیرون ملک فوجیوں کو کوئی خطرہ نہیں ہے۔
ٹرمپ اور بائیڈن کے درمیان اسقاط حمل اور امیگریشن کے معاملے پر بھی محاذ آرائی ہوئی، جو ان کے ووٹرز اور اہم حلقوں کے لیے اہم مسائل ہیں۔
بائیڈن نے ملک بھر میں اسقاط حمل کے حقوق کی اجازت دینے والے فیصلے کو ختم کرنے والے ججوں کی سپریم کورٹ میں تقرری پر ٹرمپ کو تنقید کا نشانہ بناتے ہوئے کہا: ’یہ ایک خوفناک چیز ہے، جو آپ نے کی ہے۔‘
ٹرمپ نے کہا کہ ’گذشتہ چار سالوں میں ہمارے ملک کے ساتھ جو کچھ ہوا ہے وہ شرمناک ہے۔ میرے بہت سے دوست ہیں انہیں یقین نہیں کہ امریکہ کے ساتھ کیا ہوا۔ اب ہمارا احترام نہیں کیا جاتا۔‘
ایک موقع پر ٹرمپ نے بائیڈن کے انداز گفتگو پر تنقید کرنے کی کوشش کرتے ہوئے کہا کہ’میں واقعی نہیں جانتا کہ انہوں نے اس جملے کے آخر میں کیا کہا تھا۔ مجھے نہیں لگتا کہ وہ بھی جانتے ہیں کہ انہوں نے کیا کہا۔‘
بائیڈن کی کارکردگی پر تشویش
کچھ ڈیموکریٹک حامیوں نے فوری طور پر بائیڈن کی کارکردگی کے بارے میں تشویش کا اظہار کیا ہے۔
سان فرانسسکو میں ایک واچ پارٹی میں ہیزل ریٹز نے کہا کہ وہ اب بھی بائیڈن کو ووٹ دیں گی لیکن ان کا کہنا تھا کہ ’میں ان کے کہے ہوئے ایک لفظ کو بھی نہیں سمجھ سکتی۔ کیا یہ افسوسناک نہیں ہے؟‘
پرنسٹن یونیورسٹی میں تاریخ کے پروفیسر جولین زیلیزر نے کہا کہ بائیڈن کے حامی ’انتہائی فکرمند‘ ہوں گے۔
ان کا کہنا تھا کہ ’بائیڈن نے اس بنیادی تاثر کو ہوا دی جو ان پر چھایا ہوا ہے۔‘
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
بائیڈن کی سابق کمیونیکیشن ڈائریکٹر کیٹ بیڈنگ فیلڈ نے اعتراف کیا کہ صدر کی جانب سے ’مباحثے کی یہ واقعی مایوس کن کارکردگی تھی۔‘
مباحثے کے بعد انہوں نے سی این این کو بتایا کہ 'مجھے نہیں لگتا کہ اسے بیان کرنے کا کوئی دوسرا طریقہ ہے۔‘
جب بائیڈن سے مہنگائی کے بارے میں پوچھا گیا تو انہوں نے فوری طور پر ٹرمپ کو تنقید کا نشانہ بناتے ہوئے کہا کہ انہیں ’گرتی ہوئی‘ معیشت وراثت میں ملی تھی۔
ٹرمپ نے کہا کہ انہوں نے ’اپنے ملک کی تاریخ کی سب سے بہترین معیشت‘ کی قیادت کی۔ ہم نے کبھی اتنا اچھا کام نہیں کیا۔ ہر کوئی حیران تھا کہ دوسرے ممالک ہماری نقل کر رہے ہیں۔‘
جو بائیڈن جواب دیا کہ ’دنیا کی سب سے بڑی معیشت؟ یہ واحد شخص ہے جو ایسا سوچتا ہے.‘
ذاتی نوعیت کی تنقید میں سے ایک میں، بائیڈن نے ان واقعات کا حوالہ دیا کہ ٹرمپ نے نارمنڈی لینڈنگ میں مرنے ہونے والے فوجیوں کو ’سکرز‘ قرار دیا تھا اور اپنے بیٹے بیو کا ذکر کیا، جو عراق میں خدمات انجام دے چکا تھا اور بعد میں کینسر کی وجہ سے چل بسا۔
بائیڈن نے کہا کہ ’میرا بیٹا ناکام نہیں تھا، ہارا ہوا نہیں تھا۔ تم ہارے ہوئے ہو۔ تم ناکام ہو۔‘
صدارتی ریس میں شامل تیسرے معروف امیدوار ایک مشہور سیاسی خاندان کے رکن رابرٹ ایف کینیڈی جونیئر اس مباحثے کے دوران سٹیج پر نہیں تھے۔
وہ اسٹیبلشمنٹ مخالف مہم چلا رہے ہیں، لیکن پولز کے دوران وہ سی این این کے 15 فیصد تک ووٹ حاصل کرنے کے معیار پر پورا اترنے میں ناکام رہے، جس کے باعث وہ اس مباحثے میں شریک نہیں تھے۔
انہوں نے بائیڈن ٹرمپ مباحثے کے 90 منٹ کے دوران لائیو سٹریم پر سوالوں کے جواب دیے۔