گوانتانامو کے قیدیوں کے تبادلے کے لیے طالبان کے زیر حراست امریکی

امریکی محکمہ خارجہ کے ترجمان نے افغانستان میں قید اپنے شہریوں کی شناخت ریان کوربٹ، جارج گلیزمین اور محمود حبیبی کے طور پر کی ہے، تاہم طالبان نے صرف دو افراد ریان کوربٹ اور جارج گلیزمین کو حراست میں لینے کا اعتراف کیا ہے۔

امریکی محکمہ خارجہ کے مطابق ریان کوربٹ (بائیں)، جارج گلیزمین (درمیان) اور محمود حبیبی (دائیں) افغان طالبان کی قید میں ہیں (جیمز فولی فاؤنڈیشن)

امریکہ کی حکومت نے افغانستان جانے کا ارادہ رکھنے والے اپنے شہریوں کو مشورہ ہے کہ وہ تشدد، حراست یا اغوا کے خطرے کی وجہ سے اس ملک کا سفر نہ کریں، جو اگست 2021 کے بعد سے طالبان کے زیر اقتدار ہے۔

کچھ امریکیوں نے اس مشورے کے خلاف کام کیا اور گذشتہ ہفتے امریکی محکمہ خارجہ نے تصدیق کی تھی کہ افغانستان کا سفر کرنے والے دو افراد اور پہلے سے وہاں موجود ایک امریکی شہری کو طالبان نے بظاہر جعلی الزامات پر گرفتار کیا ہے۔

امریکی محکمہ خارجہ کے ترجمان نے ان کی شناخت ریان کوربٹ، جارج گلیزمین اور محمود حبیبی کے طور پر کی ہے۔

تاہم طالبان نے صرف دو افراد ریان کوربٹ اور جارج گلیزمین کو حراست میں لینے کا اعتراف کیا ہے۔

مزید پڑھ

اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)

طالبان نے اتوار کو اپنے ایک بیان میں کہا: ’دونوں امریکی شہریوں نے ملکی قانون کی خلاف ورزی کی اور اس حوالے سے امریکی حکام سے بات چیت ہوئی ہے۔‘

طالبان کے ایک ترجمان نے تجویز پیش کی کہ وہ انہیں قید میں رکھے ہوئے ہیں تاکہ گوانتاناموبے میں امریکی قید میں موجود افغانوں کے ساتھ ان کا تبادلہ کیا جائے۔

ذبیح اللہ مجاہد نے رواں ماہ کے اوائل میں کہا تھا: ’ہمارے قیدی بھی امریکہ میں ہیں اور گوانتانامو میں بھی ہیں۔ ہمیں ان کے بدلے اپنے قیدیوں کو رہا کروانا چاہیے۔‘

کیوبا کے قریب واقع یہ فوجی جیل، جو قیدیوں کے ساتھ ذلت آمیز اور مبینہ طور پر بدسلوکی کے لیے بدنام ہے، جارج ڈبلیو بش انتظامیہ نے نائن الیون کے بعد قائم کی تھی اور ایک بار 200 سے زیادہ افغانوں کو اس میں رکھا گیا تھا، جن میں سے بیشتر پر کوئی الزام عائد نہیں کیا گیا اور نہ ہی ان کی نظربندی کو چیلنج کرنے کا کوئی قانونی سہارا ہے۔ وائس آف امریکہ نے رواں برس کے آغاز میں خبر دی تھی کہ وہاں صرف ایک افغان قیدی رہ گیا ہے۔

طالبان کے زیر حراست تین امریکیوں کے بارے میں ہم کیا جانتے ہیں۔

ریان کوربیٹ

نیو یارک سے تعلق رکھنے والے ریان کوربٹ نے 2017 میں ’بلوم افغانستان‘ کے نام سے ایک کمپنی شروع کی تھی، جس کا مقصد کاروباری مشاورتی خدمات، مائیکرو فنانس قرضے اور بین الاقوامی ترقیاتی منصوبوں کی تشخیص کے ذریعے ملک کے نجی شعبے کو فروغ دینا تھا۔ وہ افغانوں کو اپنا کاروبار شروع کرنے میں مدد کرنا چاہتے تھے۔

لیکن جب طالبان نے مغربی افواج کو نکال باہر کیا اور کابل پر قبضہ کرلیا تو وہ اپنی حاملہ بیوی اور بچوں کے ساتھ ملک چھوڑ کر چلے گئے۔

وہ بظاہر ’بلوم افغانستان‘ کے عملے کو تربیت دینے کے لیے واپس افغانستان آئے تھے لیکن انہیں اگست 2022 میں ویزا ہونے کے باوجود حراست میں لے لیا گیا تھا۔ سٹیٹ ڈیپارٹمنٹ نے گذشتہ سال کہا تھا کہ انہیں غلط طریقے سے حراست میں لیا گیا تھا۔

ریان کوربیٹ کے وکیل ریان فیہی نے دی انڈپینڈنٹ کو بتایا کہ طالبان نے ان کی حراست کی کوئی وجہ نہیں بتائی لیکن گذشتہ 22 ماہ کے دوران انہیں اپنی اہلیہ کو آٹھ ’مایوس کن اور مشکل‘ کالز کرنے کی اجازت دی گئی۔

وکیل نے کہا: ’بری طرح تشدد کے ساتھ ساتھ وہ خوراک، غذائی اجزا، سورج کی روشنی اور کسی بھی انسان سے رابطے سے محروم ہیں۔ ہمیں بتایا گیا ہے کہ ان پر کئی مرتبہ بے ہوشی کے دورے بھی پڑے اور طالبان کی حراست میں ان کا وزن کافی کم ہو گیا ہے۔‘

وکیل نے دعویٰ کیا کہ ان کے موکل ریان کوربٹ کو تہہ خانے میں ایک چھوٹی سی کوٹھڑی میں رکھا گیا ہے۔

طالبان نے ریان کوربٹ کو قونصلر رسائی کی اجازت بھی نہیں دی ہے۔ دی انڈیپینڈنٹ نے اس سے قبل رپورٹ کیا تھا کہ وہ ان قیدیوں کو مناسب طبی امداد فراہم نہیں کرتے جنہیں وہ ’مغربی ساتھی‘ کہتے ہیں، جو تشدد کے دوران زخمی ہو جاتے ہیں۔

ریان فیہی نے کہا کہ ’ہم اسے یرغمالیوں کی ڈپلومیسی کہتے ہیں کیونکہ ایک طرف وہ عالمی برادری میں شامل ہونا چاہتے ہیں لیکن دوسری طرف قونصلر خدمات کے قائم کردہ اصول کو مسترد کرتے ہیں، جو دوسرے ملک کے نمائندوں کو جیل میں قیدیوں کی دیکھ بھال اور حفاظت کا خیال رکھنے کی اجازت دیتے ہیں۔‘

ریان کوربیٹ کی اہلیہ نے دی انڈپینڈنٹ کو بتایا کہ ان کی بگڑتی ہوئی صحت کی رپورٹس کے پیش نظر بہت دیر ہو جانے سے پہلے انہیں وطن واپس لانا وقت کے خلاف ایک دوڑ ہے۔‘ انہوں نے امریکی صدر جو بائیڈن سے مطالبہ کیا کہ ’وہ ریان کی رہائی کے لیے درکار مشکل کام کریں۔‘

وکیل ریان فیہی نے کہا کہ طالبان یہ سوچ کر غلطی کر رہے ہیں کہ وہ ’ایک بے گناہ شخص اور خاندان کو نشانہ بنا کر‘ اپنے لوگوں کو گوانتانامو سے نکال سکتے ہیں۔

انہوں نے کہا: ’یہ آگے نہیں بلکہ پیچھے کی جانب ایک قدم ہے اور طالبان کو اس سودے بازی سے کچھ حاصل نہیں ہوگا۔‘

وکیل نے نشاندہی کی کہ طالبان جو چاہتے ہیں اس پر امریکی حکومت کو کافی برتری حاصل ہے۔ انہوں نے کہا: ’طالبان افغانستان میں خود مختار اتھارٹی کے طور پر قانونی حیثیت چاہتے ہیں، وہ عالمی برادری کا حصہ بننا چاہتے ہیں، وہ چاہتے ہیں کہ پابندیاں اٹھا لی جائیں اور انہیں سنجیدگی سے لیا جائے۔ روس کی طرح اور ایران کی طرح انتخاب یہ ہے کہ قانون کی حکمرانی کو تسلیم کیا جائے اور فوجداری انصاف کا قانونی نظام قائم کیا جائے۔

’لیکن طالبان ریان کوربٹ جیسے غیر ملکی شہریوں کو تہہ خانے کی کوٹھڑیوں میں بغیر کسی شفافیت کے قید کرکے اور تشدد کا نشانہ بنا کر خود بین الاقوامی برادری کا حصہ نہیں بننا چاہتے۔‘

جارج گلیزمین

 65 سالہ جارج گلیزمین نے دسمبر 2022 میں افغانستان کا سفر کیا تھا تاکہ وہاں کی ثقافت اور نوادرات کا جائزہ لے سکیں۔ وہ اٹلانٹا میں ڈیلٹا ایئرلائنز کے لیے ایئر لائن مکینک کی حیثیت سے اپنے کام سے پانچ دن کی چھٹیوں پر تھے۔

مبینہ طور پر انہوں نے گذشتہ 18 ماہ دیگر قیدیوں کے ساتھ ایک چھوٹے سے زیر زمین سیل میں گزارے ہیں۔ وہ وقفے وقفے سے قید تنہائی میں رہے ہیں اور ان کی صحت خراب ہو رہی ہے۔

ان کی تکلیف اس وقت سامنے آئی جب امریکی کانگریس نے گذشتہ منگل کو ان کی رہائی کے لیے ایک قرارداد منظور کی، جس میں کہا گیا کہ ’حراست کے دوران جارج گلیزمین کو ان کے اہل خانہ کے ساتھ مجموعی طور پر 54 منٹ تک صرف سات مرتبہ فون کالز کی اجازت دی گئی اور قطر کے نمائندوں کے ساتھ ان کی محدود ذاتی ملاقاتیں ہوئیں، جو افغانستان میں امریکہ کی حفاظت کرنے والی طاقت ہے۔‘

قرارداد میں کہا گیا کہ طالبان نے جارج گلیزمین کو ’بغیر کسی جرم کا الزام لگائے یا کسی عدالت میں مناسب کارروائی کی اجازت دیے بغیر‘ حراست میں رکھا ہے۔

ان کے اہل خانہ کو ڈر ہے کہ شاید وہ حراست میں نہ بچ سکیں۔

امریکی وزیر خارجہ نے گذشتہ اکتوبر میں کہا تھا کہ جارج گلیزمین کو غلط طریقے سے حراست میں لیا گیا تھا۔

ان کی اہلیہ الیگزینڈر گلیزمین نے طالبان پر زور دیا ہے کہ وہ انہیں انسانی بنیادوں پر رہا کریں۔ وہ 100 ممالک کا دورہ کرنے کے اپنے منصوبے کے حصے کے طور پر افغانستان جانے والے ایک سیاح تھے۔

محمود حبیبی

محمود حبیبی نے بظاہر 31 جولائی 2022 کو ہونے والے اس امریکی حملے کی قیمت ادا کی ہے، جس میں افغانستان میں القاعدہ کے رہنما ایمن الظواہری مارے گئے تھے۔

طالبان نے ممکنہ طور پر یہ فرض کر لیا تھا کہ محمود حبیبی کا آجر یعنی امریکی فیڈرل ایوی ایشن ایڈمنسٹریشن اس حملے میں ملوث تھا، لیکن انہوں نے سول ایوی ایشن کے ماہر پر جرم کا الزام عائد نہیں کیا۔

مارچ میں امریکی کانگریس نے ان کی رہائی کے لیے ایک قرارداد میں ان کی گرفتاری ظاہری کی۔ محمود حبیبی افغانستان میں پیدا ہوئے لیکن ان کے پاس امریکی شہریت ہے۔

انہیں 10 اگست 2022 کو اس وقت گرفتار کیا گیا تھا، جب طالبان نے ان کے گھر کی تلاشی لی اور ان کا لیپ ٹاپ اور کاغذات وغیرہ چھین لیے تھے۔

طالبان کی قید کے بعد سے حبیبی کی اہلیہ، جن سے ان کی ایک بیٹی بھی ہے، کا ان کے ساتھ کوئی رابطہ نہیں ہوا ہے۔

کانگریس کی قرارداد میں کہا گیا کہ وہ مبینہ طور پر جنرل ڈائریکٹوریٹ آف انٹیلی جنس کے پاس ہیں، لیکن طالبان نے انہیں حراست میں رکھنے سے انکار کیا ہے۔

ان کی بہن آمنہ نواز نے پی بی ایس کو بتایا: ’وہ کہیں بھی رہ سکتے تھے لیکن انہوں نے وہاں رہنے، اپنے ملک کے لیے کام کرنے اور افغانستان کے مستقبل کے لیے کام کرنے کو ترجیح دی۔‘

امریکی قانون سازوں نے بائیڈن انتظامیہ پر زور دیا ہے کہ ’وہ طالبان سے کہیں کہ وہ محمود حبیبی کے انسانی حقوق کا احترام کریں اور حراست کے دوران انہیں مکمل، بلا روک ٹوک اور باقاعدگی سے صحت اور حفاظت کے معائنے کی سہولت فراہم کریں۔‘

© The Independent

whatsapp channel.jpeg

زیادہ پڑھی جانے والی ایشیا