بین الاقوامی قانون اور انسانی حقوق میں مہارت رکھنے والے قانونی ماہرین کے ایک آزاد قانونی تجزیے کے مطابق اسرائیل کی جانب سے غزہ میں جنگ کے دوران فیفا کے قوانین کی خلاف ورزی کرنے پر فٹ بال سے متعلق کسی بھی سرگرمی پر پابندی لگانی چاہیے۔
فلسطینی فٹ بال ایسوسی ایشن (پی ایف اے) نے مئی میں اسرائیل کو معطل کرنے کی تجویز پیش کی تھی جس کے بعد فیفا نے جولائی میں اپنی کونسل کے ایک غیر معمولی اجلاس میں اس معاملے پر غور کرنے کا وعدہ کرتے ہوئے فوری قانونی جائزہ لینے کا حکم دیا تھا۔
ایشیئن فٹ بال کنفیڈریشن نے بھی اسرائیل کے خلاف کارروائی کی حمایت کی تھی اور پی ایف اے کے صدر جبریل الرجب نے کہا تھا کہ فیفا (انسانی حقوق کی) ’خلاف ورزیوں یا فلسطین میں جاری نسل کشی‘ سے لاتعلق رہنے کا متحمل نہیں ہو سکتا۔
اٹارنی میکس ڈو پلیسی، جو جنوبی افریقہ کی جانب سے بین الاقوامی عدالت انصاف میں اسرائیل پر نسل کشی کے مقدمے کا حصہ تھے، نے سارہ پوڈیفن جونز کے ساتھ مل کر سماجی انصاف کی تنظیم ’ایکو‘ کے لیے یہ تجزیہ تحریر کیا۔
رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ ’اس میں کوئی شک نہیں کہ فلسطین میں اسرائیل کے طرز عمل نے فیفا کے مقاصد کو نقصان پہنچایا ہے اور وہ اسے مسلسل نقصان پہنچا رہا ہے۔‘
رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ ’اسرائیل نے آرٹیکل 3 کے برعکس فلسطینیوں کے بین الاقوامی طور پر تسلیم شدہ انسانی حقوق کی خلاف ورزی کی ہے۔ اسرائیل نے آرٹیکل 4(1) کی براہ راست خلاف ورزی کرتے ہوئے نسل، قومیت اور جائے پیدائش کی بنیاد پر فلسطینیوں کے ساتھ امتیازی سلوک کیا ہے جو اب بھی جاری ہے۔‘
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
رپورٹ کے مطابق: ’یہ طرز عمل آرٹیکل 5.1 (b) میں بیان کردہ انسانی مقاصد کے لیے نقصان دہ ہے۔ اسرائیل کا طرز عمل اپنے مقاصد اور بین الاقوامی سطح پر تسلیم شدہ انسانی حقوق کی اسی طرح کی سنگین خلاف ورزیوں کے حوالے سے فیفا کے اختیار کردہ موقف کے مطابق مذمت کا تقاضا کرتا ہے۔‘
فلسطینی تجویز میں اسرائیل فٹ بال ایسوسی ایشن (آئی ایف اے) پر اسرائیلی حکومت کی جانب سے بین الاقوامی قوانین کی خلاف ورزیوں اور عرب کھلاڑیوں کے ساتھ امتیازی سلوک کا بھی الزام لگایا گیا ہے۔
دوسری جانب اسرائیلی تنظیم آئی ایف اے نے اسے مسترد کر دیا ہے۔
’سماجی انصاف کی تنظیم ایکو‘ نے کہا ہے کہ فیفا، بین الاقوامی اولمپک کمیٹی اور کھیلوں کی فیڈریشنز سے اسرائیل پر بین الاقوامی کھیلوں میں شرکت پر پابندی لگانے کے لیے ان کی درخواست پر 380,000 سے زیادہ دستخط موصول ہوئے ہیں۔
روئٹرز نے اس حوالے سے تبصرہ کے لیے فیفا سے رابطہ کیا ہے۔
’فیفا کی مداخلت ضروری ہے‘
حالیہ برسوں میں جب پی ایف اے کی جانب سے اسرائیل کو معطل کرنے کی تحریکوں پر فیفا نے اسرائیل پر پابندیاں عائد نہیں کیں۔ 2017 میں اس معاملے کو بند کرنے کا اعلان کیا اور قانونی یا ڈی فیکٹو فریم ورک میں تبدیلی تک اس پر مزید بحث نہیں کی گئی۔
جنوبی افریقہ کی فٹ بال ایسوسی ایشن کو 1961 میں ملک کی نسل پرستی کی پالیسی کی وجہ سے معطل کر دیا گیا تھا جبکہ بلقان میں سرب اکثریتی حکومت کی جارحیت کے دوران بھی اقوام متحدہ کی پابندیوں کے بعد یوگوسلاویہ پر 1992 میں پابندی عائد کر دی گئی تھی۔
رپورٹ میں دلیل دی گئی کہ اکتوبر کے بعد ہونے والی پیش رفت نے ’ایک نئے قانونی فریم ورک کو جنم دیا ہے جس کے لیے فیفا کی مداخلت کی ضرورت ہے۔‘
جبریل الرجب نے فیفا کانگریس میں ماضی کی کئی مثالیں دیتے ہوئے ممبر ایسوسی ایشنز کو معطل یا نکالنے کے فیفا کے ماضی کے فیصلوں کا بھی حوالہ دیا۔
مثال کے طور پر جنوبی افریقہ کی فٹ بال ایسوسی ایشن کو 1961 میں ملک کی نسل پرستی کی پالیسی کی وجہ سے معطل کر دیا گیا تھا جبکہ بلقان میں سرب اکثریتی حکومت کی جارحیت کے دوران بھی اقوام متحدہ کی پابندیوں کے بعد یوگوسلاویہ پر 1992 میں پابندی عائد کر دی گئی تھی۔
حال ہی میں 2022 میں فیفا اور اس کے یورپی ہم منصب یو ای ایف اے دونوں نے یوکرین پر حملے کے بعد روسی ٹیموں کو بین الاقوامی مقابلوں سے معطل کرنے کے لیے تیزی سے کام کیا۔
ناقدین نے اسرائیل پر فلسطینیوں کے خلاف نسل کشی کا الزام لگایا ہے جس کی اسرائیل تردید کرتا ہے۔
اسرائیل کی سات اکتوبر سے غزہ پر جاری جارحیت سے اب تک 38 ہزار سے زیادہ فلسطینی مارے جا چکے ہیں جن میں زیادہ تعداد عام شہریوں، بچوں اور خواتین کی ہے۔