شمالی انڈیا کی پولیس پر الزام لگایا گیا ہے کہ وہ ’مسلمانوں کے معاشی بائیکاٹ‘ کو ہوا دے رہی ہے۔ اس سے قبل پولیس نے ریستورانوں کو ہدایت کی تھی کہ وہ اپنے مالکان کے نام آویزاں کریں تا کہ ہندوؤں کے مقدس مہینے کے دوران ’ابہام سے بچا جا سکے۔‘ اس مہینے میں ہزاروں ہندو پیدل یاترا کا آغاز کریں گے۔
سب سے زیادہ آبادی والی شمالی ریاست اتر پردیش کے ضلعے مظفر نگر کی پولیس نے دعویٰ کیا ہے کہ ہندو کیلنڈر کے مطابق برسات کے مہینے میں زبانی طور پر حکم جاری کیا گیا اور یہ ہر سال جاری کیا جاتا ہے۔ اطلاعات کے مطابق ریاستی حکام نے کھانے پینے کی اشیا فروخت کرنے والی ریڑھیوں کو بھی احکامات پر عمل کرنے کا کہا ہے۔
ہندو دیوتا شیو کے لاکھوں عقیدت مند دریائے گنگا سے پانی لینے کے لیے شمالی ریاستوں اتراکھنڈ، بہار اور اتر پردیش میں واقع مقدس مقامات کی پیدل یاترا کرتے ہیں، جسے ’کنور یاترا‘ کے نام سے جانا جاتا ہے۔ اس سال یہ سفر 22 جولائی سے شروع ہو گا۔
قبل ازیں پولیس نے رواں ہفتے جاری کی گئی ہدایات کا جواز پیش کرنے کے لیے یاتریوں پر کھانے پینے کی پابندی جیسے کہ گوشت کا استعمال نہ کرنے کے رواج کا حوالہ دیا ہے۔
سینیئر سپرنٹنڈنٹ آف پولیس ابھیشیک سنگھ نے کہا کہ ان کے دائرہ اختیار میں آنے والے تقریباً 240 کلومیٹر کے علاقے میں کھانے پینے کی تمام چھوٹی بڑی دکانوں کو ہدایت کی گئی ہے کہ وہ ’اپنے مالکان یا دکانیں چلانے والوں‘ کے نام درج کریں۔‘
انہوں نے کہا کہ یہ فیصلہ اس بات کو یقینی بنانے کے لیے کیا گیا ہے کہ ’یاتریوں کو کوئی الجھن نہ ہو‘ اور ریاست میں امن و امان کی کسی بھی ممکنہ صورت حال سے بچا جاسکے۔
مظفر نگر پولیس کے تعلقات عامہ کے افسر انسپیکٹر راکیش کمار نے خبر رساں ادارے روئٹرز کو بتایا کہ ’اس بار ایک پجاری نے ہم سے درخواست کی کہ ایسی کارروائی کی جائے، جس سے ایسا کچھ بھی کھانے کے لیے نہ ہو، جس سے اس مقدس مہینے کے دوران ان کی کوششوں کو نقصان پہنچے۔‘
حزب اختلاف کی جماعتوں اور سول سوسائٹی کے ارکان کی جانب سے اس حکم کو شدید تنقید کا نشانہ بنایا گیا ہے کیونکہ اس سے ریاست میں مشکلات کا شکار اقلیتوں کے ساتھ مزید امتیازی سلوک ہوا ہے، جو ’جنوبی افریقہ میں نسلی امتیاز کی یاد دلاتا ہے۔‘
اس سے قبل انڈیا کے شمالی اور مغربی حصوں میں انتہائی دائیں بازو کی تنظیموں کی جانب سے مسلمانوں کے معاشی بائیکاٹ کے مطالبے نے اقلیتوں کو اپنا کاروبار چلانے سے خوفزدہ کر دیا تھا۔
اپوزیشن کی سماج وادی پارٹی کے سربراہ اکھلیش یادو نے ایکس پر ایک پوسٹ میں کہا: ’اس طرح کے احکامات سماجی جرائم ہیں، جو ہم آہنگی کے پر امن ماحول کو خراب کرنا چاہتے ہیں۔‘
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
مرکزی اپوزیشن جماعت کانگریس کے ترجمان پون کھیرا نے ایکس پر ایک پوسٹ میں پوچھا کہ ’کیا یہ ہدایت مسلمانوں کے معاشی بائیکاٹ کی طرف ایک قدم ہے۔‘
حیدرآباد سے قانون ساز اسدالدین اویسی کے بقول: ’اسے جنوبی افریقہ میں نسلی امتیاز کہا جاتا ہے اور ہٹلر کے جرمنی میں ’یہودی بائیکاٹ‘ پکارا جاتا ہے۔‘
مظفر نگر، جہاں اب وزیراعظم نریندر مودی کی ہندو قوم پرست جماعت بھارتیہ جنتا پارٹی (بی جے پی) کی حکومت ہے، میں 2013 میں فرقہ وارانہ فسادات ہوئے تھے، جس کے دوران تقریباً 65 افراد کی جان گئی اور ہزاروں بے گھر ہوگئے تھے۔
اگرچہ مودی نے اپنے اتحادیوں کی حمایت سے گذشتہ مہینے لگاتار تیسری مدت کے لیے وزیراعظم کا حلف اٹھایا لیکن ان کی بی جے پی کو اترپردیش میں 29 نشستوں کا نقصان ہوا، جہاں 24 کروڑ کی آبادی کا پانچواں حصہ مسلمانوں پر مشتمل ہے۔
بی جے پی اور نریندر مودی کی وفاقی حکومت پر متعدد مواقع پر سول سوسائٹی، حزب اختلاف کے گروپوں اور کچھ غیر ملکی حکومتوں کی جانب سے مذہبی امتیاز کو ہوا دینے کے مقصد سے فیصلے کرنے کا الزام عائد کیا گیا ہے، تاہم وزیراعظم کا کہنا ہے کہ وہ اسلام یا مسلمانوں کی مخالفت اور ہندوؤں اور مسلمانوں کے درمیان فرق نہیں کرتے۔
ان بیانات کے باوجود اتر پردیش میں امتیازی سلوک جاری ہے۔
قبل ازیں رواں ماہ مظفر نگر میں بی جے پی کے رکن اسمبلی نے کہا تھا کہ یاترا کے دوران مسلمانوں کو اپنی دکانوں کا نام ہندو دیوتاؤں کے نام پر نہیں رکھنا چاہیے۔ اخبار ’ٹائمز آف انڈیا‘ کے مطابق انہوں نے کہا کہ ’جب یاتریوں کو پتہ چلتا ہے (کہ وہ جن دکانوں پر کھاتے ہیں انہیں مسلمان چلاتے ہیں) تو اس سے تنازع پیدا ہوتا ہے۔‘
اترپردیش کے وزیراعلیٰ یوگی آدتیہ ناتھ نے ’کنور یاترا‘ میں شریک لوگوں کی تعظیم کے طور پر راستوں پر کھلے عام گوشت کی فروخت پر پابندی عائد کردی ہے۔
© The Independent